پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر
الحق سے اُن کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات مختصر سے انٹرویو میں بدل
گئی۔ میں نے راجہ ظفر الحق سے اُن کے سیاسی کیرئیر کے حوالے سے پوچھا تو
اُنہوں نے بڑا تفصیلی جواب دیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ 1963ء سے 1971ء تک میں
پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوا اور پھر ضلع راولپنڈی کا صدر
بنا اور یہ عہدہ میرے پاس 1971ء سے 1981ء تک رہا۔ پھر 1973ء میں میرا نام
سینٹرل ورکنگ کمیٹی آف پاکستان مسلم لیگ کے لئے دیا گیا۔ 1977ء سے 1978ء تک
میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے صدر رہا اور 1981ء میں وائس پریذیڈنٹ ہائی
کورٹ بار منتخب ہوا۔ 1981ء میں میرا نام پاکستان پینل آف ایکسپرٹ لاء کمیشن
کے لئے دیا گیا۔ 1981ء سے 1985ء تک وہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و مذہبی
اُمور رہا۔ 1986ء سے 1987ء تک میں وزیراعظم پاکستان کا سیاسی مشیر رہا اور
مجھے اقوام متحدہ کے 45 ویں جنرل اسمبلی سیشن میں پاکستان کی نمائندگی حاصل
کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ 1991ء میں 6 سال کے لئے سینٹ کا ممبر منتخب ہوا
اور یہ اعزاز 1997ء میں بھی حاصل ہوا۔ 1991ء سے 1994ء تک میں چیئرمین
سٹینڈنگ کمیٹی منتخب ہوا اور 1992ء سے 1997ء تک اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی
کا ٹرسٹی بنا۔ 1992ء میں موتمر اسلامی کا سیکرٹری جنرل منتخب ہوا۔ 1996ء
میں پاکستان مسلم لیگ کا سینٹرل وائس پریذیڈنٹ بنا۔ مئی 1994ء سے 1996ء تک
سینٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوا۔ 1997ء سے اکتوبر 1999ء تک وفاقی وزیر
مذہبی اُمور رہا۔ 1997ء میں پھر دوبارہ سیکرٹری جنرل موتمر اسلامی بنا اور
پھر 2002ء سے 2007ء تک اسی عہدے پر کام کرتا رہا۔ 2000ء سے پاکستان مسلم
لیگ کا بطور چیئرمین اب تک فرائض سر انجام دے رہا ہوں۔ 2009ء میں 6 سال کے
لئے سینٹ کا ممبر منتخب ہوا ہوں۔ اتنی بھرپور سیاسی زندگی گذارنے والی
شخصیت سے جب میں نے پوچھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پر جیسے بھی حالات آئے
آپ نے کبھی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ تو ہنس کر جواب دیا کہ ہم وفاداریاں
تبدیل کرنے والوں میں سے نہیں ہیں، ہم آخری سانس تک وفا کریں گے۔ جب میں نے
یہ پوچھا کہ عمران خان کی سیاست کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو جواب دیا
کہ پاکستانی قوم کا مزاج دھرنوں اور احتجاج کی سیاست کا نہیں ہے، جس کو
عوام منتخب کریں اُس کو کام کرنے دیں اگر وہ عوام کی خدمت بہتر انداز میں
نہ کر سکے تو اگلے الیکشن میں عوام اسے مسترد کر دیں گے۔ پانامہ لیکس کے
حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب عدالت میں ہے اس پر کوئی تبصرہ
نہیں کر سکتا البتہ عوام کو سچ اور جھوٹ کا جلد پتہ چل جائے گا۔ جب میں نے
یہ پوچھا کہ اس وقت حکومت کیسی چل رہی ہے تو اُن کا جواب تھا کہ آپ
لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دیکھ لیں، آپ ترقیاتی کاموں کو دیکھ لیں، آپ ریلوے اور
پی آئی اے کو دیکھ لیں، آپ عوام کو دی جانے والی سہولیات کو دیکھ لیں، کئی
کئی میل کی گاڑیوں کی لائنیں لگی ہوتی تھی گیس لینے کے لئے، اسی طرح
پاکستان کے اثاثے دیکھ لیں، دہشت گردی کی کمی اور امن کو دیکھ لیں، آپ کو
ہر طرف پہلے سے بہت بہتری نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے
اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ پٹرول کی
قیمتیں آپ کے سامنے ہیں۔ حکومت کو اگر صحیح معنوں میں 5 سال کام کرنے دیا
جاتا تو اس سے زیادہ اچھے نتائج آسکتے تھے۔ یہ روزانہ کا احتجاج اور دھرنے
ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ سی پیک سے پاکستان کی
معیشت مستحکم ہو گی تو جواب دیا کہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ مستحکم ہو گی۔
گوادر پورٹ پاکستان کی معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اﷲ
تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |