وہ بہت المناک رات تھی۔ ایک طرف کچھ دست
دعا تھے جو اپنے رب سے سلامتی کے خواستگار تھے، کچھ آنکھیں تھیں جو خون بہا
رہی تھیں کہ شاید فطرت کو ترس آ جائے۔ مسیحا اپنا پورا زور لگا رہے تھے۔بہت
ساری جدید مشینیں موت سے برسرپیکار تھیں مگر دوسری طرف فطرت کے اپنے فیصلے
ہیں۔جو حتمی ہوتے ہیں۔ کہ ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ پوری کوشش کے
باوجودمشینوں پر نظر آنے والے مدوجزر ایک سیدھی لکیر میں تبدیل ہو رہے
تھے۔کوئی دوا اور کوئی دعا کام نہیں آرہی تھی ۔ایک زندگی کا چراغ آہستہ
آہستہ گل ہو رہا تھا۔اس وقت شدت سے احساس ہوا کہ ا نسان کس قدر بے بس
ہے۔مریض دو دن سے CCU میں تھا۔ڈاکٹر ذکی شام کو کمرے میں آئے اور کہہ گئے
کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی مثبت چیز نظر نہیں آرہی۔ اسی وقت
سے یہ سن کر سب بہت پریشان تھے۔رات کو مریض کا بلڈ پریشر مزید گرنے
لگا۔پہلے10/40 تک پہنچا پھر مزید کم ہونے لگا۔ ایسے میں دل نے وقفے وقفے سے
تین جھٹکے کھائے اور رات کے ایک بجے لاہور کا وہ سپوت جہانگیر بدر سب کو
روتا چھوڑ کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا۔ایک پہاڑجیسا شخص جس نے ڈیڑھ سال
سے زیادہ عرصہ بیماری سے لڑا ۔ گھر کے افراد کے علاوہ کسی کو اپنی بیماری
کا بتایا نہ محسوس ہونے دیا ،آج ہم میں نہیں۔ بس اس کی یادیں ہیں خوبصورت
ڈستی یادیں۔ لوگ اس سے کس قدر پیار کرتے تھے اس کا اندازہ آج ہو رہا ہے۔
جہانگیر کی والدہ اسے پیار سے بادشاہ کہتی تھیں اور یہ نام بچپن کے دوستوں
میں بھی ہمیشہ بہت مقبول رہا۔آْج دلوں کے اس بے تاج بادشاہ کو کائنات کے
بادشاہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی مرضی، ہر
مرضی پر غالب ہے-
ایک ہفتہ پہلے وہ ہسپتال ہی میں تھے۔ میں بھی موجود تھا جب قائم علی شاہ
صاحب کا فون آیا۔ میں نے محسوس کیا کہ بیماری کے دوران جب بھی کسی ہمدم
دیرینہ کا فون آئے ۔ بہت خوش ہوتے اور وقتی طور پر سب بیماری بھول کر چہک
اٹھتے تھے۔ دواؤں کی وجہ سے شدید غنودگی تھی مگر شاہ صاحب کا نام سنتے ہی
پوری طرح ہوش میں آگئے۔ مجھے نہیں پتہ کیا گفتگو ہوئی مگر شاہ صاحب کے کسی
سوال کے جواب میں کہہ رہے تھے۔ شاہ صاحب میری فکر نہ کریں آپ کو پتہ ہے کہ
پارٹی نے جب بھی اور جو بھی فیصلہ کیا ہے اسکے بارے کبھی سوچا ہی نہیں کہ
صحیح ہے یا غلط۔ جو کہا میٹنگ میں کہہ دیا پھر بعد میں اختلاف کیسا۔ زیادتی
پر بھی گلہ نہیں کیا کہ یہ بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔ سیاسی طور پر اسی پارٹی
میں پیدا ہوا تھا اور اس کے علاوہ کبھی سوچا ہی نہیں۔ اب بھی جو فیصلہ اور
جو حکم ہو گا دل و جان سے قبول ہو گا۔ پارٹی سے ایسی وابستگی اور یہی
وفاداری جہانگیر کی پہچان تھی اور آج موت کے بعد بھی یہی اس کا سرمایہ
افتخار ہے۔
جہانگیر بدر ایک غریب گھر کا بیٹا تھا جو اپنی محنت کے بل پر عزت اور شہرت
کی بلندیوں پر پہنچا۔مگر اپنے جیسے دیگر افراد سے ہٹ کر اس نے آسمان کی
بجائے اپنا ناطہ ہمیشہ زمیں سے قائم رکھا۔ دھرتی ماں سے استوار رکھا۔ اپنے
جیسوں سے اپنائیت کا بھرم رکھا۔ بلندیوں کو چھونے کے باوجود اس نے نہ انداز
بدلا، نہ اطوار بدلے ، نہ لہجہ تبدیل ہوا اور نہ ہی لوگوں سے ملنے کا
انداز۔ مجھے یاد ہے۔ جہانگیر وفاقی وزیر تھے۔ ایک دن لاہور موجود تھے اور
گھر سے ہم دونوں کہیں جا رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ ایک بوڑھا آدمی
گیٹ سے اندر داخل ہوا اور بڑے غصے میں کہا، او باہر نکل۔ جہانگیر بغیر کسی
چوں چراں فوراً باہر تھے۔ اس شخص نے پہلا فقرہ یہ کہا ، خود کو کیا سمجھتے
ہو تم۔ پھر گالیوں کی ابتدا ہو گئی۔ وہ شخص پارٹی، وزرا اور جہانگیر بدر
کوبے نقط سنا رہا تھا۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگا۔ میں نے کہا ، محترم گالیاں
تو نہ لکالیں، میرا فقرا مکمل ہونے سے پہلے جہانگیر نے مجھے روک دیا یہ
کہتے ہوئے کہ تمھارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ آدمی جی بھر کے
گالیاں نکال چکا تو اسے ایک طرف لے گئے۔ بڑے اطمینان سے اس کی بات سنی۔ کچھ
مدد کی اور ایک رقعہ کسی دوست کے نام دیا کہ اس سے مل لو کام ہو جائے گا۔
ہم گاڑی میں بیٹھے تو میں نے پوچھا ۔ کوئی پارٹی ورکر ہے کیا؟ ہنس کر بولے
، پتہ نہیں کون ہے۔
ٓآپ جانتے نہیں اور وہ گالیاں دے رہا تھااور آپ وہ گالیاں خوش دلی سے قبول
کر رہے تھے۔ بات سمجھ نہیں آئی۔
کہنے لگے سیدھی سی بات ہے۔ ایک غریب آدمی تھا جس کی بات کوئی سننے کو تیار
نہیں تھا۔مجھے پہلی دفعہ ملا ہے۔اسے کچھ مسئلہ درپیش تھا۔ شدید پریشانی میں
وہ میرے پاس آیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ اس جیسے کسی شخص کا بیٹا یا بھائی
وزیر ہے جو میری بات ضرور سنے گا۔ اس کے اندر ایک غبار تھا۔ جو نہ نکلتا تو
وہ پاگل ہو جاتا۔ میں نے اس کی بات سن لی ہے اسے تسلی دے دی ہے۔ کچھ مطمن
ہو کر وہ چلا گیا ہے۔ لوگ سیاستدانوں کو ان کی غیر موجودگی میں برا بھلا
کہتے ہیں مجھے وہ سامنے کہہ رہا تھا اس لئے تمھیں عجیب لگا مگر مجھے برا
نہیں لگا۔یاد رکھو یہ ان لوگوں کا احسان ہے کہ اس قدر پیار کرتے ہیں۔ یہ بے
بس اور مجبور لوگ ہیں۔ ان کا کام اگر ہو سکے تو ضرور کرو اور اگر نہیں ہو
سکتا تو ان کی تسلی اور تشقی ضرور کرو۔ دعا دیں گے۔
جب پہلی دفعہ وزیر بنے توجہانگیر کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہوا
۔جہانگیر لاہور آئے ہوئے تھے ملنے وا ٰلوں نے گھر میں ہر طرف ڈیرے لگائے
ہوئے تھے۔ کوئی کمرہ خالی نہ تھا حتیٰ کہ برآمدے اور ڈیوڑھی میں بھی کھڑا
ہونے کے لئے جگہ ملنی مشکل تھی ۔ ایسے میں ایک صاحب ضد کر رہے تھے کہ
علیحدہ کھڑے ہو کر بات کرنی ہے ۔ جہانگیر نے سمجھایا کہ بھائی گھر تو کیا
لان میں بھی علیحدہ جگہ نہیں۔ مگر وہ بضد تھے۔ تنگ آکر جہانگیر نے مذاق میں
کہا ، غسل خانہ خالی ہے۔ وہ جہانگیر کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے غسل خانے
میں گھس گئے۔ لوگ غسل خانے کے نیم کھلے دروازے سے انہیں باتیں کرتے دیکھ کر
قہقے لگا رہے تھے۔
انہیں گاڑی پر وزارت کا جھنڈا لہرانے کا بالکل شوق نہیں تھا۔ وزارت کے
دوران رات کے دو بجے ہم اسلام آباد جا رہے تھے۔ شارع اسلام آباد پر پولیس
کا زبردست قسم کا ناکہ تھا۔ پولیس والوں نے ہماری گاڑی روکی اور باہر نکلنے
کو کہا۔ ہنس کر پوچھا کہ بغیر نکلے گزارہ نہیں ہو سکتا کیا۔ وہ پولیس والا
کچھ ناراض ہونے لگا۔ ڈیش بورڈ سے جھنڈا نکال کر پولیس والوں کو محسوس ہوئے
بغیر مجھے دیا کہ باہر گاڑی پر لگا دوں۔ جھنڈا لگا دیکھ کر سینئر افسر تیزی
سے آیا اور اس نے نعرہ لگایا ، یہ تو بدر صاحب ہیں۔ اب بدر صاحب باہر کھڑے
تھے اور ناکے کی بجائے تمام پولیس والے بدر صاحب کے ارد گرد۔ ہر ایک نے
انہیں گلے لگایا پھر اپنے مسائل بتائے۔ بڑی مشکل سے پندرہ منٹ بعد ہم وہاں
سے آگے چل سکے۔ایسے چھوٹے چھوٹے بے پناہ واقعات ہیں جن سے جہانگیر کی لوگوں
سے اور لوگوں کی جہانگیر سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ لاہور کا کوئی باسی ملے
اس کے بارے اک نئی کہانی سنائے گا۔ ایسی کہانی جس سے پیار چھلکتا ہو گا،
خلوص پھوٹتا ہو گا۔ محبت کی مہک آتی ہو گی۔
جنازے اٹھنے سے کچھ قبل ایک بوڑھا شخص جہانگیر کا چہرہ دیکھنے کے لئے بہت
منت سماجت کر رہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر بچے اسے اندر لے گئے۔چہرہ دیکھنے
کے بعد وہ ڈھاریں مار کر رونے لگا۔ لوگوں نے پوچھاتو بتایا کہ اس کے گھر
میں سوائے بھوک کے کچھ نہیں تھا۔ کوئی سیاسی تعلق بھی نہیں تھا۔ پتہ نہیں
کیوں اور کیا سوچتے بدر صاحب کے گھر آ گیا۔ اپنی داستاں کہتے رو پڑا۔ بدر
صاحب نے حوصلہ دیا اور ایک محکمے کے MD سے بات کرکے مجھے اس کے پاس بھیجا۔
اس دن سے گو میں وہاں چپڑاسی کی نوکری کر رہا ہوں مگر اب میرے گھر سے بھوک
رخصت ہو چکی ۔ میں اپنے محسن سے پھر کبھی نہیں ملا کہ شکریہ ادا کرتا۔آج ان
کے مرنے کی خبر سنی تو نہیں رہ سکا۔ سوچا کہ ایک دفعہ وہ چہرہ تو دوبارہ
دیکھ لوں۔جہانگیر بدر نے ایسے پانچ سو سے زیادہ لوگوں کو درجہ چہارم میں
نوکریاں دینے کے جرم میں نیب کاٹی۔
جہانگیر نے زندگی کے سات سال جیل میں گزارے ۔ کہتے ہیں انسان کی زندگی میں
سب سے خوبصورت چیز اس کی جوانی ہے۔ جہانگیر نے اپنی یہ خوبصورتی عوام اور
پارٹی کی نذر کر دی۔ اپنی بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے حصے کا پیار بھی
پارٹی اور عوام میں بانٹ دیا۔ مارشل لائی دور میں جب وہ جیل میں نہ ہوتے تو
سپیشل پولیس کی ایک گاڑی ہر وقت ان کے تعاقب میں ہوتی۔ ان پولیس والوں کو
بڑے پیار سے ملتے۔ کھانا کھلاتے اور بعض دفعہ جب بچوں نے کہیں جانا ہوتا تو
ہنس کر پولیس کی گاڑی میں ہی بیٹھ جاتے کہ بھائی میرے پیچھے تو تم نے آنا
ہی ہے آج گاڑی نہیں ہے اکھٹے چلتے ہیں۔ چنانچہ پولیس کی ٹوٹی پھوٹی گاڑی
میں بیٹھ کر ان کے ساتھ جہاں جانا ہو چلے جاتے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزارا ہوا سیاسی دور ان کی زندگی کا سرمایہ
تھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد کچھ بج سے گئے۔ بلاول سے بے پناہ پیار تھا مگر
اس کے ساتھ پوری طرح کام کرنے کی زندگی نے اجازت نہ دی۔بے نظیر کے بعد
پارٹی قیادت کی طرف سے کچھ بے اعتناعی بھی ان کے استقلال اور پارٹی سے محبت
میں کچھ فرق نہ ڈال سکی۔آخر دم تک پارٹی ان کے ہر سانس میں بسی تھی۔
ؒلاہور کے عظیم باسیوں نے جہانگیر بدر کی محبت اور پیار کا جواب ان کے
جنازے میں بھر پور شرکت سے دیا۔ہر شخص نے اس کی وفاداری اور استقامت کو
خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وہ سیاسی ورکرز کے لئے اک مثال تھا، مثال ہے اور
مثال رہے گا۔ |