سی پیک کا خواب پورا ہوا
(Zeeshan Ansari, Sialkot)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ساحلی
قصبہ گوادر اور اس سے ملحقہ علاقہ 1958 میں حکومت پاکستان نے سلطنتِ اومان
سے خریدا تھا۔اس ساحلی علاقے کی ایک بڑی بندرگاہ بننے کی قدرتی صلاحیت اس
سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی جب 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو
ڈیپ سی پورٹ کے لیے بہترین مقام قرار دیا تھا۔اس کے بعد سے گوادر کو
بندرگاہ کے طور پر ترقی دینے کی باتیں تو ہوتی رہیں لیکن اس پر عملی کام
کئی دہائیوں بعد سنہ 2002 میں شروع ہوا۔اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے
گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کے کام کا افتتاح کیا اور 24 کروڑ ڈالر کی لاگت
سے یہ منصوبہ 2007 میں مکمل ہو گیا۔حکومت نے اس نئی نویلی بندرگاہ کو چلانے
کا ٹھیکہ سنگاپور کی ایک کمپنی کو بین الاقوامی بولی کے بعد دے دیا۔گوادر
کی بندرگاہ پہلی بار تنازع اور شکوک و شبہات کی زد میں اس وقت آئی جب 2013
میں حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی کمپنی سے لے
کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا۔ماہرین اس معاملے کی شفافیت پر آج بھی
سوال اٹھاتے ہیں۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ
کاری کی باتیں سامنے آنے لگیں۔اسی دوران نواز شریف کی سربراہی میں بننے
والی حکومت نے اعلان کیا کہ چینی حکومت نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی
سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔اس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی
راہداری کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی
بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔اس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے اور اس
وقت معلوم ہوا کہ اس منصوبے میں سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے
علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔چونکہ یہ راہداری گوادر سے شروع ہوتی
ہے (یا ختم ہوتی ہے) اس لیے گوادر اور اس کی بندرگاہ کو اس سارے منصوبے میں
مرکزی اہمیت حاصل ہے۔سی پیک کے تحت گوادر میں ابتدائی طور پر یعنی 2017 تک
ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے یہاں بندرگاہ کو توسیع دینے
کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔گوادر بندر گاہ سے پہلے
میگا پائلٹ ٹریڈ کارگوکی روانگی پر پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں
وزیر اعظم نواز شریف ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف ،مشیر قومی سلامتی ناصر
جنجوعہ،وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اﷲ زہری ،وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف ،وفاقی
وزیر احسن اقبال ،حاصل بزنجو ،مولانا فضل الرحمان اور چینی سفیر سن وی ڈونگ
سمیت دیگر پاکستان اور چین سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات نے شرکت
کی۔تقریب سے خطاب کے بعد وزیر اعظم نے پہلے تجارتی قافلے کے پائلٹ پراجیکٹ
کا افتتاح کیا جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے تجارتی بحری جہاز کی
روانگی کا افتتاح کیا۔اس موقع پر وزیر اعظم اور آرمی چیف نے سامان لے کر
جانے والے بحری جہاز کے عملے سے بھی ملاقات کی۔ پہلا قافلہ 300کنٹینرز کو
لیکر روانہ ہوا۔ تقریب کے دوران پاکستان اور چین کے گلوکاروں نے مشترکہ
دوستی گیت بھی گایا۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے افتتاح کے بعد خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ پیک کا خواب پورا ہو ا اور یہ منصوبہ پاکستان سمیت پورے
خطے کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ ہے۔سی پیک سے پاکستان پوری دنیا میں تجارتی
سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا ، سی پیک سے خطے کی بڑی آبادی کو فائدہ ہو گا،
سی پیک منصوبہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔سی پیک کے دشمن پاکستان کے دشمن
ہیں۔ وقت کیساتھ ترقی کرتے اور آگے بڑھتے جائیں گے۔ پاک چین دوستی پر فخر
ہے۔چین کے سفیر سن وی ڈونگ نے کہا کہ پائلٹ پروجیکٹ کی تکمیل پر ایف ڈبلیو
اواور سی پیک منصوبے کو سیکیورٹی دینے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
بھی شکر گزار ہیں۔ سن وی ڈونگ نے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے ترقی
اور خوشحالی اب دور نہیں ،اس منصوبے کے تحت16ذیلی منصوبوں سے 10ہزار سے
زائد نوجوانوں کو روگار ملے گا۔ جبکہ گوادر میں پراپرٹی ڈیلروں کا کہنا ہے
کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام شروع ہونے کے بعد وہاں
پچھلے دس برسوں سے زمینوں کی گری ہوئی قیمتیں پھر سے چڑھنا ہونا شروع ہوگئی
ہیں اور ایک ماہ کے دوران ان میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔قیمتوں میں
اضافے کی وجہ سے پاکستان کے مختلف علاقوں سے سرمایہ کار اور پراپرٹی ڈیلر
بھی دوبارہ گوادر پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔گوادر میں ان دنوں پراپرٹی ڈیلروں
کی دوکانوں پر گاہکوں کا رش ہے اور جو پراپرٹی ڈیلر کئی برس پہلے اپنا
کاروبار بند کرکے چلے گئے تھے ،انہوں نے اپنی دوکانیں پھر سے کھول لی ہیں۔
جو پلاٹ پہلے دس لاکھ کا تھا اسکا ریٹ بیس لاکھ ہوگیا ہے اور پانچ لاکھ
والا پلاٹ کی قیمت دس لاکھ ہوگی ہے۔گوادر پورٹ کی سب سے زیادہ سٹریٹجک
اہمیت چین کیلئے ہے۔ چین کے دفاعی، تجارتی، علاقائی، مفادات کیلئے گوادر
پورٹ اسکی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ چین اب تک 198 ملین ڈالرز
کی سرمایہ کاری سے کوسٹل ہائی وے تعمیر کر چکا ہے جو گوادر پورٹ کی کراچی
سے ملاتا ہے اس منصوبے میں چین کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے پاس
گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ نہیں ہے جو کہ تمام سال تجارتی جہازوں کی
آمد و رفت کو جاری و ساری رکھے۔ چین کی شنگھائی پورٹ اسکے انڈسٹریل ایریا
سے 4300 کلومیٹر دور ہے جبکہ گوادر پورٹ کا فاصلہ چین کے انڈسٹریل ایریا سے
2500 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں گہرے سمندر کے گرم پانیوں کی موجودگی
سارا سال تجارتی سرگرمیوں کو بحری جہازوں کے ذریعے قائم رکھنے کے قابل ہے۔
گوادر پورٹ کی تعمیر اور سرگرمیوں سے مغربی چین میں بھی بہت زیادہ ترقی ہو
گی کیونکہ کاشغر سے گوادر پورٹ کا فاصلہ 1500 کلومیٹر ہے جبکہ کاشغر سے چین
کی مشرقی کوسٹ 3500 کلومیٹر دور ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق گوادر پورٹ کے
ذریعے چین کی ہزاروں کلومیٹر دور سے تیل اور گیس کو درآمد کرنے کے فاصلے کو
کافی حد تک کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ چین کی60 فیصد توانائی کے
ذرائع خلیج فارس کے راستے عموماً سٹریٹ آف ملاکہ سری لنکا کے ذریعہ پہنچتے
ہیں جس کیلئے چینی بحری جہازوں کو 10,000 کلومیٹر راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔
گوادر پورٹ کی وجہ سے یہ فاصلہ 2500 کلومیٹر رہ جاتا ہے ۔ گوادر پورٹ کے
ذریعے چین خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کیلئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل
و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے اسکے علاوہ خلیج فارس اور خلیج عدن میں
ہندوستان کی نیوی کی سرگرمیوں کو بھی نظر میں رکھا جا سکتا ہے اور مستقبل
میں یہ چین کا دفاعی نقطہ نظر سے نیول بیس بھی بن جائیگا اور یہ توانائی کی
ترسیل کا دروازہ بن جائیگا کیونکہ گوادر آبنائے ہرمز کے منہ پر واقع ہے۔ |
|