رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی
(Iftikhar Chohdury, India)
شاعر کو تو دودھ کی دھاریں ملی ہوں گی مگر
اس نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ اس گائے کے ساتھ کیا گزرتی ہوگی۔وقت پر چارہ
پانی چھاؤں دھوپ میں کھولنا باندھنا۔اس بے چاری گائے سے کس نے پوچھا ہو
گا۔اس کا اپنے بچھڑوں سے بچھڑنا جائز ناجائز خوراک کا ملنا یہ کوئی گائے
شناس ہی جانتا ہو گا۔ویسے بھی چونکہ گجر ہوں اور یہ باعث افتخار بھی ہے کہ
ان گائے بھینسوں کے درمیان عمر گزری ہے۔لہذہ سوچا میں ہی کیوں نہ لکھوں۔آج
برادر خالد احمد چودھری جو یورپ کے اندھیروں میں چراغ ہیں ان سے بات ہو رہی
تھی تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دکھ یاد آ گئے۔پلس ۵۰ اور مائینس ۵۰
میں مرتے اور جیتے لوگ سچ پوچھیں بہت یاد آتے ہیں۔میں ۲۱ سال کا تھا جب
سعودی عرب گیا اور کم و بیش ۵۸ کا ہو کر لوٹا بیچ میں وہ جبری رخصتی کے سات
سال بھی ہیں جو جرنیلوں کی محبت کی نظر ہوئے۔آج جب کوئی مارشل لاء کی بات
کرتا ہے تو مجھے جدہ جیل کے وہ ۷۱ دن بہت یاد آتے ہیں۔لوگوں نے جمہوریت کے
لئے بہت کچھ دیا میرے حصے ماں آئی جو اس کی نظر ہو گئی۔جو لوگ نواز شریف کی
حکومت کے بدلے مارشل لاء مانگتے ہیں مجھ سے رابطہ کریں توبہ توب ہو جائے
گی۔فوج اتنی بانجھ نہیں ہے ایک جرنیل گیا تو دوسرا آ جائے گا خدارا تبدیلی
کی جنگ اپنے زور بازو پر لڑیں۔شیخ رشید کا کیا ہے وہ پنڈی کی بس پر چڑھ
جائے گا مارے جائیں گے ہم لوگ جو عرصہ دس سال سے تواتر سے سڑکوں پر ہیں۔
گائے کے بھی کیا مقام ہیں کسی جگہ اس کے بول کو وزیر اعظم تک پینے کا دعوی
کرتے ہیں کہیں اس کی پوجا ہوتی ہے۔اگر وہ ہندوستان میں ہوتو وارے نیارے اسے
ذبح کرنے والوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔لیکن یہی اگر بارڈر کے اس پار ہو تو
صبح و شام دودھ دھوئے جانے کے بعد اس کو اور اس کی اولاد کو بوقت ضرورت
چھری کے نیچے بھی لے لیا جاتا ہے۔کم ہی اچھی قسمت والیاں ہوتی ہیں جن کو اﷲ
کے راستے پر بڑی عید میں چن لیا جاتا ہے۔آج ایک اور گائے کی بات کرنا چاہتا
ہوں محسوس نہ کرنا میں خود بھی وہ گائے ہوں جو عرصہ ۲۵ سال ملک سے باہر باں
باں کرتا رہا۔میری طرح اس وقت کوئی دو کروڑ کے قریب یہ گائیں بیرون ملک میں
خدمات انجام دے رہی ہیں۔میری مراد اوور سیز پاکستانیوں سے ہے جنہیں حکومت
تو حکومت ہر سیاسی پارٹی نے دودھ دینے والی گائے سمجھ رکھا ہے۔حکومت کو
کروڑوں ڈالر چاہئے ہوں تو ان گاؤں کو یاد کر لیا جاتا ہے۔میاں نوز شریف کی
حکومت سال میں ایک بار ان کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں بلا کر اشک
شوئی کر لیا کرتی تھی مگر جب سے عمران خان نے انہیں ساہو ساہ کیا ہوا ہے اس
قسم کی تقریب کا انعقاد نہیں ہوا۔گائے ادھر ہی سے دودھ دے رہی ہے۔ایک بار
ایک گائے نے سوچا کہ ملک کے وزیر اعظم کی بیگم کو سونے کا تاج پہنایا جائے
سوناروں کی انجمن کے صدر نے مسلم لیگ نون کے صدر سے کہا کہ جناب ہم چاہتے
ہیں ہم ملکہ معظمہ کو ہار پہنائیں اور وہ بھی خالص ۲۲ قیراط سونے کا ہو
گا۔منظوری ہو گئی اور عین وقت پر سوناروں سے کہا گیا کہ تاج پہنانے کے لئے
وقت نہیں لہذہ مجھے دے دیا جائے۔جدہ کی ان گاؤں نے تاج اس بڑی گائے کے
حوالے کیا۔لیکن بعد میں سن گھن ہوئی کہ تاج کو راستے میں ہی ہڑپ کر لیا گیا
ہے سوناروں نے رونا دھونا شروع کیا تو بتایا گیا کہ وہ تو میں نے باجی کو
دے دیا ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی پارٹیوں کے لئے فنڈ دینے کی مشین ہیں ان بے چاروں
سے کسی بھی مشکل مرحلے سے نکلنے کے لئے پارٹی قائدین اپیل کرتے ہیں تو وہ
اپنے مشکل سے کمائے ہوئے ریالوں ڈالروں اور درہموں کو پارٹی کی نظر کر دیتے
ہیں۔
پارٹیوں میں اس قسم کی رقوم کا حساب کتاب معدودے چند پارٹیاں رکھتی ہوں گی
ورنہ اکثر جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ سمیٹ لیتا ہے۔دنیا میں چندوں کی مد میں
جو فراڈ ہوتا ہے وہ کسی اور مد میں نہیں ہوتا اس لئے کے دینے والے جذبات سے
معمور اور اصل لینے والے کے درمیان آڑھتی اس رقم کو اچک لیتے ہیں۔ہر کوئی
کہتا ہے کہ حساب کتاب موجود ہے اس کا آڈت ہوتا ہے آڈت کی یہ فرمیں بھی اپنی
فیس کھری کرتی ہیں۔پاکستان کیا دنیا بھر مین اکاؤنٹس کے ماہرین دوہرے تہرے
کھاتے رکھتے ہیں بعین ایک نوجوان اکاؤنٹنٹ جسے نوکری دے دی گئی تھی اس سے
جب سوال کیا گیا کہ دو اور دو کیا ہوتے ہیں تو اس نے کہا ہوتے تو چار ہی
ہیں آپ بتائیں تین کرنے ہیں یا پانچ۔بس یہ تین پانچ کرنے والے لوگ اب ملک
پاکستان پر چھائے ہوئے ہیں کل جو شخص مکہ مکرمہ میں حاجی نذیر اینڈ کمپنی
کا اکاؤنٹنٹ تھا جسے حاجی نذیر نے مکہ مکرمہ میں میاں ژریف مرحوم سے ملوایا
تھا وہ اس ملک کے خزانوں کا مالک ہے۔وہ بھی ایک ایسی گائے تھا جو باہر تھی
مگر اسے بھی پتہ تھا میرا داؤ اندر ہی جا کر لگے گا۔
پاکستان کی اس آبادی سے میری ایک ہی اپیل ہے کہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر
آپ ملک سے باہر ہیں۔محنت کیجئے اپنے گھر بار پر خرچ کیجئے اپنے مستقبل کے
لئے بچانے کی فکر کریں۔کاش وقت واپس لوٹتا اور میں ان خرافات پر جو خرچ
کرتا رہا وہ آج ہمارے ہاتھ ہوتا اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر ان لوگوں پر
خرچ کیا جو یہاں آ کر پہچانتے بھی نہیں اور اگر پہچانتے بھی ہیں تو انہیں
علم ہے کہ یہ پہچان کروانی جانتا ہے۔مجھے جدہ میں قیام کے دوران کیپٹن صفدر
کے ساتھ اکثر اوقات ملنے کا موقع ملا بہت سی باتیں سرور پیلیس کے حوالے سے
میرے سینے میں دفن ہیں۔ایک بار این اے ۵۲ سے وہ چودھری نثار علی خان کی
خالی کردہ سیٹ سے وہ ضمنی انتحاب لڑ رہے تھے میں اپنے دوست راجہ ضمیر کے
گھر ان کا مہمان ہوا وہاں یہ مہمان خاص تھے بڑے ٹھنڈے طریقے سے ملے نماز کے
بعد مسجد کے راستے میں انہیں ان کے معاملات جب گجروں کے انداز میں یاد
کرائے تو واپسی پر اپنی تقریر میں خوب ذکر کیا۔اس چیز کا کیا فائدہ کہ آپ
یاد کراتے رہیں۔خدا را ان سیاسی ٹھگوں کے اوپر اپنا پیسہ نہ ضائع کریں۔آپ
کو علم ہی نہیں کہ جو انویسٹر ان کے پاس ہیں آپ کے پاس ان کی آمدن کے
مقابلے میں رتی اور ماشہ بھی نہیں وہ جو لگاتے ہیں اگلے پھیرے میں آ کر
کوئی ٹھیکہ ویکہ لے کر پورا کر لیتے ہیں۔ہاں کوئی ان جیسا بلائے تو چلے
جائیں
سنبھال کر رکھیں یہ رقوم اور ان سے اپنے دائیں بائیں برادری میں گھروں میں
سگے بھائیوں بھتیجوں بھانجوں بہنوں پر خرچ کریں۔میں نے دیکھا ہے کہ بڑی بڑی
تقریبات میں دس بیس ہزار اور لاکھوں ریال کا چندہ دینے والے اپنی گلی کی
نکڑ پر رہنے والی کسی غریب کی بیٹی کو توا پرات منجھی بستر بھی نہیں لے کر
دیتے۔محسوس نہ کرنا کہ لفظ گائے استعمال کیا ہے اس لئے کہ میں بھی دودھ
دینے والی گائے تھا ۔ |
|