دعوے دھرے رہ گئے۔۔۔!

 ملک کے وزیرِ اعظم پر بوکھلاہٹ کا ایسا لرزا طاری تھا کہ اپنے چاپلوسوں سے جلسے کا اہتمام کرواتے نہیں تھک رہے ایسی کیمپین چلا رہے ہیں کہ ایسا معلوم ہونے لگے الیکشن بہت نزدیک ہیں۔حکومتی وسائل کو اکھاڑپچھاڑ کر اپنی مقبولیت کا ڈھونگ رچاتے ذرا بھی خیال نہیں کر رہے کہ عوام ٹیلی ویژن پر دھواں دار تقریر سن کر مطمئن نہیں ہوسکتی انہیں کسی الفاظ میں بیان کی گئی ترقی نہیں بلکہ حقیقی ترقی دیکھنی ہے۔آپ کے وزراء کا دھیان اپنے کام پر کم اور آپ کے کی بہتر قصیدہ گوئی کرنے کی جانب زیادہ ہوتا ہے لگتا یوں ہے جیسے صالح ظافر سے رہنمائی حاصل کر رہے ہوں۔پانامہ لیکس جوڈیشل کمیشن انکوائری چل رہی ہے مگر بہتات میں شواہد رکھنے کی دعوے دار پی ٹی آئی متعلقہ ثبوت دینے سے قاصر ہے اپنے بلند پایا وکیل حامد خان کو عمران سے غداری کا مرتکب قرار دیا جارہا ہے جبکہ اس میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ حامد خان تحریک انصاف کے فاؤنڈری ممبر ہیں ان پر اس طرح کے الزام بے بنیاد ہیں۔لاء کی فیلڈ میں حامد ٓخان کا نام ہی کافی ہے ان کی کتب طلباء اسٹڈی کرتے ہیں۔پانامہ اسکینڈل اپریل میں زیرِ بحث آیا اور اب اتنے ماہ بیت جانے کے بعد بھی اس کے شعلے پھر سے بھڑکنے لگے حالات کے پیش نظر سپریم کورٹ کو تحقیقات کا آغاز کرنا پڑا ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے چھے سو صفحات کے ثبوت جمع کرائے گئے جو نواز شریف کے سوانح حیات اور طنزیہ و عامیانہ واقعات پر محیط ہیں ان ثبوتوں کی روشنی میں کیس پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گیا ہے قرضہ جات کی لسٹ اورپورے شریف خاندان کے بینک اکاؤنٹس کا ڈیٹا بھی دیا گیا ہے لیکن اصل نقطہ پر فوکس نہیں کیا گیا ۔ مے فیئر فلیٹس کو جسٹیفائی کرنے کے لیے قطری شہزادے کا خط جمع کرانا نواز لیگ کی غلطی قرار دیا گیا اور اسے مزید سوال کھڑے کرنے کا موجب سمجھا گیا مگر یہ کارگر ثابت ہوا ۔پی ٹی آئی کا نواز شریف کی بائیو گرافی کھنگالنا واقعی منطق سے عاری ہے اور ایک کسی نئے کیس کی اختراع معلوم ہوتا ہے اگر منی لانڈرنگ ہوئی تو رسیدیں الزام لگانے والوں کو دکھانی چاہییں۔عدالت عظمیٰ کے معزز جج نے جب استفسار کیا بجائے کہ ٹھوس ثبوت جمع کرائے جاتے جواباٌ کہا گیا کہ یہ ثبوت تلاش کرنا عدالت کا کام ہے اس معیار پر جب تحریک انصاف ہو تو کون ان کے ساتھ اسٹینڈ لے سکتا ہے۔نعیم بخاری ایک بڑے فنکار ہیں لیکن میں بہت معذرت چاہتا ہوں وہ وکالت پریکٹس کرنے میں کوئی اہم حیثیت نہیں رکھتے تحریک انصاف کو اتنا بڑا کیس ان کے سپرد نہیں کرنا چاہیے تھا اور اگر کیا جا چکا ہے تو اعتماد کا اظہار کیا جانا چاہیے وکلاء بدلنے کی روش سے کیس میں کوئی خاطر خواہ ٹویسٹ نہیں آسکے گا۔انتیس نومبر کو کسی بڑی تبدیلی کا شاخسانہ دیکھنے والوں سے میں ذرا بھی متفق نہیں کیونکہ دلائل پختہ نہیں ہیں اور کمیشن کے حدود و قیود ہوتے ہیں ان میں رہ کر ہی فائنڈنگ کی جاسکتی ہے تاہم دائرہ کار وسیع ہے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ نیب جیسے ادارے بددیانتی کا مظاہرہ کررہے ہیں بڑے مگر مچھوں کی طرف آنکھ تک اٹھا کر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ اب کیس کی پیروی چاہے ڈاکٹر بابر اعوان کریں یا کوئی اور جب تک ڈاکمنٹس جو واقعی ہوشربا حقائق پر مبنی ہوں عدالت ِ عالیہ کو نہ دیئے جائیں گے کیسے کچھ اخذ ہوسکے گا؟ ۔پانامہ میں کام کرنے والے شخص کا ریکارڈ ایک اخبار کو فروخت کرنا اور پھر آئی سی جے کا ان کی فہرستیں آؤٹ کرنا کئی بڑے ملکوں میں بھونچال اور حکومتوں کی برطرفی کی وجہ بنا مگر پاکستان کا مسئلہ کچھ اور ہے جب بھی کرپٹ حکمرانوں کے احتساب کی ٹھانی جائے تو اپوزیشن کی آپس میں ہی ٹھن جاتی ہے اور جمہوریت کی بقاء کا پرچار کیا جانے لگتا ہے۔پانامہ والا معاملہ آف شور کمپنیوں کے گرد گھومتا ہے جو کہ پی پی پی کی بھی ہیں اور پی ٹی آئی کی بھی مگر مقبول مطالبہ ہے کہ پہلے حکومت کو منصفانہ نظام سے گزارا جائے یا تو بریت ملے یا پھر وہ کلین بولڈ ہوجائے۔ رزلٹ وضع ہونا مقصود ہے جس کے لیے آڑے شواہد کی عدم فراہمی ایک دیوار ہے نواز لیگ کے وکلاء اپنی استعداد کے مطابق اپنے فریق کا تحفظ کررہے ہیں جبکہ عمران خان کی جماعت ایک مخمصے میں پڑی ہے اور بضد ہے کہ حکومت اپنی غلط کاریوں کو مانے یا پھر ثبوت دے چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس جو تھا وہ دے چکے اب حکومت کا کام ہے کہ وہ ثبوت جمع کروائے لیکن عدلیہ جمع کرائے گئے شواہد سے مطمئن نہیں اور ان میں سے اکثر چیزوں کو مسترد کرچکی ہے۔پاکستان تحریک انصاف اپنی ساکھ پہلے ہی بہت متاثر کر چکی ہے ایسے رویے سے اپنے آپ کو مزید مُندمل کرنے سے بچ نکلے نئے نویلے شگوفے ، الزام دارازیوں اور وزیرِ اعظم کی پوری زندگی کی سکروٹنی کروانے کا ارادہ ترک کرے عمران خان تصرف سے کام لیں اور دانشمندانہ فیصلوں کو اپنی جماعت کے شعائر کا حصہ بنائیں۔نواز شریف اگر اتنے ہی کھرے اور سچے ہیں تو اسٹیٹمنٹس میں تضاد کیوں پایا گیا گتھی اتنی ہی سلجھی ہوئی تھی تو پہلے ہی ٹو دی پوائنٹ موقف کیوں نہیں اپنا یا گیا۔وزیرِ اعظم پر خطرے کی گھنٹی منڈلا رہی تھی جو دوسرے فریق کی خجالت اور حماقت سے ٹل چکی ہے ان کا احتساب یقیناہونا چاہیے اور بلا امتیاز ہونا چاہیے پانامہ بظاہر ایک چھوٹا ملک مگر دنیا بھر سے خُرد بُرد کرنے والوں کے اربوں روپے یہاں صیغہ راز میں پڑے تھے ۔ نواز شریف کے اثاثوں کی تطبیق کی جانی چاہیے مگران پرمتواتر الزام نہیں داغ دینے چاہییں اگر پیسہ عوام کا ہے تو اسے واپس نکلوایا جانا چاہیے اور سنگین مقدمہ بھی چلایا جانا چاہیے۔
’’اٹھتی نہ تھی نظر بھی کبھی اس کے سامنے عنکوبت کی عینک چڑھا رکھی تھی جاگ اٹھا میں
وہ یہ سوچے اس سے کیوں دست و گریباں ہونا پڑا آخرسیلِ رواں سے اکتا گیا میں‘‘

مگر جہانگیر ترین جیسے لوگوں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ایک پروفیسر سے آف شور کمپنی ہولڈر کا سفر کیسے طے کیا؟ شنید یہ ہے کہ ان کی اہلیہ مرحوم جنرل حمید گل کی اہلیہ کی سگی بہن تھیں تو جو مال و متاع ان کے پاس آتا انہیں بھی حصہ ملتا اور جو رائلٹی انہیں حاصل ہوتی ترین صاحب بھی اس سے مستفید ہوتے۔ پاناما گیٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا فیصلہ تو سماعت کے بعد ہی پتہ چل سکے گا مگر یہ بات بظاہر لگتی ہے کہ حکومت انتہائی مہارت سے اس ہیجان کو بھی دھتکار کر باہر نکلنے والی ہے پی پی پی تو کہہ چکی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا رخ ہرگز نہیں کرے گی بلکہ مسائل کا حل پارلیمنٹ ہی کو سمجھتی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھولی بصری عوام کو پھر منفعت بخش تحقیقات کا سہانا خواب دکھایا گیا ہے اور ان کے مقدر میں نہیں کہ وہ اپنے لٹیرے حکمرانوں کا احتساب ہوتا دیکھ پائیں ۔
’’جنہیں سمجھتے تھے ہم رہبر وہ بہت غیرستائش و سادہ نکلے
جن کو محتسب کے روبرو آتے دیکھا وہ پھر سے بچ نکلے‘‘

Waqar Butt
About the Author: Waqar Butt Read More Articles by Waqar Butt: 31 Articles with 25270 views I am student at Government College University Lahore plus freelance columnist .. View More