غزہ امدادی جہاز حنظلہ: ایک علامت، ایک پیغام
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, India)
New Page 2
غزہ امدادی جہاز حنظلہ: ایک علامت، ایک پیغام
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
اٹلی کی بندرگاہ سسلی سے حنظلہ جہاز کی روانگی: دنیا کے وہ لوگ جو خود کو مہذب اور متمدن کہلواتے ہیں، جب ظلم کے خلاف زبان بند کر لیں اور طاقت کے نشے میں مظلوم کی چیخ و پکار کو بھی ان سنا کر دیں؛ تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اہلِ ضمیر سامنے آتے ہیں اور انسانیت کا اصل چہرہ دکھاتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ باہمت اور باخبر لوگ یورپ سے اُٹھے ہیں، نہ وہ کسی حکومت کے نمائندے ہیں، نہ کسی فوج کے زیرِ سایہ ہیں؛ لیکن انسانیت کی سچی ترجمانی کے لیے میدان میں آئے ہیں۔ ان باہمت پندرہ لوگوں کا قافلہ، "فریڈم فلوٹیلا اتحاد" کے بینر تلے، بروز: اتوار، 13/جولائی 2025 کو اٹلی کی بندرگاہ سسلی سے غزہ کے لیے روانہ ہوا ہے۔ اُس غزہ کے لیے جو سترہ برس سے اسرائیلی ظلم و جبر کی آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ قافلہ حنظلہ نامی امدادی جہاز پر سوار ہے۔ یہ صرف ایک جہاز نہیں؛ بلکہ غزہ کے محصور بچوں، زخمیوں، بیواؤں اور بیماروں کے لیے امید کا چراغ، انسانیت کا پیغام، مظلوموں سے وفاداری کا اعلان اور سوئے ہوئے عالمی ضمیر کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
ایک علامت، ایک پیغام: اس سے پہلے بھی ایک جہاز گیا تھا جس کا نام میڈلین تھا۔ اب جو جہاز روانہ ہوا ہے، اس کا نام حنظلہ ہے۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ حنظلہ کوئی معمولی نام نہیں۔ حنظلہ ایک علامتی کردار ہے جسے معروف فلسطینی فنکار اور مزاحمتی کارٹونسٹ ناجي سلیم حسین العلي (1937 - 1987)نے تخلیق کیا تھا۔ یہ کردار ایک دس سالہ بچے کی صورت میں ہے، جو پہلی بار 1969ء میں کویت کےایک سیاسی جریدہ میں سامنے آیا تھا۔ ابتدا میں حنظلہ کا چہرہ سامنے کی جانب ہوتا تھا؛ لیکن 1973ء کے بعد سے اس نے اپنی پیٹھ موڑ لی اور ہاتھ پشت پر باندھ لیے۔ یہی انداز اس کی مستقل پہچان اور ناجي العلي کے خاکوں کا دستخط بن گیا۔ حنظلہ عرب دنیا، بالخصوص فلسطینی عوام میں ایک محبوب اور مزاحمتی علامت کے طور پر ابھرا؛کیوں کہ وہ فلسطینی عوام کی مظلومیت، بے بسی اور ناقابلِ تسخیر حوصلے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ خاموش ہے، مگر اس کی خاموشی خود ایک صدائے احتجاج ہے۔ حنظلہ کو 5 /جون 1967ء سے منسوب کیا جاتا ہے، جو عرب دنیا میں شکست کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کارٹون کے بنانے والے ناجي العلي کے بقول، حنظلہ ان عرب نظاموں کی کمزوری، شکست خوردگی اور بے حسی کا آئینہ ہے جو فلسطینی مسئلے پر یا تو خاموش ہیں یا مفاد پرستی کا شکار ہیں۔
آج بھی حنظلہ فلسطینی مزاحمت، عوامی شعور اور عالمی بے حسی کے خلاف ایک زندہ استعارہ ہے۔ وہ نہ صرف فلسطینی عوام کی حالتِ زار کی یاد دہانی کراتا ہے؛ بلکہ عرب و مسلم دنیا کی بے عملی پر ایک تلخ طنز بھی ہے۔ جلسوں، مظاہروں، دیواروں اور سوشل میڈیا پر حنظلہ کی تصویر ایک خاموش ؛مگر احتجاج کی علامت بن چکی ہے، جو مظلوم کی جانب سے ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے۔ اس کی پشت موڑی ہوئی ہے؛ کیوں کہ وہ تماشائیوں سے نہیں، عمل کرنے والوں سے مخاطب ہے۔ حنظلہ آج بھی یاد دلاتا ہے کہ جو قومیں اپنے بچوں کی معصوم آنکھوں میں مزاحمت کا عزم جگا دیں، انھیں طاقت کے ایوان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ آج کچھ یورپی بہادروں نے اسی حنظلہ کا نام، ایک بحری مشن کے استعمال کیا ہے۔ ایسا مشن جو اُن لوگوں کی مدد کے لیے نکلا ہے جو غزہ میں موت و حیات کے درمیان سانس لے رہے ہیں۔ یہ مشن اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے اور انسانیت کا فرض نبھانے کے لیے روانہ ہوا ہے۔
اس کشتی پر سوار لوگ: اس کشتی اور امدادی جہاز پر، میڈلین جہاز کی طرح، یورپ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن سوار ہیں۔ وہ نہ کسی حکومت کے نمائندے ہیں، نہ کسی تنظیم کے آلۂ کار؛ لیکن وہ انسانیت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھ وہ خوراک، ادویات، بچوں کا دودھ، کپڑے اور طبی آلات لے کر چلے ہیں؛ تاکہ غزہ کے محصور اور مظلوم عوام کی کچھ داد رسی کر سکیں۔ تاہم، ان یورپی کارکنوں کا اصل سرمایہ یہ امدادی سامان نہیں؛ بلکہ وہ سچا درد ہے جو ان کے دلوں میں سلگ رہا ہے۔ وہی درد جو انھیں ساحلِ یورپ سے اٹھا کر، ساحلِ غزہ کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ لوگ ہمارے خالص شکریے کے مستحق ہیں۔ ہم دل کی گہرائیوں سے ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
حنظلہ سے پہلے میڈلین: اس سے قبل اسی سال، یکم جون 2025 کو میڈلین نامی امدادی جہاز غزہ کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس پر بھی انسانی ہمدردی کے تحت خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان موجود تھے۔ یہ جہاز جیسے ہی بین الاقوامی پانیوں میں داخل ہوا، اسرائیلی نیوی نے اسے پرحملہ کرکے، اپنے قبضے میں کرلیا۔ میڈلین پر سویڈن کی معروف نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت گیارہ کارکن سوار تھے، جو ترکی، آئرلینڈ، جرمنی، فرانس، برازیل وغیرہ جیسے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کارکنوں کو محض حراست میں نہیں لیا گیا، بلکہ درحقیقت انہیں صہیونی افواج نے اغوا کیا۔ یہ انسانیت کی توہین اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی۔ اس واقعے کو عالمی میڈیا میں غیرمعمولی توجہ ملی، حتیٰ کہ اس کی بازگشت قصرِ ابیض (وائٹ ہاؤس) تک سنائی دی۔ وہاں کے سربراہ اعلی نے طنزیہ انداز میں کہا: "تھنبرگ ایک نوجوان، غصے والی لڑکی ہے۔ معلوم نہیں اس کا یہ غصہ حقیقی ہے یا دکھاوا۔ میرے خیال میں اسے غصہ کنٹرول کرنے کی کلاس لینی چاہیے۔"
تھنبرگ نے اس تنقید کا جواب خاموشی سے نہیں دیا؛ بلکہ اسے ہنسی میں اُڑاتے ہوئے پُراعتماد لہجے میں کہا: "میرے خیال میں، آج کے حالات میں دنیا کو واقعی بہت سی نوجوان، غصے والی لڑکیوں کی ضرورت ہے!"
یہ سب کچھ ہوا، مگر... یہ سب کچھ ہو چکا ہے، مگر دنیا کا اجتماعی ضمیر اب بھی گہری نیند میں ہے۔ اس کے باوجود، وہ کوشش ایک خوبصورت اور بامقصد کوشش تھی، جسے ترک نہیں کیا جانا چاہیے؛ بلکہ اسے بار بار دہرایا جانا چاہیے۔ جب تک غزہ کا محاصرہ اور وہاں عوام مظلومیت کے شکار ہیں، تب تک اس جیسے مشنوں کی گونج بھی باقی رہنی چاہیے۔ اسی جذبے کے تحت، ایک بار پھر یورپ کے کچھ بہادر انسانوں نے سمندر کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس بار جس امدادی کشتی نے سفر کا آغاز کیا ہے، اس کا نام حنظلہ رکھا گیا ہے؛ تاکہ وہ سفر مکمل کیا جا سکے جو میڈلین کے ساتھ ادھورا رہ گیا تھا۔ میڈلین میں یورپی پارلیمان کی ایک رکن، ریما حسن شریک تھیں؛ جب کہ اس بار حنظلہ کے قافلے میں یورپی پارلیمان کی دو ارکان، ایما فوروا اور گیبریئل کیتھلا شامل ہیں۔ کیتھلا کا کہنا ہے:"اس کشتی کا مشن غزہ کے بچوں کے لیے آواز اٹھانا اور اس غیر انسانی ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے کوشش کرنا ہے؛ تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کےخلاف جاری خاموشی کا خاتمہ کیا جاسکے۔"
عالمی امن کے دعوے داروں سے سوال: جب اسرائیلی نیوی بین الاقوامی پانیوں میں امن مشنوں پر حملہ کرتی ہے؛ تو اقوامِ متحدہ کی زبان کیوں گُنگ ہو جاتی ہے؟ جب انسانیت کا بوجھ اٹھائے امدادی کشتیاں دہشت گردی کے خانے میں ڈال دی جاتی ہیں، تو انسانی حقوق کے عالمی علمبردار کہاں چلے جاتے ہیں؟ اگر یورپ کے کچھ ضمیر اب بھی زندہ ہیں، تو مسلم اُمّت کے لیڈران اور قائدین کب تک گونگے اور بہرے بنے رہیں گے؟
اگلا پڑاؤ غیرت کا امتحان: حنظلہ کا اگلا پڑاؤ جنوبی اٹلی کی بندرگاہ: گیلی پولی ہے، جہاں سے فرانس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے مزید کارکنان اس مشن میں شامل ہوں گے۔ پھر یہ قافلہ کھلے سمندر کی جانب بڑھے گا اوریہ قافلہ تقریبا اٹھارہ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے، غزہ کی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ ہے: اگر اسرائیلی افواج نے ایک بار پھر مداخلت کی تو کیا مسلم دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ کیا اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے اس بار بھی صرف رسمی مذمت پر اکتفا کریں گے؟
اُٹھا نہ شعلہ اگرچہ دھواں بہت ہے جناب یہ وقت بولنے کا ہے، خامشی گناہ بنی
یہ جہاز صرف ایک کشتی نہیں، بلکہ ایک علامت ہے، ایک پیغام ہے۔اس پر سوار لوگوں کے زندہ ضمیر ہونے کی علامت ہے۔ جن کے دل ابھی دھڑکتے ہیں، وہ اسے دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ مظلوموں کے لیے اب کچھ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ جن کے ضمیر مر چکے ہیں، ان کے لیے یہ منظر بھی بے اثر ہے۔ اگر یہ جہاز غزہ تک پہنچ جائے، تو یہ انسانیت کی فتح ہوگی اور اگر روک دیا گیا، تب بھی یہ خاموشی کے جمود کو توڑنے میں ضرور کامیاب رہے گا۔
حنظلہ پر سوار کارکنان کے سوالات: حنظلہ صرف فلسطینیوں کی عکاسی نہیں؛ بلکہ پوری امت مسلمہ کا زندہ آئینہ ہے۔ اس پر سوار کارکنان ہم سے کچھ تلخ سوالات کر رہے ہیں: کیا ہم واقعی بیدار ہیں؟ کیا ہماری روح میں ابھی زندگی باقی ہے؟ کیا ہمارے دلوں میں وہی غیرت، حمیت اور اخوت کی روشنی روشن ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے؟ دنیا بھر کے انصاف پسند عوام کہاں ہیں؟ عرب کے قائدین وحکمراں کہاں ہیں؟ فلسطین کے پڑوسی ممالک اور وہاں کے عوام کیا کررہے ہیں؟ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ: "اور (اے مسلمانو!) تمھارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ "اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال لائیے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کر دیجئے، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔" (النساء: 75) ••••
|
|