سیز فائر لائن توڑدو(آزادی یا شہادت)
(Rana Ghulam Hussain, Rawalpindi)
گزشتہ سطور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے
یو این او کے قائم کردہ کمیشن برائے انڈیا و پاکستان یو این سی آئی پی کی
قرار داد حکومت ہند نے 23دسمبر 1948 ٗ ء کو اور حکومت پاکستان 25دسمبر
1948 ء کو منظور کرلی ۔ اور اپنی اپنی رضامندی اس پر دستخط کر دیے ۔ تاکہ
سیز فائر لائن کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں ۔ سیز فائر کا مطلب مسئلہ کشمیر کا
حل نہ تھا ۔ بلکہ اس کے حل کے لیے گولی کی بجائے امن سے اور اقوام متحدہ کی
مداخلت کے ذریعے مسئلے کوحل کیا جائے ۔ سیز فائر کے وقت ریاست جموں وکشمیر
کی صورت حال یوں تھی ۔
ا۔ پوری ریاست جموں وکشمیر پر تنازعہ تھا جس پر گولی چل رہی تھی کہ اس کو
حل کیا جائے ۔
۲۔ ریاستی عوام نے ابھی خود فیصلہ کرنا ہے پاکستان یا ہندوستان سے الحاق
کریں ۔
۳۔ ریاست میں عوام کی رائے شمار کیا جانا ابھی باقی ہے کہ کتنے لوگ /وو ٹرز
پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں یا ہندوستان سے ،آج 69 سال گزر جائے کے بعد بھی
ریاست جموں وکشمیر کی مادر سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اوراس
کی قیادت مسئلہ کشمیر کے جہادی حل کے عز م کی ساتھ یکم جنوری 1949 ء کی
اسی جگہ پر کھڑی ہے جہاں جہاد کشمیر کو رکوا دیا گیا تھا ۔ سیز فائر لائن
یا سیز فائر کو کشمیر قوم نہیں مانتی ۔ کیونکہ یہ جنوبی ایشیا میں قیام
پاکستان کی بنیاد علامہ اقبال اور بابائے قوم ، حضرت قائد اعظم کے دو قومی
نظر یہ کی خلاف ورزی ہے ۔ جس کی بنیا د پر مملکت خداداد پاکستان معرض وجود
میں آئی تھی ۔ ہندوستان /جنوبی ایشیا ء کے شمال مغربی مسلم اکثریتی والے
صوبوں / ریاستوں کو ملا کر ایک فیڈریشن پالیسی بنا لینی چاہیے۔ جہاں مسلمان
اپنی الگ اسمبلی اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے اپنا اقتدار اعلیٰ اس کے حوالے
کر کے اس مقتدر اسمبلی کے ذریعے اپنی آزادی خو دمختیاری کی حفاظت کریں ۔
کیونکہ ریاست جموں وکشمیر میں 85تا 88فیصد آباد مسلمانوں پر مشتمل تھی ۔ اس
لیے قدرتی طور پریہ ریاست پاکستان کا ہی حصہ بنناتھی۔ دوسرا جب غیر ملکی
بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو کر اس پر قبضہ جما رہی تھیں تو قائد اعظم
نے بطور گورنر جنرل پاکستان اپنے جنرل کو کشمیر پر حملہ کرنے /کاروائی کرنے
کاحکم دیا ۔ ایک سازش کے تحت جنرل گریسی آرمی چیف پاک افواج نے گورنر جنرل
کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور بہانہ بنایا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان
کے اس وقت کے جائنٹ کمانڈر اور انچیف جنرل آکن لنک جو دہلی میں مقیم تھا کے
ماتحت ہوں ۔ وہ حکم دے تو کشمیر پر حملہ کیا جا سکتا ہے یہ گورنر جنرل
پاکستان ، کشمیر پر مسلح جنگ کر نے اور بھارتی فوج کو کشمیر سے نکالنے کے
حکم کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔ تیسرا کشمیر پر غیر ملکی بھارتی مسلح افواج کی
یلغار اور اس پر زبردستی قبضہ کے خلاف ریاستی عوام نے مسلح جہاد از خو شروع
کر دیا تھا ۔ گلگت بلتستان کا علاقہ ہندوستانی فوج آزاد کروا لیا ۔ چھ ہفتہ
کی گھمسان کی جنگ کے بعد بھارتی قیادت کو یقین ہو چلا تھا کہ جنگ کے ذریعہ
کشمیر پر قبضہ جاری نہیں رکھا جا سکتا ، سردار عتیق احمد خان صدر آل جموں
وکشمیر مسلم کانفرنس فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ پاوں آ زاد کر لوتاکہ آزاد
کشمیر پر قابض ظالم غیر ملکی بھارتی فوج کو ریاست کے عوام خو دمارکر باہر
دھکیل دیں ۔ گورنر جنرل پاکستان حضرت قائد اعظم بابائے قوم محمد علی جناح
نے کشمیر پر جنگ روک دینے کی مخالفت کر تے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تک مسئلہ
کشمیر کا خاطر خواہ حل نہ ہو جائے ۔ کشمیر کے محاز پر جنگ جاری رکھی جائے ۔
بابائے قوم بطور گورنر جنرل پاکستان تقریباً 444ایام تک زندہ رہے ۔ بابائے
کی کشمیر پالیسی کو بعد کے حکمرانوں سے ترک کر دیا ۔ 24نومبر کو سیز فائر
لائن توڑنے کاپروگرام Kashmir peace offencive 31 دسمبر 1948 ء کی جنگی
حالت پر واپس لوٹ آنے کا نام ہے ۔ اوریہی راستہ ریاست جموں وکشمیر کی آزادی
کی منزل کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے ۔ چوتھا 27اکتوبر 1947 ٗٗ ء کو سری
نگر کے ہوائی اڈے پر غیر ملکی بھارتی افواج کو اتار کر مشرک ہندو بنیا سیز
فائر کروا کر اپنے سفاک فوجیوں کو سیز فائر لائن کے مورچوں میں محفوظ بنا
لیا اور 8لاکھ سے زائد تعداد میں بھیڑیے ریاست کے ایک بڑے علاقے کو فوجی
کیمپوں کی شکل دے کر جبراً کشمیر پر قابض ہیں اور کشمیریوں کو اپنی گرفت
میں لیے ہوئے ہیں ۔ جب کے کشمیر محاذ پر جنگ جاری تھی تو ان درندوں کو قدم
رکھنے کی جگہ نہیں مل رہتی تھی ۔ پانچواں کشمیر کی حقیقی قیادت اور یہاں کی
مادر سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے کبھی بھی سیز فائر لائن
کو تسلیم نہیں کیا ۔ سیز فائر کو بھارت پہلے ہی مان چکا تھا۔ اس کے قبول کے
بعد 1948 ٗ ء کو کراچی میں میں لیاقت علی خان کا کابینہ نے اس کی منظوری
دیناچاہتی تھی۔ قائد کشمیر چوہدری غلام عباس کو خصوصی طور پر کابینہ اجلاس
میں مدعو کیا گیا ۔ سیز فائر کے لیے رئیس الحرار چوہدری غلام عباس نے انکار
کر دیا ۔ لیکن اس کے باوجود کابینہ نے سیز فائر کی منظوری دے دی ۔ چوہدری
غلام عباس نے طنز اً کہا کہ ہاں ، اب مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے حل ہو گیا ہے
قائد کشمیر چوہدری غلام عباس نے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا قائد ہونے
کی حیثیت سے یکم جون 1949 ٗ ء کو کراچی میں موتم عالم اسلامی کے ہونے
والے اجلاس میں شرکت کی اور اس اہم اجلاس میں کشمیر میں سیز فائر لائن پر
اظہار رائے کرتے ہوئے کہا بھارت "کی نیت ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ رائے شماری سے
بچنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہے ۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان نے کشمیر
پر جنگ بندی کر کے غلطی کی ہے ۔ جس کے نتائج آئندہ ظاہر ہوں گے ۔ "یہ درست
ثابت ہوا کہ 69سال گزرنے کے باوجود سیز فائر کے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں اور
اگر ریاستی عوام نے از خود سیز فائر لائن توڑ کر ریاست جموں وکشمیر کو یکجا
نہیں کر دیا ۔ کشمیریوں کے لیے اس کے برے نتائج سامنے آتے رہیں گے ۔ چھٹے
طور پر�آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے 19جولائی 1947 ٗ ء کو سری نگر میں
اپنی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کرلیا تھا ۔ اس
لیے سیز فائر لائن کا قیام پر بڑی برہمی کا اظہا کیا تھا ۔ بلکہ جہاد کی
قیادت ہی غازی ملت سردار محمد ابرہیم خان اور مجاہد اول سردار محمد
عبدالقیوم خان خو د کر رہے تھے ۔ سیز فائر لائن سے کیسے خوش ہو سکتے تھے ۔
یا ان کے نزدیک سیز فائر کو مسئلہ کشمیر کا حل مانا جا سکتا تھا۔ بھارت
مسئلہ کشمیر کو حل کرچکنے کی بات کرتا ہے ۔ ایک موقف جو جھوٹ پر مبنی ہے ۔
وہ اختیار کیے ہوئے ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔ کسی دوسرے ملک کی
زمین کا ایک خاص ٹکڑا اس کا لازمی حصہ کیسے کہلا یا جاسکتا ہے ۔جب کہ
تاریخی اور جغرافیائی ایسا ہے ہی نہیں ۔ تو 27اکتوبر 1947 ٰ ء کو بھارت
کی فوج یہاں کس کام کے لیے اتاری گئی؟ اپنی سر زمین کے حصے پر کوئی قوم جنگ
کیسے چھڑ سکتی ہے ۔ جو لازمی بھی ہو ؟ جبکہ ریاست جموں وکشمیر کو بین
الااقومی برادری نے متنازعہ قرار دیا ہے ۔ یو این سی آئی پی نے ریاست میں
رائے شماری کروانے کا بندوبست کیوکیا بھارت یو این او میں کیوں گیا ۔ یواین
کی ڈھیر ساری قراردادیں کشمیر کیوں پاس کی گئی ۔ پنڈت نہرو وزیراعظم ہند کے
درست شیخ عبداللہ نے صرف 1953 ٗ ء صرف اک بار کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے ۔
کشمیر متنازعہ اور مسئلہ حل طلب ہے ۔ تو اس کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔ جس پر
آزاد جموں وکشمیر میں موجود آل جموں وکشمیر کانفرنس قیادت نے سیزفائر لائن
کراس کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ یہ کیا اس وقت کی قیادت کو سامنے بھارتی فوج
کی گولیوں اور عقب میں اپنوں کی گولیوں نے روک دیا ۔ اور قید بھی کر دیا ۔
1998 ء میں بھی آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی قیادتKLMکے تحت بھر سیز
فائر لائن توڑنے کی کوشش کی ۔ جس کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ موجود ہ حالات
میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کر دی گئی ۔ تو قائد کشمیر صدر آل جموں
وکشمیر سردار عتیق احمد خان کیسے خاموش رہ سکتے ہیں ۔ اگر خاموش رہیں تو
تاریخ کن الفاظ میں انکو یاد کریں گے ۔ صدر مسلم کانفرنس نے اعلان فرمایا
کہ 24نومبر 2016 ٗ ء کو سیز فائر لائن کراس کرنے کے لیے وہ کشمیر کا حریت
پسندوں کی خود قیادت کریں گے ۔ اور سب سے آگے رہیں گے ۔ |
|