عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اوربکھرجاؤں تومجھ کو نہ سمیٹے کوئی
پر وین شاکر پیر کی رات رم جھم برستی بارش میں صبح اذان کے وقت 24نومبر1952
ء کو روشنیوں کے شہر کراچی کے ایک ہسپتال میں پیدا ہوئی ۔جس گھرانے میں
آنکھ کھولی وہ گھرانہ علم و ادب کے ساتھ وابستہ تھا۔ اس کے خاندان میں کئی
شعرا ء اور ادبا ء پیدا ہوئے، اس لیے بچپن سے ہی اسے علم دوست ماحول میسر
آیا اور وہ بہت سے شعرا ء اور ادبا ء سے واقف ہوئی ، ان کے والد سید ثاقب
حسین خود بھی ایک شاعر تھے اور وہ شاکر تخلص کرتے تھے والد محترم کا تخلص
ہی پروین شاکر نے اپنے لیے منتخب کیا اور پروین شاکر کہلائیں، آپ کی والدہ
کا نام افضل النساء تھا ۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ والد کے مشن کو اس کی
نیک اولاد پورا کرتی ہے تو پروین شاکر نے اپنے والد کا نام روشن کر کے اس
بات کو ثابت کر دیا (اس تحریر کو لکھنے کے لیے میں نے پروین شاکر کے والد
کی شاعری تلاش کرنے کی کوشش کی مگر مجھے دستیاب نہ ہوسکی اگر ان کی کوئی
غزل مل جاتی تو اس بات کا علم ہو جاتا کہ وہ کیسی شاعری کیا کرتے تھے ) آپ
کے والد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور انہوں نے رہائش کے لیے کراچی کو
پسند کیا پروین شاکر کا اسلاف ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں چندی پٹی
سے تعلق رکھتا تھا ۔
پروین شاکر اور اس کی بڑی بہن نسرین بانو نے بچپن ایک ساتھ گزارا اس کی بہن
اس سے دو کلاس آگے تھی جب پروین تیسری کلاس میں ہوئیں تو ان کو ڈبل پرموشن
دیا گیا۔ جس سے وہ اپنی بڑی بہن کی ہم کلاس ہو گئیں ۔ میٹرک رضیہ گرلز ہائی
سکول سے پاس کیا ۔اس کے بعد سرسید گرلز کالج کراچی سے بی اے ،انگلش لٹریچر
کے ساتھ بی اے آنر کیا۔کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش اعلٰی نمبروں سے
پاس کیا ،پھر لسانیات میں ایم اے کی ڈگری لی ۔پی ایچ ڈی کی ڈگری (جنگ میں
ذرائع ابلاغ کا کردار ) پر مقالہ لکھ کر حاصل کی لیکن تعلیم کا سلسلہ یہیں
تک محدود نہیں ہے بلکہ پروین شاکرساری دنیا کے علوم جلد از جلد حاصل کرنے
کی دھن میں تھی شائد اسے علم تھا کہ اسکی زندگی مختصر ہے اور اسے ابھی بہت
کام کرنے ہیں ۔اس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئیں اور بینک
ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کر لیا ۔اس کے بعد عبد اﷲ گرلز کالج میں نو سال
انگلش لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کرنے کے بعد سی ایس پی کا امتحان دیا
۔پاس ہونے پر محکمہ کسٹم میں کلکٹر بن گئیں جہاں ترقی پا کر پرسنل سیکریٹری
اور بعد ازاں سی ۔آر ۔بی ۔آر اسلام آباد مقرر ہوئیں ۔
پروین شاکر ایک نرم دل ،سخی ،محنتی،بے چین طبعیت کی مالک تھیں ۔ان کے بارے
میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بے حد حساس خاتون تھی ۔اسی حساس طبعیت نے ہی
اسے شاعری کی طرف راغب کیا ہو گا ،حساس طبع افراد کے جو ارد گرد ہو رہا
ہوتا ہے اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں کچھ اس کا اظہار کرنے پر قادر ہوتے ہیں
اور کچھ نہیں کر سکتے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے افراد ان پڑھ ہونے کے باوجود
اپنی کیفیات بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر پروین شاکر کے ساتھ ایک اور
مسئلہ بھی تھا کہ وہ صنف نازک سے تعلق رکھتی تھیں ،اور ہمارے معاشرے میں
ابھی تک عورتوں کو وہ مقام نہیں ملا کہ وہ اپنی کیفیات بیان کر سکیں ،ویسے
مرد جتنے مرضی روشن خیالی کے دعوے کرتے پھریں ہمارے معاشرے میں عورت کو
گھٹن کا شکار کر کے مار دیا جاتا ہے اور جو معاشرے کی اس رسم کے خلاف بغاوت
کرے اس کو طعنے دے دے کر اس کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں، کہنا یہ ہے کہ
ہمارے معاشرے میں عورت کو اس کا جائز مقام نہیں ملا اس کو اس کی شناخت نہیں
ملی پروین شاکر ایک ذہین اور خوبصورت صاحب علم ہستی تھیں اسے خود کو منوانے
کے لیے جتنی جد و جہد کرنی پڑی ہو گی اس کا تصور کیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے
کہ ان کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے ۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
عورت تھی عورتوں کے جذبات پر ہی لکھنا تھا لیکن ہمارے معاشرے میں ہمارے
شعرا ء نے اسے وہ مقام نہیں دیا جس کی وہ مستحق تھیں کہا جاتا ہے کہ پروین
شاکر نسائی تحریک سے وابستہ تھیں یا ان کی شاعری نسائی شاعری تھیں اس نے
عورتوں کے جذبات و احساسات پر لکھا اس سے پہلے اردو شاعری میں ایسے کھل کر
نہیں لکھا کسی اور شاعرہ نے۔ اس طرح کی باتیں کر کے اس کے مقام کو آج بھی
کم تر ثابت کیا جاتا ہے ایسا تبصرہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی
شاعری لب و رخسار سے آگے نہیں بڑھتی اور وہ اپنے دیوان کے دیوان کسی عورت
کی محبت میں لکھتے ہیں، اس کی تعریف میں لکھتے ہیں بلکہ دیوان کے دیوان تو
عورت کی بے وفائی پر لکھے گئے ہیں بلکہ اکثر ایک مرد کو شاعر ہی عورت کی بے
وفائی بناتی ہے ۔ اس لیے کہ وہ مرد ہیں تب درست ہے لیکن جب ایک عورت مرد کی
طرف سے ملنے والی بے وفائی ،وفا ،محبت ،یا نفرت پر شاعری کرے تو یہ نسائی
شاعری ہوگی یہ غلط بات ہے یہ تو مردانہ شاعری ہوئی نسائی شاعری تو ایسے
شعرا ء حضرات نے کی بلکہ کرتے ہیں جن میں صرف نساء کا ذکر ہوتا ہے ۔ایسے
ماحول میں جہاں عورت کو انسان ہی نہ سمجھا جائے ایک عورت کا خود کو قلم کار
منوا لینا اور وہ بھی شاعری میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی بھی
تعریف کی جائے کم ہے ۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
پروین شاکر کا شما ر ان چند ایک خواتین میں میں ہوتا ہے جنہوں نے خود کو
منوایا ہے اور ایسا منوایا ہے کہ اس کی اہمیت سے اب کسی کو انکار نہیں
ہوسکتا ہے ۔اس سے پہلے اتنے جاندار طریقے سے کسی خاتون نے نسائی جذبات
،مسائل اور حقوق کواتنے اچھے طریقے سے شائد ہی بیان کیا ہو ۔پروین شاکر کی
شاعری میں انہی بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ایک توانا آواز اٹھائی گئی ہے
۔جیسے ہی پروین شاکر کا نام لیا جائے تو خوشبو کا احساس ہونے لگتا ہے پروین
شاکر کاپہلا مجموعہ خوشبو جب شائع ہوا اس وقت پروین شاکر کی عمر صرف 24برس
تھی ۔
پروین شاکر کی شادی 1976 ء میں ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جو رشتے میں ان کا
خالہ زاد تھا اور ملٹری میں ڈاکٹر تھا۔1978 ء میں اﷲ نے ان کو ایک خوبصور ت
بیٹے سے نوازا جس کا نام مراد علی رکھا گیا ۔ پر وین نے بہت سی شاعری اپنے
بیٹے کے لیے بھی کی ہے ۔ وہ اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتی تھیں ۔
مجھے تیری محبت نے عجب ایک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
اس کے بارے میں میں بہت فکر مند رہتی تھیں ،اس نے بیٹے کو باپ بن کر پالا
اسے کبھی باپ کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا حالانکہ پروین شاکر کی زندگی بہت
مصروف تھی۔ مشاعروں میں حاضری ،ان کی میزبانی ،آفسر بھی تھیں ،کالم بھی
لکھے ،ان سب کاموں کے باوجود اپنے بیٹے کو تنہائی کا احساس نہ ہونے دیا جب
کہ اس کا باپ بھی اس سے الگ ہو گیا تھا ۔ کیونکہ اس کی شادی زیادہ عرصہ تک
قائم نہ رہ سکی اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کے درمیان ذہنی ہم
آہنگی کا نہ ہونا بھی ہے 1987 ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
پروین کو شعرو شاعری کا شوق شروع سے ہی تھا کالج میں ہی وہ شعر کہنے لگی
تھی ،پروین شاکر کی شاعری کی تعریف اس دور کے مشہور شعرا ء نے کی ہے مثلاََ
احمد ندیم قاسمی ،فراز احمد فراز ، علی سردار جعفری وغیرہ اس کے علاوہ
پروین شاکر کو پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا جن کی
مختصر تفصیل یہ ہے کہ آدم جی ایوارڈ جو پاکستان میں ایک قومی سطح کا اعزاز
ہے ، 1978 ء کو خوشبو کے لیے دیا گیا ۔1985 ء میں علامہ اقبال ایوارڈ ۔1986
ء میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ،فیض احمد فیض ایوارڈ پروین شاکر نے حاصل کیا
۔اس کے علاوہ پروین شاکر کو حکومت کی جانب سے تغمہ حسن کارکردگی بھی ملا
۔پروین نے اتنی کم عمری میں وہ شہرت پائی جو بہت کم ادبا ء یا شعرا ء کو
نصیب ہوتی ہے ،ان کی ایک عادت بڑی عجیب تھی یہ کوئی خامی نہیں ہے۔
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
بہت سے قارئین اس بات سے شائد واقف نہ ہوں کہ پروین شاکر عام طور پر کسی
محفل میں ہوتیں،گھرمیں ہوتیں تو اپنے پاوئں سے جوتے اتار دیا کرتیں تھیں
عام طور پر گاڑی بھی ننگے پاؤں چلایاکرتیں ،ان کی اس عادت کی نفسیاتی وجہ
کیا تھی اس پر غور ہونا چاہیے اس طرح ان کی زندگی کی کتاب میں ایک اور باب
کا اضافہ ہو جائے گا ۔پروین شاکر کی شاعری چند مخصوص الفاظ کو امر کر گئی
،اس نے ان خوبصورت الفاظ کو اپنی شاعری میں خوب استعمال کیا بلکہ پروین
شاکر کو ،چاند ،خواب ،موسم ،پھول ،،خوشبو، رات کی شاعرہ کہنا چاہیے ۔پروین
شاکر کے پہلے شعری مجموعہ خوشبو کو بے پناہ مقبولیت ملی بلکہ پروین شاکر کا
نام لیں تو خوشبو آنے لگتی ہے یہ ان کا نام ہی بن گیا ہے ۔
شہر وفا میں دھوپ کا ساتھی نہیں کوئی
سورج سروں پر آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
وہ خوشبو کی شاعرہ کہلانے کی مستحق ہے اس کے علاوہ اس کے شعری مجموعے میں
سے1980 ء میں صد برگ ،1990ء میں خود کلامی ، 1990ء میں ہی انکار اور 1994ء
میں ماہ تمام شائع ہوئے، جیسے جیسے وقت گزرا ان کی شاعری میں پختگی آتی گئی
لیکن جو مقبولیت خوشبو کو ملی اتنی مقبولیت اس کے دیگر کسی شعری مجموعے کو
نہیں مل حالانکہ اس کے دیگر مجموعے کئی ایک لحاظ سے بہترین ہیں ان میں
الفاظ کا چناؤ بہت عمدہ ہے اسی طرح خیالات میں بھی وسعت ہے ۔
پر وین شاکر پیر کے دن 26 دسمبر 1994 ء کو اسلام آباد میں اپنے آفس جاتے
ہوئے راستے میں گاڑی کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے 42 سال کی عمر میں خالق حقیقی
سے جا ملیں ۔ انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے،میرے ہونے کی گواہی دیں گے
|