پاکستان کے رھنے والے ملک کے لحاظ سے 100
فی صد پاکستانی ھیں اور مذھب کے لحاظ سے 97 فی صد پاکستانی شہری مسلمان ھیں۔
جبکہ قوم کے لحاظ سے پاکستان کے 60 فی صد شہری پنجابی ھیں۔ 12 فی صد شہری
سندھی ھیں۔ 8 فی صد شہری پٹھان ھیں۔ 8 فی صد شہری مھاجر ھیں۔ 4 فی صد شہری
بلوچ ھیں۔ 8 فی صد شہری کشمیری ، گلگتی بلتستانی ، چترالی وغیرہ ھیں۔ سب
قوموں کی اپنی اپنی زمین ھے ، زبان ھے ، ثقافت ھے ، تہذیب ھے۔ رسم و رواج
ھے۔
سیاست میں انتظامی ، ترقیاتی ، معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ سماجی معاملات
کی بھی بہت اھمیت ھوتی ہے اور سماجی معاملات کا براہ راست تعلق کمیونیٹیز
سے ھوتا ھے۔ پاکستان کی پنجابی ، سندھی ، پٹھان ، بلوچ قوم میں بھی ھر قوم
کی طرح کمیونیٹیز ھیں۔ جنہیں کہیں قبائل اور کہیں برادری کہا جاتا ہے۔
پنجابی قوم کی بہت ساری برادریوں میں سے سیاسی طور پر متحرک اور با اثر 4
بڑی برادریاں ارائیں ، جٹ ، بٹ (کشمیری) ، راجپوت ھیں۔
مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں پی ایم ایل این (پاکستان مسلم لیگ ن) سے الگ
کر کے پی ایم ایل ق (پاکستان مسلم لیگ ق) کے نام سے ایک پولیٹیکل پارٹی
بنائی گئی۔ گو کہ پی ایم ایل ق کا پریذیڈنٹ ایک ارائیں میاں اظہر کو بنایا
گیا لیکن ارائیوں کے پی ایم ایل این میں عزت و اھمیت والی حیثیت پر رھنے
اور پی پی پی میں بھی عزت و اھمیت والی حیثیت پر رھنے کی وجہ سے ارائیں اس
قدر پی ایم ایل ق کی طرف مائل نہیں ھوئے جتنے جاٹ ھوئے۔ جاٹ نہ صرف پی ایم
ایل این کو چھوڑ کر پی ایم ایل ق میں شامل ہو گئے بلکہ پی پی پی سے بھی بڑی
تعداد میں جاٹ پی ایم ایل ق میں آگئے۔ جس کی وجہ سے پی ایم ایل ق کا
پریذیڈنٹ ارائیں میاں اظہر کے بجائے جاٹ چوھدری شجاعت حسین کو بنا دیا گیا۔
جس سے پی ایم ایل ق عملی طور پر جاٹ لیگ بن گئی۔ جبکہ پی ایم ایل این میں
سے جاٹ کے بڑی تعداد میں نکل جانے اور ارائیں کے پہلے سے ہی پی ایم ایل این
کے علاوہ پی پی پی میں بھی ہونے اور کچھ کے پی ایم ایل این سے نکل کر پی
ایم ایل ق میں شامل ہو جانے کی وجہ سے پی ایم ایل این میں اکثریت بٹ
(کشمیری) کی رہ گئی۔ پی ایم ایل ق میں جاٹ اور پی پی پی میں ارائیں کی
اکثریت جبکہ جاٹ اور ارائیں سے سیاسی نا اتفاقی اور محاذآرائی کی وجہ سے
راجپوت نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر پی ایم ایل ق اور پی پی پی کے بجائے
پی ایم ایل این کو ترجیح دی۔
پی ایم ایل ق کے جٹ لیگ اور پی ایم ایل این کے بٹ لیگ بن جانے جبکہ پی پی
پی کے سندھ کی پارٹی بن جانے اور پنجاب میں بلوچ نزاد جاگیرداروں اور عربی
نزاد پیروں کی سیاسی پارٹی بن جانے کی وجہ ارائیں سیاسی طور پر منتشر ھو
گئے لیکن 2011 میں پٹھان نزاد عمران خان کے پی ٹی آئی (پاکستان تحریک
انصاف) کی دوبارہ تنظیم کے دوران لاہور میں جلسہ کرتے وقت پی ٹی آئی کو بٹ
(کشمیری) کے پی ایم ایل این اور جٹ کے پی ایم ایل ق میں ھونے کی وجہ سے
ارائیں کی ضرورت محسوس ہوئی جبکہ ارائیں کو بھی پی ایم ایل این کے بٹ لیگ
اور پی ایم ایل ق کے جٹ لیگ اور پی پی پی کے بلوچ نزاد جاگیرداروں اور عربی
نزاد پیروں کی پارٹی بن جانے کی وجہ سے پولیٹیکل پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔
اس لیے لاھور کے ارائیوں نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر جمع ھونا شروع کر
دیا۔ جس سے لاھور کی حد تک پی ٹی آئی ارائیں لیگ بن گئی لیکن لاھور سے باھر
کا ارائیں پی ٹی آئی کے علاوہ پی ایم ایل این اور پی پی پی میں بھی ھونے کی
وجہ سے پنجاب کی سطح پر مزید منتشر ہو گیا۔
جیسا کہ پنجاب میں اس وقت پی ایم ایل این اصل میں بٹ لیگ بنی ہوئی ہے۔ پی
ایم ایل ق اصل میں جٹ لیگ بنی ہوئی ہے۔ پی پی پی اصل میں بلوچ و عربی لیگ
بنی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی اصل میں پٹھان لیگ بنی ہوئی ہے۔ راجپوت کی اکثریت
جٹ لیگ اور بلوچ و عربی لیگ سے زیادہ بٹ لیگ میں ھے۔ ارائیں اس وقت جٹ لیگ
میں تو ھیں نہیں۔ بٹ لیگ میں ھیں تو سہی لیکن بٹ اور راجپوت کے بعد تھرڈ
پوزیشن پر ھیں۔ پی پی پی میں بھی پوزیشن کے لحاظ سے عربی نزاد اور بلوچ
نزاد کے بعد کی پوزیشن پر ھیں اور پی ٹی آئی میں بھی پوزیشن کے لحاظ سے
پٹھان نزاد کے بعد کی پوزیشن پر ھیں۔
پنجاب میں اب پی ایم ایل این ، پی ایم ایل ق ، پی ٹی آئی کے علاوہ پی پی پی
نے ایک بار پھر سے دوبارہ تنظیم سازی کرنی ھے۔
راجپوت کی اکثریت چونکہ پی ایم ایل این میں ھے ، اس لیے مستقبل میں بھی
راجپوت کی اکثریت نے پی ایم ایل این میں ھی رھنا ھے۔
جٹ کی اکثریت چونکہ پی ایم ایل ق میں ھے ، اس لیے مستقبل میں بھی جٹ کی
اکثریت نے پی ایم ایل ق میں ھی رھنا ھے یا پی ٹی آئی میں چلے جانا ھے۔ لیکن
الیکشن کے دوران ھر حلقے میں جاٹ کو چونکہ بٹ اور راجپوت کے ساتھ ساتھ
ارائیں کے ساتھ بھی مقابلہ کرنا پڑنا ھے ، اس لیے پی ایم ایل ق یا پی ٹی
آئی کے پلیٹ فارم سے کسی امیدوار کے منتخب ھونے کے امکانات کم ھی رھنے ھیں۔
عربی نزاد اور بلوچ نزاد کی اکثریت چونکہ پی پی پی میں ھے ، اس لیے مستقبل
میں بھی عربی نزاد اور بلوچ نزاد کی اکثریت نے پی پی پی میں ھی رھنا ھے۔
لیکن الیکشن کے دوران ھر حلقے میں عربی نزاد اور بلوچ نزاد کو چونکہ بٹ اور
راجپوت کے ساتھ ساتھ ارائیں کے ساتھ بھی مقابلہ کرنا پڑنا ھے ، اس لیے پی
پی پی کے پلیٹ فارم سے کسی امیدوار کے منتخب ھونے کے امکانات کم ھی رھنے
ھیں۔
جٹ لیگ یعنی پی ایم ایل ق اور بلوچ و عربی لیگ یعنی پی پی پی البتہ آپس میں
اتحاد کر کے بلوچ و عربی اور جٹ کو بٹ لیگ یعنی پی ایم ایل این کے مقابلے
میں لا سکتے ھیں۔ لیکن اس صورت میں بھی فیصلہ کن کردار ارائیں کا ھونا ھے ،
جو جٹ لیگ یعنی پی ایم ایل ق کو تو سپورٹ نہیں کریں گے لیکن بلوچ و عربی
لیگ یعنی پی پی پی کو کر سکتے ھیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ ذالفقار علی
بھٹو اور بےنظیر بھٹو کے دور کی طرح ارائیں کو پی پی پی میں پوزیشن دی جائے
، نہ کہ عربی نزاد اور بلوچ نزاد کے بعد کی پوزیشن پر رکھا جائے یا پی ایم
ایل ق کے زوال کی وجہ سے پی ایم ایل ق کو چھوڑ کر پی پی پی میں آنے والے
جاٹ کی وجہ سے ارائیوں کو جاٹ کے بعد کی پوزیشن پر رکھا جائے۔
پی ایم ایل این فی الوقت بٹ اور راجپوت لیگ بن چکی ھے۔ پی ایم ایل این سے
غداری کر کے پی ایم ایل ق بنا کر پی ایم ایل این کے ساتھ محاذ آرائی کرتے
رھنے کی وجہ سے جاٹ کا پی ایم ایل این میں کوئی مستقبل نہیں ھے۔ عربی نزاد
اور بلوچ نزاد کو پی ایم ایل این نے بٹ اور راجپوت کے بعد کی پوزیشن پر ھی
رکھنا ھے لیکن پی ایم ایل این نے اگر پی ایم ایل این کے بٹ لیگ کے لیبل کو
تبدیل کر کے بٹ ، راجپوت اور ارائیں کو برابری کی سطح پر رکھنا شروع کردیا
تو پی ایم ایل ق اور پی پی پی کے اتحاد کی صورت اور پی ٹی آئی کے اس اتحاد
میں شامل ھونے کے باوجود بھی یہ اتحاد ، عربی نزاد ، بلوچ نزاد ، پٹھان
نزاد اور جاٹ اتحاد ھی رھنا ھے۔ جو پنجابی قوم کی سیاسی طور پر متحرک اور
با اثر 4 بڑی برادریوں میں سے ارائیں ، بٹ (کشمیری) ، راجپوت کی 3 بڑی
برادریوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
پی ایم ایل این نے اگر پی ایم ایل این کے بٹ لیگ ھونے کے لیبل کو تبدیل نہ
کیا اور پی ایم ایل این بٹ اور راجپوت کی ھی بالاتری والی پارٹی رھی جبکہ
ارائیوں کی اکثریت پی پی پی میں چلی گئی یا پی ٹی آئی میں چلی گئی اور پی
پی پی ، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل ق کا آپس میں اتحاد ھو گیا یا جاٹ بھی پی
پی پی یا پی ٹی آئی میں شامل ھو گئے تو پنجاب کی سیاسی طور پر متحرک اور با
اثر 2 سب سے بڑی برادریوں ارائیں اور جاٹ کے بٹ (کشمیری) ، راجپوت برادریوں
کے ساتھ ایک ھوکر مقابلہ کرنے کی صورت میں پی پی پی یا پی ٹی آئی نے
بالاتری حاصل کرلینی ھے۔
فی الوقت پنجاب میں ارائیں اور جاٹ کا ایک سیاسی گھاٹ پر اکٹھے ھونا مشکل
نظر آتا ھے لیکن پی ایم ایل این کے بٹ لیگ بن جانے ، جاٹ کے ساتھ محاذآرائی
ھونے ، بٹ (کشمیری) کے بعد راجپوت کو اولین حیثیت اور ارائیں کو ثانوی
حیثیت پر رکھنے کی پی ایم ایل این کی پالیسی اگر تبدیل نہ ہوئی تو ارائیں ،
جٹ سیاسی محاذآرائی نے سیاسی مفاھمت اور ارائیں ، بٹ سیاسی مفاھمت نے سیاسی
محاذآرائی میں تبدیل ھوجانا ھے اگر پی پی پی نے ارائیں اور جاٹ کو پی پی پی
کے پلیٹ فارم پر یا پی ٹی آئی نے ارائیں اور جاٹ کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم
پر ویسے ھی متحد کر دیا جیسے بٹ (کشمیری) اور راجپوت کو پی ایم ایل این نے
متحد کیا ھوا ھے۔
پی ٹی آئی اگر ارائیں اور جاٹ کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر نہ لاسکی اور
پی پی پی نے پنجاب میں پی پی پی کو بلوچ و عربی لیگ ھی رکھا ، پنجاب کے
عربی نزاد اور بلوچ نزاد کو سرائیکی قرار دینے ، پنجاب کو علاقوں میں اور
پنجابی قوم کو لہجوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی برقرار رکھی تو پی پی پی کو
نہ تو پنجاب سے ارائیں نے سپورٹ کرنا ھے اور نہ جاٹ نے سپورٹ کرنا ھے۔ پی
ایم ایل این کے صرف بٹ (کشمیری) اور راجپوت کی ڈومینیٹنگ پولیٹیکل پارٹی
ھونے کے باوجود بھی پی ایم ایل این نے ھی پنجاب کی ڈومینیٹنگ پولیٹیکل
پارٹی رھنا ھے۔
اگر پی پی پی کی عربی نزاد اور بلوچ نزاد کو سرائیکی قرار دینے ، پنجاب کو
علاقوں میں اور پنجابی قوم کو لہجوں میں تقسیم کرنے کی پالیسی کا مقابلہ
کرنے کے لیے پی ایم ایل این نے بٹ (کشمیری) اور راجپوت پولیٹیکل پلیئرز کے
ساتھ ساتھ ارائیں اور جٹ پولیٹیکل پلیئرز کو بھی پی ایم ایل این کے پلیٹ
فارم پر اکٹھا کرکے پی ایم ایل این میں پنجابی قوم کی سیاسی طور پر متحرک
اور با اثر 4 بڑی برادریوں ارائیں ، جٹ ، بٹ (کشمیری) ، راجپوت کے پولیٹیکل
پلیئرز کو متحد اور منظم کرلیا تو نہ صرف پی ایم ایل این کے بٹ لیگ ھونے کا
تاثر ختم ھو جانا ھے بلکہ پی ایم ایل این نے پنجاب کی ڈومینیٹنگ پولیٹیکل
پارٹی ھونے کے ساتھ ساتھ پنجابی قوم کی سب سے مضبوط پولیٹیکل پاور بن جانا
ہے۔ جسکا پی ایم ایل ق اور پی ٹی آئی جیسی پنجاب کی پولیٹیکل پارٹیز نے تو
مقابلہ کر ہی نہیں پانا۔ جبکہ پنجاب سے باھر کی پی پی پی جیسی پولیٹیکل
پارٹی نے بھی نہ صرف ذاتی حیثیت میں بلکہ پنجاب اور پنجاب سے باھر کی دوسری
پولیٹیکل پارٹیز کے ساتھ اتحاد بننا کر بھی پی ایم ایل این کا مقابلہ نہیں
کر پانا۔ |