اداروں کی مضبوطی

اداروں کو اسی وقت مضبوط کہاجاسکتا ہے جب وہ آئین و قانون کے مطابق کام کریں۔قومیں اداروں کی مضبوطی سے ترقی کرتی ہیں۔پاک آرمی بھی ہمارا ایک بڑا،ماثر اور طاقتور ادارہ ہے۔بیرونی دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی امن وامان کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک اسی ادارے کے کندھوں پر ہے۔اس کے چیف کا قانون کے عین مطابق اپنا3۔سالہ دور پوراکرکے ریٹائر ہوجانا اور کمان نئے چیف کو سپر د کردینا پاکستان کے تناظر میں ایک بڑی بات ہے۔دوسرے ملکوں میں یہ کام ہوتا ہی رہتا ہے۔لیکن ہمارے ملک میں تو روایات مختلف رہی ہیں۔یہاں ضیاء الحق 11۔سال ،مشرف 9سال اور کیانی صاحب 6سال تک آرمی چیف کے عہدے سے چمٹے رہے۔ان لمبے عرصوں میں بہت سے سینئیرجنرلز آرمی چیف کے عہدے کی حسرت لئے ریٹائر ہوتے رہے۔اس صورت حال کو کسی بھی حوالے سے درست نہیں کہا جاسکتا۔جنرل راحیل شریف نے آکر آئین وقانون کی پابندی کی۔اصل اہمیت تو ادارے یعنی پاکستان آرمی کی ہے۔ہر آرمی چیف جب اپنے طے شدہ Tenureکے مطابق ریٹائر ہواور کمان نئے جنرل کو سپرد کرے تو ادارہ مزید مضبوط ہوتا ہے۔اس سے پہلے کے لمبے ادوار میں ہوسکتا ہے کہ پاکستان آرمی اپنے کتنے ہی قابل جزلز کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہی ہو۔اب یہ روایت آئندہ بھی قائم رہنی چاہیئے۔ائیر فورس اور نیوی میں3سالہ روایت برقرار رہی ہے۔حق دار کو اس کا حق ملتا رہا ہے۔ادارے قانون کی پابندی سے ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ایک بڑی آرمی ہماری ضرورت تو ہے۔لیکن سول حکومت کا قد کاٹھ سیکیورٹی اداروں سے بڑا نظر آنا چاہئے۔آئین اور قانونی لہاظ سے تمام سیکیورٹی ادارے سول حکومت کے ماتحت ہیں۔لیکن میڈیا سول اور فوجی اداروں میں تناؤ کی خبریں اس تسلسل سے پھیلاتا ہے کہ سول اداروں کی بالا دستی کا تصور قائم نہیں رہتا۔گزشتہ3سال میں بھی سیکیورٹی اداروں کی طرف سے سول حکومت کو فارغ کرنے کی خبریں تسلسل سے پھیلائی جاتی رہیں۔جنرل کی باڈی لینگوئج سے ہی بہت کچھ اخذ کرکے تاریخیں دینے کا یہاں عام رواج ہے۔میرے دیکھنے کے مطابق جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کے درمیان 3سالوں میں سب سے زیادہ ملاقاتیں رہی ہیں۔ہر ضروری موقع پر ملاقات کرکے آئندہ کا پروگرام بنا۔لیکن ایک پیج کی بجائے 2پیج کا تصور شاید میڈیا کو بہت ہی خوبصورت لگتا ہے۔علیحدہ علیحدہ پیج پر ہونے کی سازشی تھیوریاں گھڑنا اور انہیں خوب اچھا لنا اکثر میڈیا کاکام رہا ہے۔چینلز کے بہت زیادہ ہونے سے ہرچینلز کی یہ ضرورت سی بن گئی ہے۔نئی سازشی تھیوری سے ان کے چینلز کے پیٹ بھرتے ہیں۔کچھ دوستوں نے نئی آرمی چیف کے اعلان سے بھی پہلے ان کے بارے الزام تراشی شروع کردی تھی۔مجھے یہ الزام سن کر وہ دور یاد آگیا جب بھٹو کے خلاف زوردار تحریک چل رہی تھی۔جنرل ضیاء الحق نے ابھی مارشل لاء نہیں لگایا تھا۔صرف دیرکرنے کی وجہ سے انہیں دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیاگیا تھا۔بعد میں لوگ حیران رہ گئے جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ آرمی میں سروس کرنے والے ایک عالم دین کے بیٹے ہیں۔سول حکومت اور فوج کے درمیان جوتعاون گزشتہ3سال میں رہا۔آئندہ بھی یہ روایت برقرار رہے گی۔اور CPECجو ایک بڑا اور لمبے عرصے میں مکمل ہونے والا پروجیکٹ ہے اس میں فوج کے تعاون کی انتہائی شدید ضرورت ہے۔جنرل راحیل نے آپریشن ضرب عضب کی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کو بھی بہت اہمیت دی۔اب پاکستان کی معاشی ترقی اسی بڑے پروجیکٹ سے وابستہ ہے۔چینی کمپنیوں نے اب مالیاتی وسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔2030ء تک اگر یہ تمام کام مکمل ہوجاتے ہیں تو پاکستان میں حالات بہت تبدیل ہوجائیں گے۔اگر سول ادارے فوج پر بالادستی چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ سول ادارے اپنی کارکردگی بہتر بنائیں۔ابھی تک پارلیمنٹ کوئی نمایاں کام نہیں کرسکی۔اس کے اجلاسوں میں حاضری اب بھی مسٔلہ بنی رہتی ہے۔ہمارے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں زیادہ سے زیادہ وقت دیکر قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اسمبلی کا جو بھی ایجنڈا ہو اس پر تیاری کرنی بھی ضروری ہوتی ہے۔جو بھی مسٔلہ زیر بحث آئے اس پرسیر حاصل گفتگو ہو۔اکثر ممبران صرف اور صرف حاضری لگواتے ہیں۔بحث میں حصہ نہیں لیتے۔خواتین ممبران کے بارے یہی تاثر ہے۔تحریک انصاف کو بھی بائیکاٹ ختم کرکے اسمبلی میں موجود ہونا ضروری ہے۔سروے یہی بتاتا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں نے اسمبلی کو بہت کم وقت دیا ہے۔مشکلات میں گھر ے پاکستان کو اسی پارلیمنٹ نے تو نکالنا ہوتا ہے۔اور اسی پارلیمنٹ میں کورم کے ٹوٹنے کی خبریں پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کرتی ہیں۔Pildatکی سروے کے مطابق جماعت اسلامی کے ارکان کی کارکردگی اسمبلی میں باقیوں سے بہتر رہی ہے۔باقی پارٹیوں کو بھی اپنی خامیاں دور کرنی چاہئے۔جب ہماری پارلیمنٹ ریگولر اجلاس کرے۔قانون سازی باقاعدگی سے ہوتی رہی۔وزراء سوالوں کے جواب کے لئے حاضر رہیں۔اس سے پارلیمان کا قد کاٹھ بڑھے گا۔اگر پارلیمان احتساب کا نیاہمہ گیر اورماثر قانون بنا کر دولت لوٹنے والوں کا تیز رفتار احتساب شروع کرتی۔تو باہر جانے والی دولت پر روک لگایا جاسکتا تھا۔نیب،ایف۔بی۔آراور دوسرے اداروں کو بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ماثر بنایا جاسکتا ہے۔ان اداروں کے قوانین قومی کی بجائے ایسے بنائے جائیں کہ یہ دوسرے ملکوں میں پڑے ہوئے اثاثے اور دولت تک بھی رسائی حاصل کرسکیں۔وہاں جاکر تحقیق وتفتیش کرسکیں اور باہر موجود دولت کو واپس لاسکیں۔تو پاکستان کے حالات اب تک کافی بہتر ہوسکتے تھے۔اب تک پارلیمان کی کارکردگی کوIdealنہیں کہاجاسکتا۔صرف روٹین کا کاروبار حکومت ہی چلایا جارہا ہے۔ہمارا فوجی ادارہ اگرDominantہے۔تو وہ صرف اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی وجہ سے ہے۔ہمارے نمائندہ ارکان کو بھی اپنے شعبہ میں اپنی کارکردگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ارکان پارلیمان کی لمبی اور چمکتی ہوئی گاڑیاں "کارکردگی"کو ظاہر نہیں کرتیں۔قوم کی فلاح وبہبود کے لئے ہونے والی قانون سازی سے اور اس پر عمل درآمد کروانے سے کارکردگی کی پیمائش ہوتی ہے۔جمہوریت کے لئے یہ تو ایک اچھی بات ہے کہ ہر حکومت اور پارلیمان اپناTenureپورا کرے۔پاکستان میں یہ روایت اکیسویں صدی میں بنتی نظر آتی ہے۔2002ء کے بعدالیکشن2008ء،پھر2013ء میں ہوئے یوں دونوں پارلیمان کو پوراپورا وقت ملا۔اب آئندہ الیکشن 2018ء میں ہی نظر آتا ہے۔یوں موجودہ پارلیمان اور حکومت بھی اپنی مدت پوری کرتی نظر آتی ہے۔پارلیمان اور حکومتوں کےTenureپورا ہونے کا عوام کو کیا حاصل ہوا؟۔کیا تعلیم،صحت،خوراک اور رہائشی سہولتوں کے حالات میں تبدیلی آئی۔حکومتیں عوام کی بہتری کے لئے ہوتی ہیں۔اداروں کی مضبوطی کا عوام کوفائدہ حاصل ہونا ضروری ہے۔ابھی تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے فوجی ادارے مضبوط ہیں۔سویلین ادارے ابھی اپنا مقام نہیں بنا سکے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49676 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.