کراچی کی سیاست میں مثبت تبدیلی لانے والے مصطفی کمال کی سچی اورکھری باتیں !

,3 مارچ کو پاکستان واپس آکرمتحدہ قائد کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے کراچی کی سیاست میں بھونچال پیدا کردینے والی شخصیت مصطفی کمال سے کون واقت نہیں کہ جب لوگوں نے پرویز مشرف کے زمانے میں کراچی کے منتخب ناظم کی حیثیت سے مصطفی کمال کو کراچی کی تعمیر وترقی کے لیے دن رات کام کرتے ہوئے دیکھا تو متحدہ کے مخالف بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ مصطفی کمال نے کراچی جیسے بڑے شہر کے مئیر کے طور پرہر طرح کے لسانی ،قومی اور پارٹی مفادات سے بالا تر ہوکرکراچی کے تقریباً تمام علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ٹریفک کی روانی کے لیئے جو دوررس عملی اقدامات کیئے اور جس طرح نہایت تیزی کے ساتھ کراچی کی تباہ حال سڑکوں کو نئے سرے سے بنانے کا بیڑہ اٹھایا اورپھر کراچی میں فلائی اوور ز کاجو جال بچھایا اس نے ان کو کراچی میں بسنے والے ہر باشندے کا ہیرو بنادیا ۔

متحدہ نے اپنی سیاست کا آغاز کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کو پاکستان لاکر آباد کرنے جیسے نعروں اور وعدوں سے کیا تھا لیکن کیا متحدہ نے اپنے 30 سالہ دور سیاست میں ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا کیا یا وہ 30 سال کے دوران ہر آنے والی حکومت میں اقتدار اور وزارتیں حاصل کرنے کے باوجود کوٹہ سسٹم کے خاتمے یا بہاریوں کو پاکستان لاکر آباد کرنے کی سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل کرپائی ؟حقائق بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی کامیا بی متحدہ حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی تو پھر تحریک کس بات کی اور منزل کیا ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جسے مصطفٰی کمال نے نہایت بے خوفی کے ساتھ کراچی میں واپس آنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کھل کربیان کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ طویل جدوجہد اور بیشتر وقت ہر حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہنے کے باوجود ایم کیوایم نے اپنے چاہنے والوں ،ووٹرز اور کارکنوں کو کیا دیا؟ہڑتالیں ،جلاؤ گھیراؤ ،شور شرابے اور ڈراما بازیوں سے بھرپور سیاست کے لیئے تو اردو بولنے والوں نے ایم کیوایم کو ووٹ نہیں دیے تھے ؟

اردو اسپیکنگ کمیونیٹی کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ نے اردو بولنے والوں کے لیئے کو ن سا ایسا قابل فخر کام کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ آنکھیں بند کرکے ان کا ساتھ دیتے رہیں۔؟
یہ وہ سوالا ت تھے جن کا لوگ متحدہ سے جواب چاہتے تھے لیکن خوف ودہشت کی وجہ سے کوئی اس بات کی ہمت نہیں کرپاتا تھا کہ وہ نام نہاد قیادت کے خلاف کچھ بولے یا ان سے پوچھے کہ بھائی ہم نے آپ کو 30 سال تک اپنا ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا آپ نے ہمارے لیئے کیا کیا؟ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر دور کے فرعون کے لیئے ایک موسیٰ پیدا کیا ہے اوراسی کے ہاتھوں وقت کے فرعونوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوکر عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

کراچی کے باشندوں کی اکثریت بہت عرصہ سے سیاسی فرعونوں کو غرق کرنے والے کسی موسیٰ کی تلاش میں تھی جو ان کو خوف ودہشت اور بدامنی کی سیاست کے چنگل سے آزاد کروا کر ایک پرامن معاشرہ فراہم کرسکے جہاں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی مرضی کے مطابق ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں ۔یوں تو مصطفی کمال کی متحدہ سے کھلی بغاوت سے قبل ایم کیوایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد،پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ،پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا اور متحدہ کے صولت مرزا نے بھی متحدہ قیادت کی منفی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا لیکن ان کو وہ نمایاں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جو مصطفی کمال کو آتے ہی حاصل ہوگئی۔

مصطفی کمال نے آکر جو کمال کی باتیں کی ہیں انہیں جھٹلانا اتنا آسان نہیں کہ مصطفی کمال متحدہ کے ایک تعلیم یافتہ ،متحرک ،قابل اور نیک نام لیڈر رہے ہیں جنہوں نے ماضی میں کراچی کے مئیر کے طور پر جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس کا اعتراف پورا کراچی کرتا ہے اب اگر مصطفی کمال کوئی بات کرتے ہیں تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے بیانات کی تصدیق ان کی قائم کردہ نئی سیاسی پارٹی میں آنے والے متحدہ کے مزید باغی ارکان کئی بار کرچکے ہیں،کیا اس کے بعد بھی سیاسی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیئے کسی مزید ثبوت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟

متحدہ کے اندر سے بغاوت کرنے والے سینئر رہنما مصطفی کمال ،انیس قائم خانی ،ڈاکٹر صغیر،وسیم آفتاب،رضا ہارون،افتخار عالم، انیس خان ایڈوکیٹ ،اشفاق منگھی اور افتخار رندھاوا ،بھی میڈیا کے سامنے آکربہت کھل کر باتیں کررہے ہیں اوراپنی سابقہ پارٹی کے قائد کے بھارتی ایجنسی را کے ساتھ مراسم اور اس پارٹی کے کارکنوں کے دہشت گردوں کی بھارتی کیمپوں میں ٹریننگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے اور جنوبی افریقہ سے دہشت گردوں کے سیٹ اپ کو کنڑول کرنے کے سنگین انکشافات کرچکے ہیں جبکہ پاک سرزمین پارٹی شاہراہ فیصل کراچی پر نرسری کے قریب سیکریٹریٹ قائم کرکے ریگولر بنیادوں پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا بھی آغاز کرچکی ہے ۔پاکستان سے محبت کے اظہار کے لیئے پی ایس پی کے مرکزی سیکریٹریٹ کا نام ’’ پاکستان ہاؤس ‘‘ رکھا گیا ہے اور اس پر سیاسی پارٹی کے پرچم کی بجانے پاکستان کا قومی پرچم لگایا گیا ہے جو اس بات کا واضح اظہار کرتا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی ایک محب وطن پارٹی کے طور پر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کی سیاست متحدہ کی طرح صرف کراچی اور حیدرآباد تک محدود نہ رہے اور اسے ملکی سطح پر مقبولیت اور کامیابی حاصل ہو۔گوکہ مصطفی کمال پہلے ہی دن سے جس انداز کی باتیں کررہے ہیں ان سے مصطفی کمال کی پاکستان سے سچی محبت اور کراچی والوں کو ایک صاف ستھری سیاسی قیادت دینے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے لیکن مصطفی کمال پر تنقید کرنے والوں اور ان کو ایجنسیوں کا تخلیق کردہ سیاست دان کہنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ،جہاں دن بدن ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے وہیں ان پر شدید ترین تنقید کرتے ہوئے مختلف الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔لیکن ایک بات تو ماننی ہی پڑے گی کہ کراچی کے طرزسیاست میں مصطفی کمال ایک ایسی مثبت تبدیلی لے کرآئے ہیں جو سب کو واضح طور پر دکھائی بھی دے رہی ہے ،سیاست میں قوت برداشت اور ایک دوسرے کی سیاسی سرگرمیوں اور مقبولیت کو خندہ پیشانی سے برداشت اور قبول کرنے اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی منفی سرگرمی یا کارروائی نہ کرنے کی تبلیغ ،اعلان اور طرزعمل اختیار کرکے مصطفی کمال نے لوگوں کے دلوں میں بہت جلد اپنی جگہ بنالی ہے جبکہ پاکستان اور پاکستانی جھنڈے سے ان کی بے لوث محبت کے واضح اظہار نے انہیں کراچی کی سیاست سے بالا تر کرکے ایک ملک گیر لیڈر بنادیا ہے جبکہ متحدہ 30 سال کی سیاست کے باوجود آج تک ایک ملک گیر اور وفاقی پارٹی کی شکل اختیار نہیں کرسکی اور نہ ہی اسے سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں کوئی واضح پذیرائی یا انتخابی کامیابی حاصل ہوئی لیکن مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی نے صرف چند ماہ کے اندر ایک ملک گیر پارٹی کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں پاک سرزمین پارٹی کے دفاتر کھل چکے ہیں جہاں اس پارٹی کے تحت سیاسی سرگرمیاں زور وشور کے ساتھ جاری ہیں۔لڑائی جھگڑے اور ہر طرح کے لسانی وقومی تعصب سے پاک سیاست کو کراچی میں فروغ دینے کا کریڈٹ بہر طور مصطفی کمال کو ہی دیا جانا چاہیئے جنہوں نے نہایت قلیل عرصہ میں انتہائی فعال اور باعمل رہنما کی حیثیت سے جس تیز رفتاری کے ساتھ سیاست کرکے دکھائی ہے وہ کراچی میں سیاست کرنے والے تمام رہنماؤں کے لیئے واضح پیغام ہے کہ اپنا قبلہ درست کرلیں ورنہ آنے والے وقت میں مصطفی کمال کو لوگوں کے دلوں پر راج کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

مصطفی کما ل نے نہایت بے خوفی اور بہادری کے ساتھ متحدہ کے قائد کے خلاف دل کھول کربہت سے پوشیدہ حقائق اردو بولنے والوں کے سامنے رکھے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مصطفی کمال کے دل سے خوف خدا کے علاوہ ہر طرح کا خوف نکل چکا ہے او ر جس رہنما کو مرنے سے ڈر نہ لگتاہو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے وہ سب کچھ کرکے دکھا سکتا ہے جو ایک عام رہنما کبھی نہیں کرسکتا ۔کراچی کی سیاست میں بھونچال پیداکردینے والی شخصیت مصطفی کمال کی متحدہ سے بغاوت کو آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی سے تشبیہ دینے کی حماقت نہ کی جائے کہ آفاق احمداور مصطفی کمال کے طرز سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔آفاق احمد ،اور عمران فاروق کے بعداب مصطفی کمال ،انیس قائم خانی،ڈاکٹر صغیر،وسیم آفتاب،رضا ہارون،افتخار عالم ، انیس خان ایڈوکیٹ،افتخار رندھاوا ، اشفاق منگھی اور متحدہ سے تعلق رکھنے والے دیگر 260 سے زائد اہم کارکنان اور ذمہ دارن کی متحدہ قائد سے کھلم کھلا بغاوت کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت یہ بات ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کی شخصیت اور ان کے طرز سیاست میں کچھ تو ایسی متنازع بات ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ 30 سال سے زائد عرصہ گزارنے والے لوگ ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑ کر مصطفی کمال کی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں اور یہ سب یک زبان ہوکر الطاف حسین کی شخصی خامیوں اور پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں پر دل کھول کر روشنی ڈال رہے ہیں۔

سب اردوبولنے والوں کی طرح میں نے بھی مصطفی کمال کی باتوں کو بہت غور سے سنا اور یہ فیصلہ کیا کہ کراچی کی سیاست میں بھونچال پیدا کردینے والی باکمال شخصیت مصطفی کمال سے ایک ملاقات کی جائے جس میں ان سے وہ سوالا ت کیئے جائیں جن کا جواب کراچی کے باشندے جاننا چاہتے ہیں۔

مصطفی کمال سے میرا پہلا رابطہ سوشل میڈیا کے ذریعے اس وقت ہوا جب انہو ں نے 3 مارچ کو پاکستان واپس آکر کراچی میں متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف انکشافات اور الزامات سے بھرپور ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی اور کراچی کی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا اورپھر انہوں نے فیس بک اور ٹیوٹر پر اپنے نئے اکاؤنٹس اوپن کرکے عوام سے رابطے کا آغاز کیا۔مصطفی کمال کی پرکشش شخصیت اور ان کی دلیرانہ باتوں نے مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ میں ان سے پاک سرزمین پارٹی کے ہیڈآفس میں ان سے ملاقات کرکے وہ سب باتیں پوچھوں جن کا جواب کراچی کا ہر شہری جاننا چاہتا ہے چنانچہ میں نے پاک سرزمین پارٹی کے ہیڈ آفس ’’پاکستان ہاؤس ‘‘ المعروف کمال ہاؤس کے ذمہ داران سے رابطہ کیا جس کے بعد مصطفی کمال سے ملاقات کے لیئے ایک روز شام 7 بجے کا ٹائم طے ہواچنانچہ میں طے شدہ وقت پر ’’ پاکستان ہاؤس ‘‘جا پہنچا ۔ مصطفی کمال کی نومولود سیاسی پارٹی پاک سرزمین کے ہیڈ آفس کے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہی ایک خوش گوار تبدیلی کا احساس ہوتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر مجھے کافی حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ مصطفی کمال جنہو ں نے ایم کیو ایم کے خلاف بڑے زور وشور کے ساتھ علم بغاوت بلند کیا ہے انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے باوجود اپنی سیکوریٹی کے لیئے کوئی غیر معمولی بندوبست نہیں کیا تھا ۔ بس کمال ہاؤس کے سامنے کچھ فاصلے پر پولیس کی موبائلیں اور اطراف میں چند پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی گاڑیاں کھڑی ہوئی نظر آئیں۔ کمال ہاؤس کے اندر داخلے کے بعد ایک گارڈ نے میری رسمی جامہ تلاشی لی اور پھر مجھے استقبالیہ کی طرف بھیج دیا گیا۔استقبالیہ پر ایک رجسٹر پر کمال ہاؤس آنے والوں کی تفصیلات درج کی جارہی تھیں چنانچہ میرا نام اور موبائل نمبر درج کرنے کے بعد مجھے کمال ہاؤس کے اس حصے کے اندر بھیج دیا گیا جہاں مصطفی کمال سے ملنے والے کچھ اور لوگ بھی موجود تھے لیکن مجھے ان لوگوں کے درمیان بٹھانے کی بجائے ایڈمنسٹریشن آفس کے اندر بلالیا گیا اور مجھے بٹھانے کے بعد بتایا گیا کہ مصطفی کمال کچھ دیر بعد آپ سے یہیں آکراطمینان سے ملاقات کریں گے کیونکہ باہر ملاقات گاہ میں بہت سے لوگ موجود ہیں جہاں کھل کر بات نہیں ہوسکتی ۔چنانچہ میں کراچی کے سابق نیک نام سٹی ناظم اور موجودہ دلیر سیاستدان مصطفی کمال کی آمد کا انتظار کرنے لگا ،اس دوران انتظامیہ نے میرے لیئے چائے پانی کا بندوبست کیا اور ابھی میں چائے پی ہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور مصطفی کمال اندر تشریف لائے، میں نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کو سلام کیا جس پر انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے مجھے گلے لگایا اور پھر میرے ساتھ ہی موجود دوسری کرسی پر بیٹھ گئے ۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ متحد ہ کے سابق رہنما ،کراچی کے سابق ناظم اور نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ کی شخصیت میں کتنی سادگی اور اپنا پن تھا کہ وہ ایک عام سی آسمانی رنگ کی جینز کی پینٹ اور ڈارک بلیو کلر کی ٹی شرٹ پہنے ہوئے میرے بالکل قریب آکر بیٹھ گئے اور اس طرح بات چیت شروع کردی جیسے وہ مجھے کافی پہلے سے جانتے ہوں۔نہ کوئی دکھاوا نہ کوئی بڑائی اور غرور کا اظہار اور نہ بات چیت میں کوئی بناوٹ ایک سیدھا سادھا اور سچا انسان مصطفی کمال کی صورت میں میرے سامنے بیٹھاتھااور مجھے اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ وہ جو مصطفی کمال نے کراچی آکر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ زندگی اور موت کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس بات کی حقیقت مصطفی کمال کے رہن سہن ،لباس ،چہرے اور گفتگو سے روز روشن کی طرح عیاں ہورہی تھی اور ان سے گفتگو کرنے کے بعد اس بات کا مزید اطمینان ہو گیا کہ مصطفی کمال گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر نہایت نیک نیتی اور ایمانی قوت کے ساتھ سچائی اور وطن پرستی کے راستے پر گامزن ہوچکے ہیں اور سیاسی مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس طرح کے لوگ سیاست کے میدان میں بہت کامیاب رہتے ہیں کہ جن لوگوں کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے وہ دوسروں کی جانوں کی حفاظت کیسے کرسکتے ہیں اور جو لوگ سیاست کے میدان میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آتے ہیں وہ ہی کچھ نیا کرکے دکھا سکتے ہیں جوکہ اب مصطفی کمال کرکے دکھانا چاہتے ہیں جس کا انہیں پورا موقع ملنا چاہیئے۔

مصطفی کمال سے اس ملاقات میں جو بات چیت ہوئی وہ سوال جواب کی صورت میں من وعن تحریر کی جارہی ہے جسے پڑھ کر قارئین خود ہی اندازہ لگا لیں گے کہ ان کی باتوں میں کتنی سچائی اورگہرائی ہے۔
سوال : آپ کے بارے میں تواترسے کہا جارہا ہے کہ آپ متحدہ قومی موومنٹ (MQM )میں مائنس ون(مائنس الطاف) فارمولے پر عمل کروانے کے لیئے کراچی واپس آئے ہیں اور اور آپ کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اس الزام پر آپ کا موقف کیا ہے ذرا تفصیل سے بیان کریں؟

جواب:’’جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میں 3 سال قبل ایم کیوایم چھوڑ کر پاکستان سے باہر چلا گیا تھا اور پھر جب 3 مارچ کومیں وطن واپس لوٹا توکراچی واپس آنے پر میری پہلی پریس کانفرنس کے فوراً بعد ہی مجھ پر یہ الزامات لگنے شروع ہوگئے تھے، مجھے حیرت ہے کہ جب میں نے اپنی ضمیر کی آواز سن کر گمراہی کا راستہ چھوڑ کر سچائی کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیااور ایم کیوایم (متحدہ) کے قائد کے خلاف کھل کر حقائق بیان کیئے تو میری باتوں پر غوروفکر کرنے کے بجائے مخالفین کی جانب سے منفی پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا ۔ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی سیاست دان نے اپنی سابقہ پارٹی سے اصولوں کی خاطر بغاوت کرکے سچ بولنے کی کوشش کی ہے تو لوگوں نے اس کی راہ میں کانٹے بچھانے میں دیر نہیں لگائی اور یہی سب کچھ میرے اور انیس قائم خانی کے ساتھ بھی ہوا ۔رہی بات مائنس ون فارمولے کی تو اگر میں الطاف حسین کو ہٹا کر خود قائد بننا چاہتا تو اس کے لیئے بھرپور پلاننگ اور رابطے کرنے کے بعدمیں صرف انیس قائم خانی کے ہمرا ہ پریس کانفرنس نہ کرتابلکہ متحدہ کے دیگر بہت سے اہم رہنماؤں کے ساتھ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے ہی منظر عام پر آتایا پھر ایم کیو ایم حقیقی کی طرح متحدہ کا ایک اورپریشر گروپ بناکر بیٹھ جاتا لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ یہ سب کرنا میرا مقصد ہی نہیں تھا۔

بات یہ ہے کہ جب میں نے ایم کیوایم میں شامل رہتے ہوئے بہت کچھ غلط ہوتے دیکھا اور الطاف حسین کی منفی سرگرمیوں کا علم ہوا تو میرے ضمیر نے ملامت شروع کی اور میرے دل ودماغ نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ سب کچھ جان کر بھی ایک غلط اور گمراہ انسان کا ساتھ دینا اپنی کمیونٹی یعنی اردو بولنے والوں اورپوری پاکستانی قوم کے ساتھ دھوکہ ہے جس پر میری دنیا اور آخرت دونوں خراب ہوسکتی ہیں بس اﷲ تعالیٰ نے توفیق اور ہمت دی اور میں میدان سیاست میں الطاف حسین کا مخالف بن کر کود پڑا۔اس کے علاوہ سب کے علم میں ہے کہ ایم کیو ایم کی بنیاد کراچی اور حیدرآباد کی سیاست ہے جبکہ میں نے جو سیاسی پارٹی بنائی ہے اس کا مقصد وفاقی سیاست کرنا ہے میں صرف اردوبولنے والوں کا نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا ترجمان ہوں اور پاکستانیوں کی خدمت کرنے کے جذبے کے ساتھ سیاست کرنے آیا ہوں۔رہی بات اسٹیبلشمنٹ کی تو اگر میرے پیچھے اسٹیبلشمنٹ یا دیگر مقتدر ادارے ہوتے تو آپ کو مصطفی کمال کے آگے پیچھے اور پاکستان ہاؤس کے اندریا باہر وہ ماحول نہیں ملتا جو آج یہاں آپ کو نظر آرہا ہے‘‘۔

سوال: آپ نے اپنی سیاسی جماعت کا نام ’’پاک سرزمین پارٹی ‘‘ رکھا ہے ، اپنی پارٹی کا جو مونوگرام سامنے لائے ہیں اورپھر آپ نے اپنی پارٹی کے جھنڈے کے طور پر پاکستان کے جھنڈے کو پیش کیا ہے،ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے اکثرلوگ یہ کہتے ہیں کہ نام ، مونو گرام اور جھنڈا ہی یہ بات ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے کہ آپکو متحدہ کے خلاف اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر اداروں نے لانچ کیا ہے؟
جواب: ’’میرے اس سوال پر مصطفی کمال مسکراتے ہوئے بولے کہ مجھے بڑی ہنسی آتی ہے جب میں ایسی باتیں سنتا ہوں ۔پاکستان میں ہر شخص کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے ،اس کے لیئے نام چننے ،جھنڈا بنانے اور مونوگرام منتخب کرنے کا حق حاصل ہے تو پھر مجھ پر یا میری پارٹی پر یہ تنقید کیوں کی جارہی ہے؟ جو نام اور مونوگرام ہم سب کو اچھا لگا رکھ لیا اس میں کسی کو کیا پریشانی ہے۔رہی بات جھنڈے کی تو میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی پارٹی کا جھنڈا ہی فساد کی جڑ ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے گلی گلی جھگڑے شروع ہوتے ہیں اس لیئے ہم نے پاکستان کے جھنڈے کو ہی اپنا جھنڈا بنالیا اور ہر اس شخص کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی جو پاکستان اور پاکستانی جھنڈے سے محبت کرتا ہے تو کیا ہماری یہ سوچ صحیح نہیں ہے ؟ رہی بات الیکشن کمیشن میں انتخابی نشان اور جھنڈا پیش کرنے کی تو ہم نے یہ ساری قانونی ضرورتیں بھی پوری کردی ہیں لیکن ہمیں اپنے دفاتر پر پاکستان کا جھنڈا لگانے سے کوئی نہیں روک سکتا ‘‘۔

سوال :آپ نے اپنی پریس کانفرنسوں میں کئی بار یہ بات کی کہ کوئی نوجوان ماں کے پیٹ سے دہشت گر د بن کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ متحدہ میں شامل نوجوانوں کو الطاف حسین نے دہشت گرد بنایا،صولت مرزا اور اجمل پہاڑی پیدائشی مجرم نہیں تھے ان کو مجرم متحدہ قیادت نے بنایا لہذا ایسے نوجوانوں کو جو متحدہ قائد کی گمراہ کن باتوں میں آکر دہشت گرد بن گئے ہیں ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے،آپ کے اس موقف پر سب سے زیادہ تنقید کی جارہی ہے کہ آپ ایسے دہشت گردوں اور قاتلوں کو عام معافی دینے کی باتیں کررہے ہیں جن پر دہشت گردی اور قتل وغارت میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد ہیں اور وہ ان الزامات کی وجہ سے مختلف تھانوں ،جیلوں یا سیکیوریٹی اداروں کے پاس قید ہیں ۔؟
جواب:’’میں اس بات کی وضاحت اس بات کے ساتھ کروں گا کہ جب بلوچستان کے دہشت گردوں کو معافی دینے کے لیئے پیکج دیا جاسکتا ہے تو کراچی کے گمراہ ہوجانے والے دہشت گردوں کو معاف کردینے کا بھی کوئی راستہ نکالنا چاہیئے کہ یہ نوجوان بھی کسی ماں کے بیٹے ،بہنوں کے بھائی اور بیویوں کے شوہر ہیں ان کا بھی خاندان ہے فیملی ہے لہذا اگر وہ اپنے سابقہ جرائم سے تائب ہوکر اچھا شہری بننا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کا موقع دینا چاہیئے اوریہ بات کہتے ہوئے میں نے یہ بھی واضح طور پر کہا ہے کہ جو نوجوان سنگین جرائم میں ملوث ہیں ان کو عدالت میں بھیجا جائے اور اگر ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا تو ان کو باعزت رہا کیا جائے اور جن پر جرم ثابت ہوجاتا ہے انہیں بے شک عدالت جو سزا دے اسے اختیار ہے اور ہم ملکی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں کہ رہے کہ عدالتوں سے رہا ہو کر یہ نوجوان ہماری پارٹی میں آجائیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ وہ ہمارے پاس نہ آئیں بلکہ وہ اپنے ماں باپ اور فیملی کے پاس جائیں اوران کی خدمت کریں۔مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ میری اس سیدھی سادھی بات میں لوگوں کو کیا برائی نظر آتی ہے‘‘۔

سوال :مصطفی بھائی !آپ کے ساتھ متحدہ سے بغاوت کرنے والے ایک اور سینئر رہنما انیس قائم خانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث رہے ہیں اور ان کے خلاف کراچی میں ڈاکٹر عاصم کیس کے حوالے سے ایک ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی تو اس تناظر میں آپ انیس قائم خانی کی اپنی پارٹی میں موجودگی کے حوالے سے کیا وضاحت دینا پسندکریں گے؟
جواب: ’’انیس قائم خانی بھائی کا شمار متحدہ کے سیئنر اور فعال رہنماؤں میں ہوتا تھا لیکن وہ بھی میری طرح کافی عرصہ پہلے متحدہ کو خیر باد کہہ کر پاکستان سے باہر چلے گئے تھے رہی بات ان کے خلاف کسی کیس میں درج کی گئی ایف آئی آر کی تو اس کے بارے میں خود انیس بھائی بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں کسی کیس کے حولے سے عدالت میں جانا پڑا تو وہ وہاں جا کر اپنی صفائی پیش کریں گے اور ابھی چند روز قبل انیس قائم خانی کو ایک مقدمے میں مطلوب ہونے کی وجہ سے گرفتار بھی کیا گیا تھااور وہ عدالتوں کا سامنا کرنے کے لیئے جیل بھی گئے جبکہ ضمانت پر رہا ہونے کی کوشش کرنا ان کا قانونی حق ہے جسے استعمال کرکے وہ ایک بار پھر پی ایس پی کے صدر کی حیثیت سے اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں جبکہ میرا اپنا موقف بھی یہی ہے کہ ہماری قائم کردہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی میں شامل مجھ سمیت کوئی بھی رہنما اگر کسی بھی نوعیت کی عدالتی کاروائی میں مطلوب ہے تو اسے عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیئے کہ ہم ہر قسم کے تعصب اور منافرت سے پاک صاف ستھری وفاقی سیاست کے علمبردار بن کر سامنے آئے ہیں لہذا ہم کسی کرمنل شخص کو اپنی پارٹی کا حصہ بناکر اپنی پارٹی کے دامن کو داغدار کرنا پسند نہیں کریں گے۔ہماری سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کے خواہشمند کسی بھی سیاسی رہنما کو اگر ہماری پارٹی میں آنا ہے تو اسے خود پر عائد کردہ الزامات کی صفائی دینی ہوگی اور اگر وہ کسی بھی نوعیت کی منفی سرگرمی میں ملوث رہا ہے تو عدالتوں کے ذریعے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے بعد ہی ہماری پارٹی میں آناہو گا‘‘۔

سوال :لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مصطفی کمال نے لانڈری کھولی ہوئی ہے جہاں جا کرمتحدہ کے لوگوں کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اوروہ صاف ستھرے ہوجاتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب :’’بھائی مجھے اور میرا ساتھ دینے والے دیگرلوگوں کے دلوں کوتو اﷲ تعالیٰ کی لانڈری نے دھویا ہے، میں تو دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ متحدہ میں شامل دیگر معصوم اور مجبورلوگوں کو بھی ہدایت دے کہ وہ برائی اور جھوٹ کا راستہ چھوڑ کر سچ کا ساتھ دیں تاکہ ان کی دنیا اور آخرت سنور سکے کہ ایک دن سب کو مرجانا ہے اور مرنے کے بعدہر انسان کو اپنے اعمال کے لیئے اﷲ کی عدالت میں پیش ہوکر ہر سوال کا جواب دینا ہے جو کہ ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے ۔جس طرح اﷲ نے ہمیں گمراہی سے نکالا، ہمارا ضمیر جاگا اور ہم نے اپنا راستہ تبدیل کیا ہمیں امید ہے کہ اور بھی لوگوں کا ضمیر ان کو غلط کاموں میں حصہ لینے پر ملامت کرے گا اور وہ آج نہیں تو کل ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے ہماری دعا ہے کہ اﷲ سب کے دلوں کوہدایت کی روشنی سے منور کرے‘‘۔

سوال :آپ نے متحدہ کے قائد الطاف حسین کے بارے میں تو بہت کھل کر باتیں کی ہیں اور ان کی شخصی اور سیاسی خامیوں کو بیچ چوراہے پر کھول کر رکھ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیو ایم کے کراچی میں موجود ذمہ داران نے فاروق ستار کی قیادت میں الطاف حسین کو نہ صرف ان کی بنائی ہوئی پارٹی سے ہی نکال دیا بلکہ انہیں غدار وطن قرار دیتے ہوئے ایم کیو ایم اور پاکستان کی سیاست سے بے دخل کردیا گیا ،الطاف حسین کے بعد آپ نے اپنا ٹارگٹ ایم کیو ایم کے ہی ایک سینئر رہنما عشرت البعاش کو بنایا اور سندھ کے گورنر کے عہدے پر طویل عرصہ تک فائز رہنے والے عشرت العباد کے خلاف بھی آپ نے ایسے چونکا دینے والے انکشافات کیئے کہ آخر کار حکومت وقت نے ان کو گورنر کے عہدے سے فارغ کردیا اور یوں انہیں گورنر شپ کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے اوروہ ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔جس کا سیدھا سا مطلب یہی نکلتا ہے کہ آپ نے الطاف حسین اور عشرت العباد کے بارے میں جوکچھ کہا وہ حرف بہ حرف سچ تھا ورنہ ان دونوں شخصیات کا وہ انجام نہ ہوتا جو ان کے خلاف آپ کے بیانات کے بعد ہوا۔اپنی ان نمایاں سیاسی کامیابیوں کے حوالے سے آپ کچھ کہنا چاہیں گے ؟
جواب: ’’جنت میں شیطان نے انسان کوبہکایا تواسے آسمان سے زمین پر پہنچادیا گیا لیکن ابلیس نے یہاں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور وہ مسلسل انسان کو بہکاتا رہا ،عرش سے لے کر فرش تک شیطان اپنا کام کررہا ہے اور اس نے کچھ لالچی انسانوں کو برائیوں کی دلدل میں اس بری طرح پھنسا دیا ہے کہ وہ شیطان کے چیلے بن کر معصوم لوگوں کو مذہب ،قومیت،لسانیت اور عقیدت کے نام پرگمراہ کرکے آپس میں لڑواکر اپنے مضموم مقاصد کو حاصل کرتے رہے ہیں اسی تناظر میں میری سوچ یہ ہے کہ الطاف حسین نے متحدہ میں شامل اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو گمراہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کیئے اس لیئے میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ سے منسلک اکثر افرادد درحقیقت معصوم ہیں اور بے خبری ،لاعلمی یا گمراہی کے سبب منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہیں لیکن عشرت العباد کا معاملہ ذرا مختلف ہے کہ وہ نہ صرف الطاف حسین کی ہرطرح کی ذاتی اور سیاسی سرگرمیوں اور ان کے بھارتی ایجنسی ’’ را‘‘ کے ساتھ تعلقات سے نہ صرف باخبر تھے بلکہ انہوں نے گورنر کے عہدے پر رہتے ہوئے رشوت کا بازار گرم کرتے ہوئے تعلیم جیسے مقدس پیشے کا وقار بھی بری طرح مجروح کیاجو ان کا کراچی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ کیا گیا وہ گھناؤنا فراڈ اور ناقابل تلافی نقصان ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتاالبتہ باقی دیگر افراد میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو بہت کچھ جانتے ہیں جیسا کہ فاروق ستار اور ان کے بعض قریبی ساتھی لیکن باقی جو لوگ اس وقت ایم کیو ایم پاکستا ن کے نام سے فاروق ستار کی قیادت میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی چائنا کٹنگ کرکے سیاست کررہے ہیں وہ کوئی فیصلہ یا کام اپنی مرضی یا اپنے دماغ سے کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں وہ وہاں رہ کر جو کچھ کررہے ہیں یا تو مجبوری یا لالچ میں کر رہے ہیں یا پھر ان کی آنکھوں پر عقیدت کے نام پر غفلت کی پٹی بندھی ہوئی ہے جس نے انہیں اندھا کر دیا ہے اب اﷲ ہی ان کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کھول سکتا ہے،ہمارا کام دعوت و تبلیغ کرنا ہے جو ہم اپنی پارٹی سے کررہے ہیں۔الطاف حسین اور عشرت العباد کے حوالے سے آپ نے میری جس سیاسی کامیابی کاذکر کیا ہے اسے میں صرف اﷲ تعالی ٰ کا خصوصی کرم قرار دیتا ہوں کہ اس نے میری اور میرے ساتھیوں کی کہی گئی اکثر باتوں کو حرف بہ حرف سچ ثابت کردکھایا شاید یہ اﷲ تعالی کی ذات پر پر ہمارے مکمل ایمان اور بھروسے کا نتیجہ ہے کہ اﷲ نے ہماری قائم کردہ نئی سیاسی جماعت کو صرف چند ماہ کے اندر ملک گیر مقبولیت فراہم کی ہے اور پاکستان کے ہر صوبے ،شہر اور گاؤں سے ہمیں بھر پور ریسپونس مل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے تمام صوبوں کے اکثر شہروں میں پی ایس پی کے دفاتر قائم ہوچکے ہیں‘‘۔

سوال: 12 مئی اور بلدیہ فیکٹری کے افسوسناک سانحات میں متحدہ کے اہم رہنماؤں کے ملوث ہونے کے حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے جبکہ جب 12 مئی کا واقعہ پیش آیا تو آپ کراچی کے ناظم اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے تو کیا آپ ان معاملات سے خود کو الگ رکھ سکتے ہیں؟
جواب:’’کوئی بھی ذی ہوش انسان 12 مئی اور بلدیہ فیکٹری جیسے انسانیت سوز واقعات کی حمایت نہیں کرسکتا ،ہم بھی ان دونوں سانحات کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور اس میں ملوث لوگوں کو سزا دینے کی حمایت کرتے ہیں لیکن اب ہم سے اس طرح کے سوالات پوچھے جانے کا جواز نہیں بنتا کہ اب ہم ایم کیوایم کا حصہ نہیں رہے بلکہ ہم اپنی ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرچکے ہیں لہذا 12 مئی اور بلدیہ فیکٹری سے متعلق سوالات اب متحدہ میں موجود رہنماؤں سے کیئے جانے چاہیں اور گورنر سندھ کے اہم ترین عہدے پر فائز رہنے کی وجہ سے 12 مئی اور بلدیہ فیکٹری کے افسوسناک واقعات کے حوالے سے عشرت البعاد بہت کچھ جانتے ہیں اس لیئے میرے خیال میں تو ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر انہیں پاکستان سے باہر جانے سے روکا جانا چاہیئے تھا مگر وہ گورنر کے عہدے سے فارغ ہوتے ہی دبئی چلے گئے ہیں لیکن اگر ان سے 12 مئی اوربلدیہ فیکٹری کے سانحات پر تفتیش کی جائے تو بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے ،رہی بات میری تو جس وقت 12 مئی کا واقعہ پیش آیا میں کراچی میں موجود نہیں تھا لیکن اس بات کا علم مجھے ضرور ہوا کہ اس روز لوگ ہاتھوں میں صرف پھول لے کر باہر نہیں نکلے تھے بلکہ ان میں سے اکثر کے پاس اسلحہ تھا یہی وجہ تھی کہ اس روزجن 55 بے گناہوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے بھی چند کارکن شامل تھے لہذا 12 مئی کے کیس پر مکمل تفتیش کے ساتھ فیصلہ سنایا جائے تاکہ اس روز جو خون بہایا گیا اس میں ملوث تمام مجرم بے نقاب ہوسکیں‘‘۔

مصطفی کمال کی شخصیت اور باتوں میں اتنی صاف گوئی ،بے باکی اورکشش تھی کہ دل چاہ رہا تھا کہ ان سے مزید سوالات کیئے جائیں لیکن چونکہ ان کے پاس کراچی اور بیرون کراچی سے ملنے کے لیئے آنے والوں کا تانتا لگا ہوا تھا اس لیئے راقم نے ان کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہو ں نے بڑی گرم جوشی سے معانقہ کرکے پاکستان ہاؤس کے گیٹ تک آکر مجھے رخصت کیا اور میں سوچنے لگا کہ واقعی عزت، ذلت اور ہدایت عطا کرنا صرف اﷲ تعالی کا ہی کام ہے وہ جب چاہے اور جسے چاہے راہ راست پر لاکر اس سے کوئی بھی بڑا کام لے سکتا ہے اور نہ جانے مجھے کیوں محسوس ہوا کہ اﷲ تعالی اس ملک و قوم کے لیئے مصطفی کمال سے بھی کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے جبھی تو اﷲ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا فرمائی ہے جس کی وجہ سے مصطفی کمال کے منہ سے آج وہ باتیں نکل رہی ہیں جو اس ملک میں بسنے والے ہر سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے ۔
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125255 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More