بھارت میں کیش لیس سوسائٹی اور پردھان سیوک کے من کی بات!

 نوٹ بندی پر تقریباً ایک مہینے کا عرصہ گزرجانے کے باوجود عوام پر عرصۂ حیات تنگ اور پارلیمنٹ میں تعطل برقرارہے ۔ جہاں پورا اپوذیشن ضابطہ56 کے تحت نوٹوں کی منسوخی کے سلسلے میں لوگوں کو ہورہی شدید دقتوں پر بحث کرنا چاہتا ہے لیکن حکومت اس سے بھاگ رہی ہے ، وہیں اپوذیشن کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات پر توجہ دے کے اسپیکر کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس معاملے پر ایوان میں بحث کروانی چاہیے ۔ ان میں سے بعض کا ماننا ہے کہ کرنسی منسوخ کرنا حکومت کا اچھا اقدام ہے ، لیکن اس اعلان پراتنے دن گزر جانے کے بعد بھی چوں کہ حالات بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے ، اس لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔اسی کے چلتے اپوذیشن نے ایوان میں ’مودی حکومت سدھر جاؤ‘، ’مودی جی کے دل کی بات، غریبوں کے پیٹ پر لات‘، ’ووٹ سے ڈرنا بند کرو‘، ’ملک سے بھاگنا بند کرو‘، جیسے نعرے بھی لگائے ۔اس سب کے باوجود مودی حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا، اور عوام کو اپنی ہی جمع پونجی سے خاطر خواہ رقم نہ ملنے پر جو دقتیں پیش آرہی ہیں، اس پر حکومت بالکل بے حس بنی ہوئی ہے ، جب کہ ملک کے عوام ان حالات میں باوجود پیسے [پرانے نوٹ]ہونے کے اپنے گھر والوں کا پیٹ نہ بھر سکنے اور بیماروں کا علاج نہ کروا پانے پر شدید کرب و تکلیف محسوس کر رہے ہیں۔فیس بک وغیرہ پر بھی ایسی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں جس میں بھارت کی جنتا کا کرب صاف نظر آتا ہے ، کہیں کوئی باپ اپنی بیٹی کی طے شدہ شادی کو لے کر پریشان ہے ، کہیں اولاد اپنے بیمار والد کی بائی پاس سرجری کروانے سے قاصر ہے اور کہیں ستّر پچھرتر سال کے بوڑھے تین تین چار چار دنوں سے بینکوں میں قطار میں لگے رہنے پر مجبور ہیں، لیکن یہ سب دیکھنے کے لیے پردھان سیوک کے پاس فرصت نہیں۔

پردھان سیوک ان حالات میں کہیں جن دھن کھاتوں میں جمع ہوئی رقم کو لے کر عوام کا مذاق اڑاتے نظر آ رہے ہیں تو کہیں اپنے من کی بات کرتے ہوئے سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۔نئی نوٹوں کے انتظام کے بہ جائے ان کا کہنا ہے کہ یہ ملک میں کیش لیس نظام شروع کرنے کا بہترین موقع ہے ۔ انھوں نے چھوٹے تاجروں، کسانوں، مزدوروں اور عام آدمی اور خاص طور پر نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بغیر نقدلین دین کے نظام کو ٹھوس شکل دینے کا عزم کریں اور ہمیشہ کی طرح اپنے ’من کی بات‘ کرتے ہوئے کہا کہ نوٹوں کی منسوخی کی وجہ سے چھوٹے تاجروں، کسانوں، مزدوروں اور عام آدمی کو دقت ہو رہی ہے ، لیکن یہ لین دین کی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہونے کا بہتر موقع ہے ، آپ کو یہ سیکھنا چاہیے کہ بغیر نوٹ کے کاروبار کس طرح ہوتا ہے ، جس طرح فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح ای بینکگ کو بھی فروغ دیا جانا چاہیے ۔ لیکن شاید وہ یہ فراموش کر گئے کہ آج بھی بھارت کی تقریباً 60 فی صد آبادی گاؤں میں رہنے والی ہے ، جن کے پاس نہ وائی فائی اور انٹرنٹ کی سہولیات ہیں اور نہ کارڈ سوائپ کرنے کرانے کی۔ مزید بر آں کہ آج بھی ایسے لوگ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں‘ جو شدید ضرورت کے تحت موبائل فون کے ریسیو اور ڈس کنکٹ کرنے والے بٹنوں کو ان کے لال اور ہرے رنگوں سے پہچانتے ہیں، اس کے علادہ دیگر بٹنوں کا استعمال تک نہیں انھیں نہیں معلوم۔ ان حالات میں اگر پردھان سیوک کے من کی بات ای بینکگ کو فروغ دینا ہی ہے تو انھیں اس کے رواج کو عام کرنے سے قبل اس کثیر تعداد کے لکھنے ، پڑھنے اور سیکھنے کے لیے مناسب انتظامات کرنا ضروری ہے ، ورنہ یہ تو کسی گونگے کو مائک تھما دینے جیسی صورتِ حال ہو گی۔ انھیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ شہریوں کے بالمقابل گاؤں میں رہنے والوں کے لیے آج بھی اے ٹی ایم،کریڈٹ کارڈ،موبائل بینکنگ اورای بنکنگ دشوار ہے ، جب کہ بھارت کے تقریباً 70 فی صد عوام دیہی علاقوں میں آباد ہے ، جہاں بجلی کی سہولیات بھی بہتر نہیں اور آپ انٹرنٹ کی بات کرتے ہیں۔ نیز اس بات کا بھی انکشاف ضروری ہے کہ دیہات ہو یا شہر، ای بینکنگ کے آپ کے خواب کے پورا ہوجانے کے بعد جب کبھی انٹرنٹ کی سہولیات اچانک منقطع کر دی جائیں گی، جیسا کہ ہنگاموں کے ماحول میں خصوصیت سے ہوتا ہے ، اس وقت بھارتی جنتا اپنی ضرورتوں کو کیسے پورا کرے گی؟

پردھان سیوک کا ماننا ہے کہ خاص طور پر نوجوان اس مہم میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، انھیں اپنے آس پاس کے لوگوں کوبغیر نقدی‘ لین دین کی معلومات دینے ، اس کے فوائد بتانے کے ساتھ ساتھ ان کا اعتماد جیتنے اور انھیں اس نظام کو سکھانے کا کام کرنا ہوگا۔یہ بات تو درست ہے ، لیکن اول تو پردھان سیوک کو بھی ان حالات میں عوام کے اعتماد کو جیت کر خود کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے ، دوسرے ای بینکنگ کے صرف فایدوں کو گنوانا اور اس میں ہونے والے فراڈ اور نقصانات سے بالکل قطعِ نظر کر لینا بھی نا سمجھی ہوگی۔آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ اب تقریباً ہر بینک کا اپنا ایپ ہے ، آپ اسے ڈاؤن لوڈ کریں اور گویا بینک آپ کے پاس پہنچ گیا،اس کے بعد آپ بغیر نوٹ کے لین دین کر سکتے ہیں، لیکن جناب یہ تو بتائیں کہ جنھیں اپنے بیٹے سے رابطہ کرنے کے لیے موبائل میں پہلے سے محفوظ اس کا نمبر نکلوانے اور کال کنکٹ اور ڈس کنکٹ کروانے کے لیے پڑوسیوں کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کے لیے آپ کے اس فرمان پر عمل کرنا کیوں کر ممکن ہے ؟

پردھان سیوک کا یہ بھی کہنا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے لیے پی او ایس مشین رکھ کر گاہک اور دکاندار دونوں ہی نوٹ رکھنے کے جھنجھٹ سے نجات پا سکتے ہیں، اس سے چھوٹے تاجر بھی بڑے مالس اور دکانوں کی طرح کاروبار کو بڑھا سکتے ہیں، ان کے مطابق اس میں بگڑنے کا تو سوال ہی نہیں، بلکہ یہ آگے بڑھنے کا موقع ہے ۔یہ بات بھی ہمیں پوری طرح ہضم نہیں ہو سکی، اس لیے کہ کہ کیا اب سڑکوں پر چائے بیچنے والے بھی پی او ایس مشین رکھیں گے ، یا گاہکوں کو اسے اب دس اور پانچ روپیے کا چیک تھمانا پڑے گا، نیز راستوں پر جو استنجا خانے وغیرہ ہوتے ہیں کیا وہاں پر بھی قضاے حاجت کے بعد اب چیک اور کارڈ سوائپ کرنے کا انتظام کیا جائے گا؟ہاں کیش لیس سوسائٹی سے ایک فایدہ عوام کو اس طور ہو سکتا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے جہاں ڈونیشن کے نام پر بلا رسید لاکھوں کروڑوں کا کاروبار ہوتا تھا، یا جو پولس اہل کار سرکاری جرمانے کے بہ جائے اپنی جیب کی گرمی کا سامان کرتے تھے ، اس طرح کے افراد کی آمدنی میں کمی واقع ہوگی‘ یہ ایک اچھا خواب ہے ، لیکن بتا سکتاہے کہ شرمندۂ تعبیر کیوں کر ہوگا؟

پردھان سیوک کے اس فرمان کا سب سے عجیب جملہ یہ ہے کہ کیش لیس نظام مکمل طور پر محفوظ اور فوری ہے ، جب کہ ہم نے تو سیکڑوں بلکہ ہزاروں ایسی خبریں پڑھی اور دیکھی ہیں کہ ای بینکنگ میں اکاؤنٹ سے پوری کی پوری جمع پونجی کو صاف کر دیا گیا اور کسی ایک غلطی کی وجہ سے باکار لوگ بے کار ہو کر پریشان حال ہو گئے ۔ نیز گذشتہ دنوں ہی موصول ایک خبر کے مطابق بھارت کے 30لاکھ ڈیبٹ کارڈوں کا ڈیٹا چوری ہوگیا تھا اور چین سے کسی نے ان کے پاس ورڈ ہیک کر لیے تھے اور ان کھاتوں سے بڑی مقدار میں رقم نکال لی گئی تھی، نیز کارڈ کلوننگ کے ذریعے پورے ملک کے عوام کے کارڈ سائبر کرائم سے کس طرح محفوظ ہوں گے ‘ اس کی بھی وضاحت ضروری ہے اور کیا سبھی بینکوں کے سیکوریٹی نظام پر اس درجے اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ پورا بھارت کیش لیس ہوجانے کے بعد بھی ان کارڈوں میں ہیرا پھیری نہیں کی جائے گی؟ ظاہر ہے کیش لیس سوسائٹی کا خواب دکھانے سے قبل انھیں اپنے سائبر نظام کو بہتر بنانا اور عوام کو اس کی خیر و خوبی پر اعتماد دلانا ہوگا کہ اندرون ملک یا بیرن ملک ان کے کارڈوں یا کھاتوں سے رقم چرالی گئی، تو اس کا حل کیا ہوگا۔ اس لیے جلد بازی میں فرامین جاری کرنے کے بہ جائے عوام کی سہولیات کوترجیح دینا ہی ملک اور حکومت کے مفاد میں ہوگا!
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 305877 views (M.A., Journalist).. View More