ایک کروڑ پاکستانی ملک چھوڑ گئے……حکومت خواب غفلت کا شکار

ملک بھر میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری یا مناسب معاوضے نہ ملنے پر پاکستان سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے بیرون ملک جانے کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ گزشتہ دس برس میں 57 لاکھ 74 ہزار سے زاید ہنرمند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں نے روزگار کے لیے پاکستان چھوڑ دیا۔ ملک لاکھوں ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہنرمندوں کی خدمات سے محروم ہوگیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دس برس میں 40 ہزار سے زاید انجینئرز، 13ہزار سے زاید ڈاکٹرز، 7 ہزار اساتذہ، ڈھائی لاکھ ٹیکنیشن، 38 ہزار منیجرز اور ڈھائی ہزار فنکار روزگارکے حصول کے لیے ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 1لاکھ 8ہزار 634 اعلیٰ تعلیم یافتہ، 1لاکھ 37ہزار 800 انتہائی ہنر مند، جبکہ 23لاکھ 68ہزار دیگر ہنرمند بیرون ملک جا چکے ہیں۔ یہی نہیں 6لاکھ 97ہزار نیم ہنر مند، جبکہ 24لاکھ 62ہزارغیر ہنر مند افراد بھی ایک دہائی کے دوران پاکستان کو خدا حافظ کہہ گئے۔ صرف دس سال میں فنی مہارت رکھنے والے 57 لاکھ سے زاید پاکستانیوں کا دوسرے ممالک سدھار جانا غیرمعمولی اور قابل غور بات ہے اور پاکستان کے لیے سود مند بھی نہیں ہے۔ یہ رپورٹ تو صرف دس سال میں پاکستان کو خدا حافظ کہنے والوں کے بارے میں ہے، جبکہ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں تارکیں وطن بارے انکشاف میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان امیگریشن بیورو کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد تقریبا ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ بے روزگاری سے تنگ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ ملازمت کے بہتر ین مواقع کے لیے بیرون ملک منتقل ہورہا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستا نیوں کی رقوم پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی ہیں، لیکن اس سے جڑے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بھی ملک سے اگر بڑی افرادی قوت ہجر ت کر جائے تو اس سے سماجی اثرات کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔اگر کوئی روزگار کے مواقع ہوتے ہیں تو یہ سننے میں آتا ہے کہ موزوں امیدوار نہیں تھے، لوگوں نے اپلائی نہیں کیا تھا یا مناسب امیدواروں کی پاکستان میں کمی ہوگئی ہے۔ کوئی لاکھ دلائل دے کہ پاکستانیوں کا بیرون ملک جانا ملک کے مفاد میں ہے اور بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقم سے ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے، لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ملک کی باصلاحیت افرادی قوت اگر اپنے ملک کی بجائے دوسرے ممالک کی ترقی کے لیے وقف ہوجائے تو اس سے کسی حد تک معاشی فائدہ تو ہوسکتا ہے، مگر مجموعی طور پر ملک کے نقصان میں ہے۔ اب تک نجانے ملک کے کتنے ہی ہیرے ہوں گے جو ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے، لیکن بے روزگاری سے تنگ آکر اپنی صلاحیتوں اور محنت کو دوسرے ممالک کی تعمیر و ترقی کے لیے بروئے کار لارہے ہیں۔

ملک سے اتنی بڑی باصلاحیت افرادی قوت کا دوسرے ممالک جانے سے ملک کے تمام اداروں میں باصلاحیت افراد کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ بیرون ملک جانے والے لاکھوں باصلاحیت افراد کو اگر ملک کے اندر روزگار فراہم کیا جائے اور وہ اپنی خدمات و صلاحیتوں کو اپنے ملک کے لیے وقف کریں تو یقیناً یہ ملکی معیشت و ترقی کو چار چاند لگاسکتے ہیں۔ اگر اپنے ملک کے اندر ہی لوگوں کو روزگار ملے تو کس کا دل چاہتا ہے کہ اپنا ملک، خاندان اور اپنے علاقے کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور چلا جائے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ماہرین فن و ہنر اور باصلاحیت افراد کے لیے ملک میں ہی ایسے مواقع پیدا کرے، جس سے ملک کی معیشت مضبوط ہو، ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ جتنا پیسا یہ لوگ دوسرے ممالک سے ملک میں بھیجتے ہیں، اس سے بھی زیادہ ملک کے اندر رہ کر کمائیں، قومیں دوسروں کی دولت سے ترقی نہیں کیا کرتیں، ہمیشہ اپنے ہی لوگوں کی صلاحیت و محنت سے ترقی ہوتی ہے۔ جب کسی قوم و ملک سے اس کے باصلاحیت و اہل فن حضرات ہی سدھار جائیں تو وہ ملک ترقی کی منازل کیونکر طے کرے گا؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنا بچپن پاکستان میں گزاریں، تعلیم یہاں حاصل کریں، مختلف فنون میں مہارت یہاں حاصل کریں اور جب جوان ہوکر ملک کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہوں تو ان کے لیے روزگار میسر نہیں اور روزگار کے لیے انھیں دوسرے ملک جانا پڑے۔ سرکاری نوکریاں تو اب خواب و خیال کی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں۔ کسی سرکاری محکمے میں نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہوگیا ہے۔ نوجوانوں کو زندگی کے اٹھارہ اٹھارہ سال تعلیم کے حصول میں صرف کرنے کے باوجود نوکری نہیں ملتی۔ سرکاری محکموں کی حالتِ زار تو یہ ہے کہ بہت سے ادارے شدید مالی بحران سے دوچار ہیں اور مسلسل خسارے نے انھیں سفید ہاتھی بنادیا ہے۔ایسے تمام اداروں کی حیثیت ملکی خزانے پر بوجھ کے سوا اور کچھ نہیں رہی۔ اپنی زبوں حالی کے باعث یہ ادارے مزید افراد کو نوکریاں دینے کے قابل نہیں رہے۔ رہی سہی کسر سفارش و رشوت نے نکال دی ہے، جس کے باعث اکثر جگہوں پر نااہل لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ملک کے ہر شہری کو روزگاری فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ملک میں نوجوان طبقہ اہم کردار کرتا ہے، لیکن پاکستانی نوجوان طبقہ ڈگری ہولڈرز ہونے کے باوجود بے روزگاری کا شکار ہے اور حکومت صرف ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے صرف ووٹ پکے ہوں، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں بے روزگاری کس تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں نوجوانوں میں بے چینی اور جرائم بھی کتنی تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں بیروزگاری کا تناسب 8۔5 اختیار کر گیا۔ سروے کے مطابق ہر 150میں سے صرف 3فیصد انجینرز کو ملازمت ملتی ہے۔ بے روزگاری کے باعث نوجوان طبقے کا مختلف جرائم میں ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ نوجوان نوکری نہ ملنے کے باعث نشہ آوار اشیا میں مبتلا ہیں۔ پاکستانی نوجوان طبقہ ذہنی، سماجی اور معاشی دباو کا شکار ہیں، جبکہ ملک کی نوجوان نسل بیرون ملک جانے پر مجبور ہے، جس کی بدولت کم تعلیم یافتہ طبقہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ایک ہی نوعیت کی ملازمت اختیار کر نے پر مجبور ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 10لوگوں میں سے 6لوگ بے روزگار ہیں۔

بے روزگاری سے تنگ آکر پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ بیرون ملک جاتا ہے، لیکن وہاں بھی اب حالات کچھ بہتر نہیں رہے، وہاں سے بھی پاکستانیوں کو واپس پاکستان بھیجا جارہا ہے۔بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک بھی ابھی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں رہے ہیں، کیونکہ وہاں کی حکومتیں بھی اپنے لوگوں کو ترجیح دینے لگی ہیں اور پاکستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو واپس پاکستان بھجوایا جاچکا ہے، جس کی وجہ سے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء سے 2015ء کے دوران بیرون ملک کام کرنے والے لگ بھگ ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کو مختلف ملکوں سے وطن واپس بھیجا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران بیرون ملک سے واپس بھیجے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور صرف 2014ء میں 77 ہزار ایسے پاکستانی بیرونی ملکوں سے واپس نکالے گئے جو روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خلیجی ممالک سے واپس آنے والے پاکستانیوں کو سیکورٹی وجوہات کی وجہ سے وطن واپس بھیجا گیا۔ دنیا کے کئی دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری کے چیلنجوں کا سامنا ہے، جبکہ ملک میں روزگار کے مواقع کم ہیں اور اسی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک خصوصاً مشرقی وسطیٰ کے ممالک جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض یورپی ملکوں میں بھی جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران دیگر ملکوں سے ملک بدر کیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور آئندہ سالوں میں اس رجحان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جسے مبصرین ملک میں میسر روزگار کے کم مواقع کی وجہ سے باعث تشویش قرار دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں بے روزگاری سے تنگ تعلیم یافتہ طبقہ بیرون ملک ہی جانے کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ پاکستان کی حکومت نے ان کے روزگار کا انتظام نہیں کرنا اور اگر وہ پاکستان میں ہی رہے تو انتہائی تنگی کی زندگی بسر کرنا پڑے گی، لیکن حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نہ تو پڑھے لکھے طبقے کے لیے روزگار کا معقول انتظام کیا جارہا ہے اور نہ ہی ان پڑھ طبقے کے لیے کوئی انتظام کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں طبقے پاکستان میں اپنی زمین جائیداد بیچ کر دوسرے ممالک میں جاکر روزی کمانے کو ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ ہر ملک کے ہر شہری کو رزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ مانا کہ ہر فرد کو ملازمت دینا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن وہ ایسے حالات تو پیدا کر سکتی ہے جس سے عوام کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوسکیں۔ مختلف غیرسرکاری انڈسٹریز کو سہولیات مہیا کر کے بہت ساری نوکریاں دی جاسکتی ہیں۔ وہ ممالک جہاں شرح خواندگی کم اور آبادی زیادہ ہو، وہاں غیرسرکاری انڈسٹریز لوگوں کو نوکریاں دینے اور معیشت کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں، لیکن گزشتہ کئی برسوں سے ملک کے صاحب اقتدار حضرات توانائی بحران، دہشت گردی، کرپشن، نااہل انتظامی ڈھانچے اور اقتصادی منصوبہ بندی کی زبوں حالی جیسے مسائل پر قابو نہیں پاسکے، جس کے باعث غیر سرکاری انڈسٹریز بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ حکومت خود تو سرکاری نوکریاں دینے سے قاصر ہے، جب کہ غیر سرکاری اداروں کے مسائل بھی حل نہیں کیے کہ یہی نجی ادارے کافی حد تک بیروزگاری کو کم کردیتے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی ملک کے نوجوان اس کی افرادی قوت ہوتے ہیں، یہی افرادی قوت قوم کا اصل قیمتی سرمایہ ہے اور اگر بہتر تعلیم کے بعد اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کردیے جائیں تو یہ لوگ ملک کے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت دے سکتے ہیں، لیکن یہ باصلاحیت اور قابل افراد روزگار نہ ملنے کی وجہ سے اقتصادی، معاشرتی، معاشی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، جس سے سماج میں افراتفری کا عالم پیدا ہوجاتا ہے۔ جب ایک طویل عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی تو ملک میں بیروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد میں سے اکثر حالات کی سختیوں اور مشکلات سے گھبراکر مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں، پھر یہ اندھیرے انھیں جرائم کی دنیا کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور خودکشی، دہشتگردی، چوری، لوٹ مار جیسے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ پاکستان کا نوجوان طبقہ سفارش کے بغیر ملازمت سے محروم ہوجاتا ہے، جس سے میرٹ کی دھجیاں اڑچکی ہیں اور قابل لوگ ملکی ترقی میں آگے آنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔روزگار فراہم کرنا کسی بھی ملک کی حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے۔ اگر روزگار کے مواقع نہیں ہیں تو ملک و قوم کے مفاد میں طویل المیعاد پالیسیاں بنا کر روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی حکومت کا فرض ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومتیں اپنی تمام ذمے داریوں کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے روزگار کی فراہمی کے لیے ہر ممکن سنجیدہ کوشش کرے اور روزگار کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مسائل توانائی بحران، دہشت گردی، کرپشن، نااہل انتظامی ڈھانچے اور اقتصادی منصوبہ بندی کی زبوں حالی کا خاتمہ کرے۔ جب تک حکومت مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کرکے مسائل کا مستقل حل تلاش نہیں کرتی، اس وقت تک مسائل کا حل ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.