فاطمہ ثریا بجیا کی یاد میں ! جن کا شاندارکام ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
پرائیڈ آف پرفارمنس اورہلال امتیاز یافتہ،
نامور ادیبہ، افسانہ نگاراور ڈرامہ نگار
پاکستان کی مشہور ومعروف ادیبہ،افسانہ نگار اور ڈرامہ رائٹر فاطمہ ثریا
بجیاکا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ ان کا تعلق ایک ایسے علمی وادبی
خانوادے سے ہے جس کے کئی افراد نے مختلف شعبوں میں نام اور مقام حاصل کیا
جن میں نامور ٹی وی ہوسٹ اوررائٹر انور مقصود ،معروف شیف زبیدہ طارق
المعروف زبیدہ آپا، معروف شاعرہ زہرہ نگاہ ،بی بی سی کی اردو سروس سے
وابستہ سارا نقوی ، معروف بیوروکریٹ احمد مقصود حمیدی اورمعروف ڈریس
ڈیزائنرمسز کاظمی جیسے نام شامل ہیں۔
علمی وادبی حلقوں میں یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی ،دیکھی اورپڑھی گئی
کہ پاکستانی ادب اور ڈرامے کی اہم اور ہردلعزیز شخصیت اورٹی وی ڈراموں کو
فیملیز میں مقبول بنانے والی عالمی شہرت یافتہ ادیبہ، افسانہ نگاراور ڈرامہ
نگار فاطمہ ثریا بجیاطویل علالت کے بعد10 فروری 2016 کو کراچی میں 86 برس
کی عمر میں انتقال کرگئیں،وہ 15 سال سے تھروٹ کینسر میں مبتلا تھیں لیکن اس
کے باوجود ان کی علمی و ادبی سرگرمیاں جاری تھیں جبکہ وہ آرٹس کونسل کراچی
کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہتی تھیں۔ان کی نمازجنازہ کراچی میں ادا کی
گئی جس میں ان کے اہل خانہ ،مداحوں،نامور فنکاروں،ادبی و ثقافتی حلقوں کے
افراد کے علاوہ اہم سرکاری شخصیات نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی ۔ان کی وفات
سے آسمان علم وفن کا ایک روشن ستارہ ہمیشہ کے لیئے ڈوب گیا لیکن اس کی
روشنی سے منور ہونے والے ٹی وی چینلزکے کئی نامور ستارے آج بھی فاطمہ ثریا
کی فن شناسی کا ثبوت بن کر جہان فن میں پوری آب وتاب کے ساتھ جگمگارہے
ہیں۔فاطمہ ثریا بجیا نے جن فنکاروں کو اپنے ڈراموں کے ذریعے ٹی وی پر
متعارف کروایا ان میں اداکار بابر علی ،اظہار قاضی(مرحوم)،جاوید شیخ ،مشی
خان ،زیبا بختیار،عدنان صدیقی ،مہرین الہیٰ ،انور اقبال ،عشر ت ہاشمی ،شکیل
،طاہرہ واسطی ،قیصر خان،زینب عمر،محمود صدیقی ،کمال ایرانی ،جیسے باصلاحیت
اور نامور فنکار شامل ہیں۔
فاطمہ ثریا یکم ستمبر1930 کو بھارت کے صوبے حیدرآباد دکن کے شہر ’’کرناٹک‘‘
کے علاقے ’’ رائے پور‘‘میں پیدا ہوئیں انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے کبھی
تعلیم حاصل نہیں کی، انہوں نے جو کچھ پڑھا گھر میں رہ کر ہی پڑھا جس کی وجہ
یہ تھی کہ ان کے والد لڑکیوں کے اسکول جاکر تعلیم حاصل کرنے کے حق میں نہیں
تھے لیکن انہوں نے بجیا کو گھر پر ہی ہر طرح کی تعلیم اور مختلف ہنر سکھانے
کے لیئے ماہراپنے اپنے شعبوں کے ماہر اساتذہ کا بندوبست کیا، ان کی تعلیمی
استعداد اور سوج بھوج آج کل کے ایم اے پاس افرادسے بھی زیادہ تھی ، ان کو
پڑھانے کے لیئے کئی قابل اساتذہ ان کے گھر پر ہی آجایا کرتے تھے ۔فاطمہ
ثریا نے گھر یلو تعلیم حاصل کرنے کے باوجوداپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے
جس طرح علم و ادب میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب
ہوتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعدان کا خاندان ہجرت کرکے18 ،اکتوبر1948 میں کراچی آکر
آبادہو گیا۔بجیا اپنے 10 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں،بجیا کی والدہ
افسر خاتون عرف پاشی اردو اور فارسی زبان کی نثر نکاراور شاعرہ تھیں جبکہ
ان کے والدقمر مقصودحمیدی علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے (جن کا
انتقال 1963 میں صرف 42 سال کی عمر میں ہوگیا تھا )جس کے بعد گھر کی ذمہ
داری سنبھالنے کے لیئے بجیا نے کمر کس لی اور سب بہن بھائیوں کوباپ بن کر
پالا۔فاطمہ ثریا کی شادی سترہ سال کی عمر میں طے کردی گئی لیکن ازدواجی
زندگی کا سکھ شاید ان کے نصیب میں نہیں تھا،ان کے سسرال والوں نے انہیں
اتنا زیادہ تنگ کیا کہ آخر کاران کی شادی ناکامی سے دوچار ہوگئی جس کے بعد
انہوں نے ساری زندگی شادی کا نہیں سوچا اور اپنے بہن بھائیوں کی سرپرست بن
کر ان کے لیئے وہ سب کچھ کیا جو ایک باپ اپنے بچوں کے لیئے کرسکتا ہے۔پیڑ
پودوں سے محبت عالم جوانی سے ہی ان کی ذات کا حصہ تھی یہی وجہ تھی کہ وہ
پیرانہ سالی میں بھی گھر کے کسی فرد کی طرح پیڑوں ،پھولوں اور پودوں کی
دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ وہ ایک باصلاحیت اور فعال خاتون تھیں، اﷲ نے ان
کو عزت ،شہرت اور دولت سے خوب نوازا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی کار خود
ڈرائیو کیا کرتی تھیں۔بجیا کے گھر والے ہوں یا شوبز سے وابستہ لوگ سب ہی ان
سے بہت محبت کرتے تھے۔بجیا کے حسن اخلاق اور خلوص ومحبت کا ہر کوئی گرویدہ
تھا وہ ہر ایک کے ساتھ بہت محبت اور شفقت سے پیش آتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان
کے انتقال پر ہر آنکھ اشکبار ہے ۔وہ نہ صرف ایک باصلاحیت مصنفہ تھیں بلکہ
انہوں نے بچوں کے لیے کچھ پروگرام بھی پروڈیوس کیئے ۔انہوں نے لکھنے کی
ابتدا صرف 13 سال کی عمر میں کردی تھی ،فاطمہ ثریا بجیا نے صرف 14 سال کی
عمر میں اپنی زندگی کا پہلا ناول لکھاجو ایک ہزار کی تعداد میں حیدرآباد
دکن سے شائع ہوا۔فاطمہ ثریاکو ایک ڈرامہ رائٹر کے طور پر ملک اور بیرون ملک
کے مختلف اداروں کی جانب سے سب سے زیادہ ایوارڈز دیئے گئے۔ 1997 میں ان کو
پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز’’ پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دیا گیاجبکہ2007
میں ادبی دنیا میں ان کی خدمات کے صلے میں عبداﷲ دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ کی
جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا،ان کی شخصیت اور فن کو خراج
تحسین پیش کرنے کے لئے عفت حسین رضوی نے ایک کتاب ’’ہماری بجیا ‘‘ کے نام
سے تحریر کی جس کی تقریب رونمائی 21 مئی 2012 کو منعقد ہوئی اورپھر2013 میں
انہیں صدر پاکستان نے’’ہلال امتیاز ‘‘ سے بھی نوازا ،اس کے علاوہ پی ٹی وی
ایوارڈ سمیت بجیا کو جاپان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے بھی سرفرازکیا
گیاجبکہ مرحومہ نہ صرف وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر تعلیم رہیں بلکہ آرٹس کونسل
کراچی کی گورننگ باڈی کی رکن کی حیثیت سے بھی فعال کردار ادا کرتی رہیں۔
ٹی وی پر انہیں سب سے پہلے آغا ناصر نے اپنے پروڈیوس کردہ ایک ڈرامے میں
بطور اداکارہ متعارف کروایا جس میں انہوں نے ایک ساس کا کردار ادا کیا ،رنگ
ونور کی دنیا میں یہ ان کی پہلی انٹری تھی اس کے بعد1966میں انہیں اسلام
آباد ٹیلی ویژن کے ایک ڈرامے میں بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع ملا لیکن
ان کو اصل شہرت اور کامیابی ڈرامہ رائٹر کے طور پرحاصل ہوئی ،انہوں نے
اسلام آباد مرکز کے لیئے سب سے پہلا طویل دورانیے کا ڈرامہ یعنی لانگ پلے
’’مہمان ‘‘ تحریر کیا ۔انہوں نے ٹی وی کے مشہور ادبی پروگرام ’’اوراق‘‘ کی
میزبانی کے فرائض بھی انجام دیئے۔
ڈراموں کے حوالے سے فاطمہ ثریا بجیا کو بے پناہ شہرت اور کامیابی ملی انہیں
خواتین کے موضوعات پرڈرامہ تحریر کرنے میں خصوصی مہارت حاصل تھی یہی وجہ
تھی کہ ان کے تحریر کردہ ڈرامے خواتین میں بہت زیادہ پسند کیئے جاتے تھے۔ٹی
وی کے ساتھ انہوں نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیئے بھی کئی ڈرامے تحریر کیئے اور
اس شعبے میں بھی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ڈرامہ رائٹر کے طور پر فاطمہ
ثریا 1966 سے لے کر اپنی وفات تک فعال رہیں ۔یو ں تو ان کے کریڈٹ پر بے
شمار مقبول اور کامیاب ڈرامہ سیریل ہیں لیکن ان کے جو ڈرامے اورسیریل زیادہ
پسند کیئے گئے ان میں خاص طور پر 1974 میں اے آرخاتون کے ناول سے ماخوز
ڈرامہ سیریل ’’شمع‘‘اور اے آر خاتون کے ہی ایک اور ناول سے ماخوزڈرامہ ’’افشاں‘‘،زبیدہ
خاتون کے ناول سے ماخوزڈرامہ سیریل’’عروسہ‘‘،اے آر خاتون کے ناول سے
ماخوز’’تصویر‘‘اور مرزا قلیچ بیگ کے ناول سے ماخوز’’زینت‘‘اس کے علاوہ
ڈرامہ سیریل ’انا‘ ،آگاہی،آبگینے ،بابر،تاریخ وتمثیل،گھر ایک نگر،فرض ایک
قرض،پھول رہی سرسوں،تصویر کائنات،آرزو،سسی پنوں،انارکلی،اوراق ، جسے پیا
چاہے اورعید کا جوڑا، جیسے یادگار ڈرامے شامل ہیں جو آج بھی بہت شوق سے
دیکھے جاتے ہیں۔بجیا کو اپنی ثقافت اور روایات سے عشق تھا یہی وجہ تھی کہ
وہ اپنے ڈراموں میں مشرقی گھرانوں کے رہن سہن اور رسومات وغیرہ کی بہترین
عکاسی کیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے خواتین ان کے ڈرامے بہت دلچسپی اور شوق
سے دیکھا کرتی تھیں۔
فاطمہ ثریا بجیاکی نماز جنازہ ان کی بہن شاکرہ آپا کے گھر کے باہر ادا کی
گئی جس کے بعد بجیا کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں گذری کراچی کے
قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا ۔ان کے جنازے میں
شعرا،ادیبوں،دانشوروں،فنکاروں سمیت سرکاری و نیم سرکاری افسران،سفارت کاروں
اور نامور ثقافتی وسماجی شخصیات نے شرکت کی جن میں وزیر اعلیٰ سندھ کے
معاون خصوصی وقار مہدی،سابق وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات جاوید جبار،ایم کیو
ایم کے رہنماؤں فاروق ستار، وسیم اختر،رؤف صدیقی،خواجہ اظہارالحسن،سید
سردار احمد،ڈاکٹر ارشد وہرہ،پیپلز پارٹی کے نجمی عالم،سہیل عابدی ،جماعت
اسلامی کے محمد حسین محنتی،تحریک انصاف کے عارف علوی ،حلیم عادل شیخ،ڈاکٹر
قاسم پیرزادہ ،ایم ڈی پی ٹی وی فرہاد زیدی ،آرٹس کونسل کے اعجاز
فاروقی،ڈاکٹر ہما میر،محمد احمد شاہ ،اطہر وقار عظیم ،شہناز صدیقی ،سحر
انصاری،محمد اقبال لطیف،ڈاکٹر قیصر سجاد،علی رضوی،قاسم جلالی،ایم ظہیر
خان،شاہد اقبال پاشا،تاجدار عادل،بختیار احمد، فنکاروں میں طلعت حسین،وکیل
فاروقی،شکیل اور انوراقبال سمیت متعدد نامور فنکاروں،بجیا کے خاندان والوں
اور مداحوں نے شرکت کی ۔
فاطمہ ثریا بجیا کے انتقال پرنہ صرف ملک بھر کے فنکاروں اور ثقافتی شخصیات
نے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اسے علم واب اور فن کی دنیا کا ایک
عظیم نقصان قرار دیا بلکہ اہم سرکاری شخصیات نے بھی بجیا کو شاندار الفاظ
میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جن قیمتی خیالات کا اظہار کیاوہ قارئین اور
بجیا کے مداحوں کی دلچسپی کے لیئے یہاں تحریر کیئے جارہے ہیں کہ ان تاثرات
کی روشنی میں فاطمہ ثریا بجیا کے فن اور شخصیت کے ہمہ جہت پہلو ابھر کر
سامنے آتے ہیں جن سے ’’بجیا ‘‘کے فنی قدوکاٹھ اورانسانی خوبیوں کا بھرپور
اظہار ہوتا ہے۔
فاطمہ ثریا کے انتقال پر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے تاثرات
کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ :’’فاطمہ ثریا کے انتقال کرجانے سے ہماری ادبی
دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پرہونا بہت مشکل ہے‘‘۔ * ایم کیو ایم کے
رہنما فاروق ستارنے کہا کہ:’’فاطمہ ثریا بجیا اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ
تھیں ان کے انتقال سے اردو ادب کی دنیا یتیم ہوگئی ان کی وفات سے ہمارے ادب
اور ثقافت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں لیکن بہت جلد کراچی
کی ایک شاہراہ ان کے نام سے موسوم کی جائے گی اور ان کے نام سے منسوب ایک
ثقافتی ادارہ بھی قائم کیا جائے گا‘‘۔
پی ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر قاسم جلالی نے کہا کہ :’’گوکہ بجیا کا قدکم تھا
مگر ان کی شخصیت بہت قدآو رتھی ان کے انتقال سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک
بزرگ کا سایہ ہمارے سر سے اٹھ گیا ہے‘‘۔
جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلرڈاکٹر قاسم پیرزادہ نے کہا کہ :’’ہم مشرقی
روایات کی ایک بہت بڑی علم بردار سے محروم ہوگئے وہ بہت ہی دلنواز شخصیت کی
مالک تھیں اور بہت ملنسار خاتون تھیں‘‘۔
معروف اداکار مصطفی قریشی نے کہا کہ :’’ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے اصول اپنانے
چاہیے ان کی تحریروں میں سچائی تھی ‘‘۔قاضی واجد نے کہا کہ:’’ میرے پاس آج
جو شہرت ہے اس میں بجیا کا بڑا دخل ہے ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ان
کے جانے سے فن کی دنیا ایک بلندپایہ ڈرامہ نگار سے محروم ہوگئی ‘‘۔
ٹی وی کے سینئر پروڈیوسراقبال لطیف نے کہا کہ :’’دنیا کی تمام ماؤں کی
ممتااور دنیا کی تمام بہنوں کی محبت کو جمع کردیا جائے توجو نام ذہن کے
پردے پر سب سے پہلے نمودار ہوتا ہے وہ ہے ’’بجیا‘‘ جن کی پرشفقت شخصیت کی
کمی علم وادب اور فن وثقافت کی دنیا میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی‘‘۔پروفیسر
سحر انصاری نے کہا کہ:’’بجیا کی شخصیت میں انسان سے محبت اوراس کی فلاح کا
جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھاان کی ایک خاص عادت یہ تھی کہ کوئی ان سے عمر
میں چھوٹا ہو یا بڑا وہ سب کو بیٹا کہہ کر مخاطب کرتی تھیں ان کی شخصیت اور
فن دونوں ناقابل فراموش ہیں ‘‘۔
فاطمہ ثریا بجیا کی شخصیت اور فن کے حوالے سے علم و اب اور فن و ثقافت اور
حکومت سے وابستہ ان چند نامور شخصیات کے تاثرات سے بخوبی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی کتنی عزت اور محبت موجود ہے اور وہ
ایک ادیبہ اور ڈرامہ رائٹر کے طور پر ’’بجیا ‘‘کو کتنے اعلیٰ و ارفع مقام
پر فائز سمجھتے ہیں۔اس فانی دنیا میں جو آتا ہے اسے ایک دن جانا بھی ہوتا
ہے سو بجیا بھی ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر وہاں چلی گئیں جہاں سے کوئی کبھی
لوٹ کر واپس نہیں آتا البتہ لوگوں کے دلوں اور کتابوں کے صفحات میں ان کا
نام تادیر زندہ رہے گا کہ ان جیسی باہمت فعال اور ہمہ صفت شخصیات روز روز
جنم نہیں لیتیں ۔آخر میں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کی مغفرت فرماتے
ہوئے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر
جمیل کرنے کی توفیق عطافرمائے(آمین) |
|