گزشتہ کئی روز سے یہ خبر انٹرنیشنل میڈیا
میں گردش کر رہی ہے کہ سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ روس نے امریکی صدارتی
انتخابات میں مداخلت کر کے ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کروایا۔ ان کی حریف صدارتی
امیدوار ہیلری کلنٹن کے ای میل اکاؤنٹ کے بارے میں کہا جا رہاہے کہ روسی
ہیکرز نے اکاؤنٹ کو ہیک کر کے ہزاروں ای میل کا ریکارڈ حاصل کیا اورپھر اسے
وکی لیکس کو فراہم کیا۔ ای میل اکاؤنٹ ہیک ہونے اور ای میل منظر عام پر آنے
کے بعد الیکشن مہم کے دوران ہلیری کلنٹن کی پوزیشن متاثرہوئی اور اس طرح
روس امریکی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو ا ۔ اس خبر کی تصدیق امریکی
سی آئی اے نے کی ہے۔ لیکن اب امریکہ کی 17انٹیلی جنس ایجنسیاں کنٹرول کرنے
والے ادارے ڈائریکٹرآف نیشنل انٹیلی جنس نے سی آئی اے کے دعوے کو مسترد کر
دیا ہے۔ اس سلسلے میں ری پبلیکن سینیٹر جان مکین کہتے ہیں کہ روسی ہیکرز کے
امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوئی معلومات نہیں ملیں۔امریکی آفس
آف دی ڈائریکٹرآف نیشنل انٹیلی جنس نے امریکی انتخابات کے نتائج میں روسی
ہیکرز کے اثرانداز ہونے کے معاملے پر سی آئی اے کی جائزہ رپورٹ تسلیم کرنے
انکارکردیاہے۔اوڈی این آئی کے اہلکاروں کاکہناہے امریکی انتخابات کے نتائج
پر ماسکوکے اثرانداز ہونے کے کوئی واضح ثبوت نہیں۔ادھرامریکی کانگریس نے
صدارتی انتخاب کے نتائج میں روس کی مبینہ آن لائن ہیرپھیرکے الزامات کی
تحقیقات کا اعلان کردیا۔امریکی سینیٹ میں ری پبلکن کے اکثریتی رہنما مچ
مکونیل اورایوانِ نمائندگان کے اسپیکرپال رائن نے الگ الگ بیانات میں
انتخابی عمل کی مبینہ ہیکنگ کے الزامات کی تحقیقات کی حمایت کااعلان کیا
ہے۔نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پیغام میں اس الزام کو ایک سازشی
تھیوری قرار دیا ہے۔ٹرمپ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مبینہ سائبر حملوں کا
معاملہ انتخابات سے قبل کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ادھرری پبلکن سینیٹر جان مکین
کا کہنا ہے کہ روسی ہیکرز کی جانب سے انتخابی مہم پر اثر اندز ہونے کے
شواہد تو موجود ہیں لیکن انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کی کوئی اطلاع
نہیں۔ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن ڈیوڈ نیونزکاکہناہے روسی
ہیکنگ معاملے پر مزید تحقیقات کا کوئی فائدہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ
اپنے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور نیٹ ورک کی بنیاد پر ساری دنیا پر حکومت کر
تا ہے لیکن اس معاملے میں سی آئی اے نے پہلی بار کھل کر اپنی ناکامی کا
اظہار کیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اب امریکہ سرکاری سطح پر روس
کے مقابلے میں اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کر رہا ہے۔ دوسری طرف
یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ روس اب ماضی کی اپنی پوزیشن دوبارہ بحال کرتا
نظر آ رہا ہے۔روس کے بارے میں آج کے دور میں اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ
اس نے عالمی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ شام کی صورت
حال میں روس کا واضح اسٹینڈ اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ اب روس چند برس
قبل والا روس نہیں رہا ۔ شام میں روس نے اپنے موقف کو تسلیم کروایا جبکہ اس
کی طرف سے طاقت کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا۔ امریکی صدارتی انتخابات میں
روس کے عمل دخل کا امریکی سی آئی اے کا اعتراف یہ بتا رہا ہے کہ اب روسی
خفیہ ادارے امریکی خفیہ اداروں سے زیادہ طاقتور اور مستعد ہو چکے ہیں۔
امریکہ میں امریکی صدر ہی تو امریکی ریاستوں کے سب سے زیادہ اتحاد اور
یکجہتی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن اگر امریکی ریاستوں کے اتحاد و یکجہتی
کی علامت صدر کا انتخاب ہی مشکوک ہو جائے اور اس میں امریکی ادارے روس کی
کامیاب حکمت عملی اور اپنی نا کامیوں کا اعتراف کر رہے ہوں تو پھر یہ
معاملہ نہ صرف امریکہ کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔یہ اس
بات کے اشارے ہیں کہ اب امریکہ کے سر سے دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا تاج
سرک رہا ہے اور آنے والے وقت میں یہ تاج امریکہ کے سر سے اتر کر کسی دوسرے
ملک کے سر پر سج جائے گا۔امریکہ داخلی طور پر بھی بہت سے کمزوریوں اور
انتشار کا شکار ہے۔وہاں کالے گوروں کا جھگڑا بہت شدت اختیار کرتا جا رہا ہے
جبکہ امریکہ کی بہت سی ریاستیں وفاقی حکومت کے قوانین اور رویوں سے خوش
نہیں۔ کچھ برس قبل امریکہ کی چند ریاستوں کی طر ف سے آزادی کی ایک مہم بھی
چلائی گئی تھی لیکن اس تحریک کو بزور طاقت ختم کر دیا گیا اور تحریک چلانے
والوں کو گرفتار رکر لیا گیا تاہم بعد میں انھیں چھوڑ دیا گیاتھا۔ آج
امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب کے بعد وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے قبل
امریکہ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ
ہوا ہے کہ صدر کے انتخاب کے خلاف ملک گیر سطح پر پر تشدد مظاہرے دیکھنے میں
آئے ہوں جبکہ مجموعی طور پر امریکہ کی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس
صورت حال میں آنے والے وقت میں امریکہ کے کمزور سے کمزور تر ہونے کے
امکانات بڑھتے جارہے ہیں لہذاممکنہ طور پر نئی صورت حال میں پاکستان جیسے
ملکوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے نئے خد و خال طے کر لینا چاہیے۔ |