جے جے جنت کا پیامی
(Shaikh Muhammad Hashim, Karachi)
"چترال روئے زمین پر جنت ہے"یہ آخری
ٹویٹ ایک ایسے شخص کا تھا جو ہمیشہ سے جنت کا متمنی تھا۔
جہد زیست کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے اور جو لوگ زندگی کو جہد مسلسل
کا حصہ نہیں سمجھتے وہ دراصل اپنی زندگی کو ہوا کے دوش کے حوالے کر دیتے
ہیں پھر وہ
بامقصد زندگی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔لیکن خوبروجنید جمشید کی تمام تر
زندگی کی تگ ودو کا مقصد صرف اور صرف جنت کا حصول تھا،جنید کی زندگی کی
کھلی کتاب اورشہادت نے روئے زمین کے باسیوں کو یہ ہی درس دیا ہے ۔
ہر ابن آدم انسان ہی ہوتا ہے اور ہر کلمہ گو مسلمان ۔ تاہم رنگ و
روپ،اندازواطوار،علم وہنر،سماجی زندگی میں انسان کی درجہ بندی میں بنیادی
کردار ادا کرتے ہیں ۔وجیہہ صورت کے ساتھ خوش لباس، خوش گفتارونرم لہجہ ہو
تو ایسے متحرک و فعال شخص کو ہر دل عزیز ہونے سے کون روک سکتا ہے اور اگر
وہ دھرتی کی بے لوث محبت میں"دل دل پاکستان "کی اشعار گوئی کرے یاروح کی
گہرائیوں سے، سچائی کی لبریزی سے مدینے کو پکارے تو ارض وسما پر موجود جنس
و ارواح کون کافر ہوگا جو جھومے بغیر نہ رہ سکے گا ۔ ابتدائے زیست میں تو
وہ مذہب سے کوسوں دور تھالیکن جب شعوری آنکھ کھلی تو رب کائنات نے بھی گلشن
سے اسی خوبصورت پھول کو چُنا جس نے گلشن کے کاروبار کو وسعت دی ۔پھر اُس کی
روح اور اس کے گلے نے "اے نبی ؐ پیارے نبی ؐ ۔سُنت تیری دُنیا و دیں" کا
سُر نکالنا شروع کر دیا۔رب کا چہیتا ہونے کی یہ دلیل کافی ہے کہ میرے رب نے
اُسے اس جنگل نما پنجرے سے آزاد کر دیا جہاں بڑے بڑے بھیڑیے اُسے شکار کرنے
کے لئے گھات لگائے بیٹھے تھے وہ اندھی تقلید کی رذیل سوچوں کے کچھاڑ سے
آزاد ہوگیا میرے رب کو اب اُس کی اِس سے زیادہ ذلت منظور نہیں تھی ۔اس کی
عجز و انکساری ، قلبی ا ضطرابی ،لہجے کی چاشنی،حقوق اﷲ ،حقوق العباد اور
پیام اجل اس بات کی دلیل ہیں کہ جنید جمشید رب کا چہیتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی
فکر میں گھلا جاتا تھا کہ میرے پیارے نبیﷺکسی طرح سے خوش ہو جائیں (وسیم
بادامی)
دیکھو !" اُس نے اُڑان بھر لی ہے۔۔ جنت نظیر سے حقیقی جنت کی طرف ۔۔وہ
دیکھو ۔وہ۔میں جس طرف اشارہ کر رہا ہوں اُس جانب دیکھو ۔۔ سرخ بادلوں سے
ڈھکے آسمان کی طرف جاتے ہوئے سفید لباس میں ملبوس برف کی طرح سفید ہیولے ۔۔وہ
دیکھو سب سے آگے جنید ہے ۔۔باقی ہیولوں کو وہ جنت کا راستہ دکھا رہا ہے ۔۔تمھیں
نظر نہیں آرہا ہے کیا؟۔۔ ہُم۔۔ا چھا اچھا۔اب سمجھ میں آیا۔دھند چھائی ہوئی
ہے بے حسی کی۔ہر سو فرقہ واریت کی آگ جو بھڑک رہی ہے۔انتہائی دکھ کا مقام
ہے کہ کلمہ گو مسلمان بھائی کی موت پر جشن منایا جا رہا ہے ۔ارے ہم سب تواﷲ
کے اُس نبیؐ کے اُمتی ہیں جس نے سب سے بڑے منافق عبداﷲ بن اُبی کا نماز
جنازہ پڑھایا ۔ اخلاقی طور پر ہماری موت ہو چکی ہے ۔ ہم نے رسولؐ کے درس
کومسخ اور اُن کی محنت کو رائیگاں کر دیا ہے،ہم نے اسلام کے نام پر اپنے
اپنے نظریے کے چبوترے بنا لئے ہیں،ہر شخص عقیدے کی لٹھ لئے کھڑا نظر آرہا
ہے ،کسی کو کافر قرار دیا جا رہا ہے تو کسی کو مرتد ،کوئی بہشتی ہے تو کسی
کو واصل جہنم کیا جا رہا ہے۔ہم نے مفلس شہنشاہ عبدالستار ایدھی کی روح کو
بھی اپنے نظریے کی لاٹھی سے ہانکا۔امجد صابری کی موت پر بھی عقیدے کے خنجر
گھونپے۔ اب اﷲ کی راہ پر اپنا تن ،من ،دھن قربان کر دینے والے جنید جمشید
کی شہادت پر اپنی اخلاقی بر بادی کا مظاہرہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بجائے جنت
و جہنم کے ٹکٹ بانٹنے کے سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ صوفیہ اکرام کی اس بستی
میں حیوان بڑھ رہے ہیں اور انسان نا پید ہو رہے ہیں"۔
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لا مکا ں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی انساں کیسے کیسے |
|