قوموں کی تاریخ میں بہت سے دن یادگار ہوتے
ہیں جن میں سے کچھ دن سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں تو کچھ سیاہ باب کی
حیثیت سے جانے جاتے ہیں ،دونوں طرح کے دنوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا
۔تاریخ اپنا رخ اکثر موڑتی ہے تو کئی واقعات اور سانحات جنم لیتے ہیں اور
کوئی بھی سانحہ یا حادثہ ایک ہی دن میں رونما نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے
کئی سالوں سے جمع ہونے والی محرومیاں ،کوتاہیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں جو
اس واقعے کا سبب بنتی ہیں ایسا ہی ایک دن ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کا ہے جب مشرقی
پاکستان ہم سے جدا ہوا اور بنگلہ دیش بن گیا ۔تاریخ کے اوراق پلٹیں تو بہت
سی سچائیاں ،بہت سی کڑوی حقیقتیں ، کئی ناانصافیاں اور بہت سی کوہتائیاں دل
کو چیرنے لگتی ہیں۔آہ کس قدر مشکل ہوتا ہے اپنے لہو سے اپنے غم کی داستان
لکھنا ،ان تلخ حقیقتوں کو بیان کر نا جو ساری صورتحال کا سبب بنی ۔پاکستان
جب وجود میں آیا تو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دو بالکل جدا علاقے
تھے اور ان کے بیچ ہزاروں میل کا فاصلہ تھا ،وہ ملک جوایک نظریے اور ایک
عقیدے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا ،وجود میں آتے ہی کئی مسائل سے دوچار
ہو گیا ۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں فاصلے زیادہ ہونے کی وجہ سے
معاشی ،معاشرتی ،سیاسی اور اقتصادی طور پر کئی مسائل نے سر اٹھارکھا تھا ،مشرقی
پاکستان چونکہ خطے اور آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان سے کئی گناہ بڑا تھا
،جس کی وجہ سے وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن نہ تھی ۔جبکہ بنگالیوں کو مغربی
پاکستان سے کئی ہزار شکوے تھے ۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی قائد اعظم نے
اردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا جب کے مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی
بنگلہ زبان بولتی اور سمجھتی تھی جس پر ایک کانٹا تو بہت پہلے ہی بنگالیوں
کے حلق میں پھنس گیا تھا ،پھر مشرقی پاکستان کو یہ بھی گلہ تھا کہ مغربی
پاکستان اس کے وسائل سے آمدنی حاصل کر رہا ہے اور پھر اسے قومی سطح کے
منصوبوں سے بھی دور رکھتا ہے ،غرض ایک لاوا تھا جو اندر ہی اندر پکتا گیا
اور ایک دن شدت سے پھٹ گیا ۔بلا شبہ اس آگ کو بھڑکانے میں شیخ مجیب الرحمٰن
نے بھی اہم کردار ادا جو بنگالیوں کے نمائندہ رہنما تھے مگر ان کو آج غدار
اور ملک دشمن کہا جاتا ہے کیونکہ بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے
خلاف نفرت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،اور اس ساری صورتحال سے بھارت
نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکتی باہنی کے روپ میں اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں
اتاردیں اور نتیجہ یہ نکلا کے پاکستان دو لخت ہوگیا ۔۱۹۴۷ سے ۱۹۵۸ تک گاہے
بگاہے اچھے برے حالات چلتے رہے اور مسئلے مسائل سامنے آتے رہے ۔جو تلخیاں
بڑھاتے رہے ،اگر کوشش کی جاتی پوری لگن اور سچائی کے ساتھ تو مسائل کا حل
ممکن تھا مگر جب اپنی ہی آستین میں سانپ پل رہے ہو ں تو پھر اسے نتائج
سامنے ضرور آتے ہیں ۔۱۹۵۸ مین جرنل ایوب خان کے مارشل لاء نے بنگالیوں میں
احساص محرومی کو اور بڑھا دیا کیونکہ اقتدار ایک فرد واحد کے گرد گھومنے
لگا تھا اور فرد واحد بھی وہ جسکا تعلق مغربی پاکستان کی فوج سے تھا ،پھر
اسلام آباد کو دارالخلافہ بنا دیا گیا ،مشرقی پاکستان میں بھی بنگالیوں کے
ساتھ پنجابی فوج کو بھر تی کیا جانے لگا ۔۱۹۷۰ میں عام انتخابات کروائے گئے
جو کہ پاکستان کے سب سے پہلے شفاف انتخابات تھے ،مشرقی پاکستان سے ۱۶۲ میں
سے ۱۶۰ سیٹیں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے حاصل کیں ،جبکہ مغربی
پاکستان میں پیپلز پارٹی نے ۱۳۸ میں سے ۸۱ سیٹیں حاصل کیں ،اس طرح عوامی
لیگ کو مشرقی پاکستان میں مکمل کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکمرانی کا حق
حاصل ہوگیا تھا مگر بدقسمتی سے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کرنے کے
بجائے سودے بازی کی جانے لگی ،اور جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کے بجائے
بگڑنے لگے ۔یحٰی خان جو کے ایڈمنسٹریٹو مارشل لاء تھے انھوں نے سودے بازی
میں ناکامی کی صورت میں فوجی ایکشن شروع کردیا جس کے نتیجے میں بھارت جو
پہلے سے ہی ساز باز میں مشغول تھا اسے کھلے عام مداخلت کا موقع مل گیا ،اور
جنگ میں ناکامی کی صورت میں بنگلہ دیش میں جرنل نیازی کوبھارتی جرنیل اروڑہ
کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ،اور نوے ہزار شہری اور فوجی جنگی قیدی کی حیثیت
سے بھارت کے پاس چلے گئے ،بلاشبہ یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن
تھا ،اور وہ دیس جو ۲۵ سال پہلے وجود میں آیا تھا دولخت ہو گیا ۔جو قومیں
اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرتی ہیں وہ کامیاب رہتی ہیں مگر المیہ تو یہ ہے کہ
ہر سال ۱۶ دسمبر آتاہے اور لکھنے والے بہت کچھ لکھتے ہیں ،بہت سی باتیں ،دعوے
اور وعدے بھی کیے جاتے ہیں مگر افسوس عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا جاتا ۔آج
بھی وہی ملک کے حالات ہیں کہ ہم اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہیں ،آپس
میں اتفاق نہیں اور ایک دوسرے کے لئے گھڑے کھودے جاتے ہیں بس صرف اور صرف
اقتدار کی جنگ جاری ہے ملک کو مضبوط کرنے اور بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے
کے لئے مل کر کام کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ۔نجانے ہم کب اپنا اچھا یا برا
سمجھیں گیں ۔ضرورت تو اس امر کی بھی ہے کہ ملک کے دفاع اور بھلے کی خاطر
بالا تخصیص ان لوگوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے جو ملک کو نقصان پہنچانے
کا سبب بنے یا بن رہے ہیں ۔ |