وزیرِ اعلیٰ کا حکم، ہسپتال کی انکوائری اور اختیارات کی وہ فائل جو شاید کبھی کھلے ہی نہیں


اگر آپ یہ سمجھتے تھے کہ وزیرِ اعلیٰ کے احکامات صرف فائلوں میں خوبصورت لگتے ہیں اور عملی دنیا میں ان کی کوئی خاص وقعت نہیں، تو لیڈی ریڈنگ ہسپتال نے آپ کی اس سوچ پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ہم تو اب تک یہی مانتے آئے تھے کہ وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی بات شاید پنجاب پولیس کے کچھ اہلکار نہیں مانتے ہوں گے، لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں انکار بہت مہذب انداز میں کیا جاتا ہے، جسے انکوائری کہا جاتا ہے۔

قصہ سیدھا سادہ تھا۔ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ سہیل آفریدی نے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر کو ناقص کارکردگی پر ہٹانے کی ہدایت دی۔ کوئی مبہم بات نہیں تھی، کوئی پیچیدہ فارمولا نہیں تھا۔ عوامی شکایات، میڈیا رپورٹس اور زمینی حقائق سب سامنے تھے۔ لیکن ہسپتال انتظامیہ نے اس حکم کو کچھ اس انداز سے سنا جیسے کوئی بزرگ نصیحت کرے اور سامنے والا سر ہلا کر دل ہی دل میں فیصلہ کر لے کہ جو کرنا ہے وہی کرنا ہے۔

انتظامیہ نے فوراً اعلان کیا کہ “اس معاملے کی انکوائری ہوگی، اور اگر کوئی قصوروار ثابت ہوا تو کارروائی کی جائے گی۔” یعنی وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہٹاو¿، اور جواب آیا تحقیق کریں گے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب حکم، مشورے میں تبدیل ہو گیا اور اختیار، کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔یہاں ایک سوال بنتا ہے۔ اگر وزیرِ اعلیٰ کی ہدایت کے بعد بھی پہلے انکوائری ہونی ہے، تو پھر وزیرِ اعلیٰ کا کردار کیا رہ جاتا ہے؟ شاید وہ صرف ایک سینئر کمنٹیٹر ہیں، جو نظام پر اپنی رائے دیتے ہیں، اور نظام پھر اس رائے پر غور کرنے یا نہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کوئی عام ادارہ نہیں۔ یہ ایک مکمل مملکت ہے، جس کی اپنی خودمختاری ہے۔ یہاں حکم چلتا ہے، لیکن اندرونی حکم۔ باہر سے آنے والا حکم صرف ریکارڈ کے لیے ہوتا ہے۔ تاریخ میں درج کرنے کے لیے کہ فلاں دن وزیرِ اعلیٰ نے بھی کچھ کہا تھا۔انکوائری کا لفظ ہمارے ہاں بہت طاقتور ہے۔ یہ لفظ مسائل کو وقتی طور پر بے ضرر بنا دیتا ہے۔ شور مچ رہا ہو تو انکوائری، سوال بڑھ رہے ہوں تو انکوائری، اور اگر کوئی حکم بہت سخت لگ رہا ہو تو اس کے آگے انکوائری لگا دو، سب کچھ نرم ہو جاتا ہے۔ انکوائری دراصل وقت خریدنے کا ایک مہذب طریقہ ہے، جس میں نہ کوئی فوراً قصوروار ہوتا ہے اور نہ کوئی فوراً بری۔

اب ذرا تصور کریں، اگر واقعی ناقص کارکردگی کو بنیاد بنا کر عہدوں سے ہٹانا شروع کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ شاید دفاتر آدھے خالی ہو جائیں۔ فائلیں خود ہی چلنے لگیں اور کرسیوں کو وارث نہ ملیں۔ اسی لیے ناقص کارکردگی ہمارے نظام میں جرم نہیں، ایک روایت ہے۔ ایسی روایت جس کے ساتھ سب جینا سیکھ چکے ہیں۔اس سارے معاملے میں سب سے دلچسپ کردار مریض کا ہے۔ وہ مریض جو صبح سویرے ہسپتال پہنچتا ہے، لائن میں لگتا ہے، دوائی کے کاو¿نٹر پر مایوس لوٹتا ہے اور وارڈ میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے راہداری میں لیٹ جاتا ہے۔ اس مریض کو اس بات سے کوئی خاص غرض نہیں کہ وزیرِ اعلیٰ نے کیا حکم دیا اور انتظامیہ نے کیا جواب دیا۔ اسے صرف علاج چاہیے، جو شاید کسی انکوائری کی رپورٹ میں دستیاب ہوگا۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ انکوائری کرے گا کون؟ وہی نظام، وہی افسران، وہی روایات۔ نتیجہ بھی غالباً وہی ہوگا جو اکثر ایسی تحقیقات میں ہوتا ہے۔ چند انتظامی خامیاں تھیں، نیت خراب نہیں تھی، حالات مشکل تھے، وسائل محدود تھے، اور آئندہ بہتری کی کوشش کی جائے گی۔وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کے لیے یہ واقعہ ایک سبق بھی ہو سکتا ہے۔ شاید اب انہیں سمجھ آ رہا ہوگا کہ اختیار کاغذ پر ہوتا ہے، لیکن طاقت عمل میں۔ اور عمل وہاں ہوتا ہے جہاں حکم ماننے کا فیصلہ کیا جائے، نہ کہ وہاں جہاں حکم دیا جائے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی وزیرِ اعلیٰ کا حکم ادارہ جاتی خودمختاری کے سامنے ٹھہر نہ سکا ہو۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار معاملہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ عوام بھی دیکھ رہے ہیں اور نظام بھی، لیکن سوال یہ ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔اگر کل کو وزیرِ اعلیٰ یہ کہہ دیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ بہتر رویہ رکھا جائے، تو شاید ایک کمیٹی بنے گی کہ پہلے یہ طے کیا جائے کہ بہتر رویہ کیا ہوتا ہے۔ اگر وہ کمیٹی مطمئن ہو گئی، تو اگلی کمیٹی بنے گی جو عملدرآمد کا طریقہ کار طے کرے گی۔یہ سب کچھ دیکھ کر ایک بات واضح ہو جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں مسئلہ صرف افراد کا نہیں، نظام کا ہے۔ ایسا نظام جس میں حکم ایک رسمی جملہ ہے اور انکوائری ایک عملی ہتھیار۔

آخر میں سوال یہ نہیں کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر کو ہٹایا جائے گا یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نظام میں کبھی ایسا دن آئے گا جب وزیرِ اعلیٰ کا حکم، انکوائری سے پہلے نافذ ہوگا؟ یا پھر ہم ہر بار یہی سنتے رہیں گے کہ پہلے تحقیق ہوگی، پھر دیکھا جائے گا، اور اگر کچھ ثابت ہو گیا تو کارروائی کی جائے گی۔اور اس “اگر” پر ہی پورا نظام کھڑا ہے۔

#Governance
#KPPolitics
#HealthcareSystem
#PoliticalSatire
#RuleOfLaw
#PakistanPolitics
#PublicHospitals
#Accountability
#ComedyWriting

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 892 Articles with 713716 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More