16 دسمبرپاکستان کی تا ریخ کا سیاہ اور
بدترین دن ہے۔ 16 دسمبر کو دو بڑے سانخے رونما ہوئے۔16 دسمبر1971 کوپاکستان
کی پاک زمین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیااور ٹھیک 43 سال بعد16
دسمبر2014 کواسی پاک سر زمین پرظالم معاشرے نے ماوؤں کے جگر گوشوں کوبندوق
کی گولیوں سے چھلنی کر کے الگ کر دیا گیا۔ایک سو سے زائد معصوم اور ننھے
پھولوں نے شہادت کا رتبہ پا کر سیدھا جنت میں داخل ہو گئے۔ان معصوم ،ننھے
پھولوں اور جگر گوشوں کی قر بانیوں کوتا قیامت یاد رکھا جائے گا۔ان ماوؤں
نے نہ جانے اپنے لخت جگروں کے لیے اپنی پلکوں پر کتنے خواب سجائے ہونگے
لیکن ظالم معاشرے کی بدولت ان ماوؤں کے خواب ،خواب ہی رہ گئے۔کسی ماں نے
اپنے پھول کو ڈاکٹر ،تو کسی نے پائلٹ ،تو کسی نے اپنے لال کوپاک آرمی کا
بہادر سپاہی بناکر اس ملک وقوم کا خدمت گار بنانا تھا۔ان ہی ایک سو سے زائد
پھولوں میں سے ایک پھول '' مبین اسلم قریشی '' بھی تھا ۔مبین اسلم فوج کا
ایک بہادر کمانڈر بن کے اس پاک سرزمین کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔مبین12 جون
2002 کو پشاورمیں پیدا ہوا۔مبین اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور تین
بہنوں کا واحد سہارا تھا۔وہ آرمی پبلگ سکول پشاور میں آٹھویں کلاس کا
نیاطالب علم تھا ۔اس کو اس سکول میں آئے ہوئے چند ہی مہینے گزرے تھے ۔مبین
اپنی کلاس کا پیس کیپر ''ہیڈ'' تھا۔دوستوں سے خوب گپ شپ کرتا تھا ۔خوش
اخلاقی اس کے خون میں شامل تھی اور اسی وجہ سے دوست بھی زیادہ تھے۔اس کو
پاک آرمی کا بہادر سپاہی بننے کا بے انتہا جنون تھا ۔ سکول سے گھر آکر اپنی
پڑھائی کے بعد فارغ اوقات میں اپنے آرمی کے کھلونوں سے کھیلتا تھا۔مختلف
ممالک کے سکے جمع کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ذرہ ٹھہرئیے !یہیں تک نہیں
مبین کو جوڈو کراٹے سیکھنے کا بھی شوق تھا اوروہ پشاور کے کسی ادارے سے
جوڈوکراٹے کی باقاعدہ کلاسس بھی لیتا تھا ۔اپنی منزل کو پانے کے لیے اس نے
کیڈٹ کالج میں ٹیسٹ بھی دیامگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کی سانسیں اس
سے وفانہیں کریں گی جس کا رزلٹ اس کی شہادت کے بعد ایک کیڈٹ کی صورت میں اس
کے روتے والدین کو ملا۔
معززقارئین!مبین اور ایک سو سے زائد بچے جو شہادت کا رتبہ پاکر اس جہاں سے
دوسرے جہاں تو کوچ کر گئے ہیں لیکن پوری انسانیت کو خوصلہ ،ڈٹ کر مقابلہ
کرنا،صبروتخمل ،ملک کے لیے قربان ہونااور بہادری کا مظاہرہ کرنا سیکھا
گئے۔دوسال گزرنے کے باوجود یہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔آج بھی ان
کا ذکر کسی محفل یا مجلس میں کیا جائے توہر آنکھ نم اور اشکبار ہو جاتی
ہے۔جب بھی دنیا میں بلند خوصلوں کا ذکر ہوگا تو ان معصوم بچوں کے خوصلے یاد
کیے جائیں گے۔جب بھی دنیا میں شجاعت اور بہادری کے قصے سنے یاسنائے جائے گے
توان پھولوں کے سنائیں جائیں گے۔جب بھی دنیا میں صبر کا لفظ سنا جائے گا تو
ان شہداء کے والدین کو ضرور یاد کیا جائے گا۔جب بھی دنیا میں پیغام امن کے
بارے میں ذکر ہو گا تو امن کے مخافظوں کو سرِفہرست ر کھا جائے گا۔دنیا میں
جب بھی ظلم کی داستانیں لکھی جائیں گی تو ان پھولوں پر لکھی جائیں گی۔دنیا
میں جب بھی ملک کے لیے قربانی کی بات ہوگی تو ان گلابوں کی قربانیوں
کولازمََا یاد کیا جائے گا۔
ُٰ بچے سکول جائیں اورواپس گھر نہ آئیں
اے خدا!پھر ایسادسمبر کبھی نہ آئے |