نوٹوں پر پابندی:کتناصحیح کتناغلط؟

8؍نومبر کی شام کوتقریبا 9بجے ہمارے وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا کہ اب 500 اور 1000 ہزار کے نوٹ نہیں قبول کئے جائیں گے اور موجودہ نوٹوں کی بازار میں اب کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے،اس اعلان سے عوام پریشان ہے،بے چینی کا عالم ہے،درمیانی درجہ کے افراد بے انتہا پریشان ہیں ،شادیاں طے ہو چکی ہیں، انتظامات میں دشواری ہورہی ہے ،گھروندے چھتوں کو ترس رہے ہیں ،مریضوں کو علاج و معالجہ میں دشواری پیش آرہی ہے، ہر شخص کواس اعلان سے تکلیف محسوس ہوئی ہے، خاص طور پر وہ افراد جو نقد میں کاروبار کرتے ہیں ،انہیں مشکلات و مصائب کا سامنا ہے ،دو دن کے وقفہ نے کمر توڑ کر رکھ دی ،بازار سونے پڑے ہیں، لوگ خالی بیٹھے ہیں،معیشت پر یہ فیصلہ یقینی طور سے اثر انداز ہوا ہے،چونکہ چھ لاکھ ستر ہزار کروڑ کے ایک ہزار کے نوٹ اور آٹھ لاکھ پچیس ہزار کروڑ کے پانچ سو کے نوٹ بند ہوئے ہیں۔
8؍نومبر کی شام کوتقریبا 9بجے ہمارے وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا کہ اب 500 اور 1000 ہزار کے نوٹ نہیں قبول کئے جائیں گے اور موجودہ نوٹوں کی بازار میں اب کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے،اس اعلان سے عوام پریشان ہے،بے چینی کا عالم ہے،درمیانی درجہ کے افراد بے انتہا پریشان ہیں ،شادیاں طے ہو چکی ہیں، انتظامات میں دشواری ہورہی ہے ،گھروندے چھتوں کو ترس رہے ہیں ،مریضوں کو علاج و معالجہ میں دشواری پیش آرہی ہے، ہر شخص کواس اعلان سے تکلیف محسوس ہوئی ہے، خاص طور پر وہ افراد جو نقد میں کاروبار کرتے ہیں ،انہیں مشکلات و مصائب کا سامنا ہے ،دو دن کے وقفہ نے کمر توڑ کر رکھ دی ،بازار سونے پڑے ہیں، لوگ خالی بیٹھے ہیں،معیشت پر یہ فیصلہ یقینی طور سے اثر انداز ہوا ہے،چونکہ چھ لاکھ ستر ہزار کروڑ کے ایک ہزار کے نوٹ اور آٹھ لاکھ پچیس ہزار کروڑ کے پانچ سو کے نوٹ بند ہوئے ہیں۔1978 میں اس سے قبل اس طرح کا فیصلہ کیا گیا تھا ،85 فی صد نوٹوں کو بند کیا جا نے پر مشکلات کا پیدا ہونا فطری امر ہے ،ہمارے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس طریقہ پر نقلی نوٹوں پرروک لگائی جاسکے گی اور کالے دھن کو باہرنکالاجائیگا،دہشت گردوں کو حاصل ہونے والی رقم پر بھی کسی حد تک قابو پا لیا جائیگا ،یقینا وزیر اعظم کا یہ قول کہ جعلی نوٹوں پر قدغن لگایا جارہا ہے ،کسی حد تک موزوں اور مناسب معلوم ہو رہا ہے ،مگر کیا یہی طریقہ ہے جس کے ذریعہ اس جرم کو روکا جا سکتا ہے ،جس میں عوام و خواص پریشان ہوں ،آنسو بہانے پر مجبور ہوجائیں ،رہا کالے دھن کا پکڑنا تو یہ وہ خوبصورت حربہ ہے جسے بی جے پی 2014 کے پارلیمانی انتخاب سے قبل بھی استعمال کر چکی ہے ،اور بعد میں سیاسی جملہ کہ کر اپنا دامن بھی جھاڑ چکی ہے، کیا اس مرتبہ بھی بی جے پی کالا دھن لانا چاہتی ہے ،یا اسے بھی صرف انتخابی حربہ سمجھا جائے ، ہمارے وزیر اعظم کالا دھن لانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں ،اصل سوال تو یہی ہے ؟کیا کالا دھن ملک کے اندر زیادہ ہے یا ملک کے باہر ؟کیا یہ تدبیر مناسب ہے ؟کیا اس سے غریبوں کو نقصان نہیں ہے ؟اس سے پہلے بھی وزیر آعظم کالا دھن لانے کی ایک تدبیر کر چکے ہیں جو مکمل طور پر ناکام رہی ہے، اور بلیک منی کے طور پر کوئ خاص رقم ہندوستانی خزانہ میں نہیں پہونچی اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ بہت سخت ہے ،نتائج کیا ہونگے اس سے قطع نظر ،ہاں اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے کہ ہندوستان میں ٹیکس جمع کرنے والوں کی تعداد صرف چار فی صد ہے ،131کروڑ کی آبادی میں یہ تعداد کافی کم ہے ،کثیر تعداد میں افراد ٹیکس چراتے ہیں ،اس طریقہ کار سے شاید ٹیکس کی چوری کو پکڑا جا سکے ،مگر سوال یہی پیدا ہوتا ہے ،کیا اسکے علاوہ حکومت کے پاس کوئی تدبیر نہیں ،کیا کرپشن کے خاتمہ کا ذریعہ ہے ،انتظامیہ کے ہر شعبہ میں جو کرپشن ہورہا ہے، بدعنوانی ہورہی ہے ،اس کا کیا ہوگا، رشوت کی کالا بازاری ہر شعبہ میں عام ہے ،روپے اوپر سے کم اور میز کے نیچے سے زیادہ لئے جاتے ہیں ، اس صورت حال میں ٹیکس چوری نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ تاجر کیا کریں، حکام اور افسران کا پیٹ بھریں یا ٹیکس سے جان بچائیں ان کے لئے بھی انتہائی مشکل مرحلہ ہے،اب یہ دیکھنا ہے کہ اس فیصلہ کا ان افسران پر کیا اثر ہوتا ہے ،کیا ان کی کالابازاری بند ہوگی ،کیا انکے غلط طریقہ کار پر پابندی عائد ہوجائیگی؟ یہ تو وقت ہی بتائیگا مگر اتنا صاف ہے کہ کالا بازاری اور کالا دھن یہیں نہیں ہے ،بلکہ کالے دھن کا سب سے زیادہ حصہ ان افراد کے یہاں ہے جو ملک کی رہبری و رہنمائی میں حصہ لیتے ہیں ، کروڑوں میں نمائندگی بیچی اور خریدی جاتی ہے ،کسی جماعت کی امیدواری حاصل کرنے کے لئے خطیر رقم کا استعمال کیا جاتا ہے،آج تک کوئی سوال پیدا نہیں ہوا کہ یہ کیا طریقہ ہے ،اس رقم کا حساب مانگنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوئ ،کوئ زبان دراز نہیں ہوئ ،اربوں روپے انتخاب کی تشہیر میں خرچ ہوتے ہیں ،کوئ حساب نہیں کہاں سے آئے کس نے دئے ؟کتنے دئے ؟اور کتنے خرچ ہوئے؟کچھ خبر نہیں عوام تو آج تک یہ بھی نہیں جاتی کہ انکے نمائندے کتنے قیمتی ہیں ،کتنا روپیہ اس پر خرچ ہوتا ہے تب جاکر اسے نمائندگی کا حق حاصل ہوتا ہے ،کیا ہمارے وزیر اعظم اس صورت حال سے لڑنے کے لئے تیار ہیں ،اگر تیار ہیں تو اس فیصلہ کا استقبال ہے،میڈیا کے سامنے پیش کریں اپنی جماعت کے اعداد و شمار اور بتائیں کہاں سے آتی ہے یہ خطیر رقم؟ وہائٹ ہے یا بلیک ؟اگر ملک کی ترقی چاہتے ہیں ،بدعنوانی ختم کرنا چاہتے ہیں،کرپشن کو مٹانا چاہتے ہیں ،تو ختم کیجئے آئیے نکلئے میدان میں مگر جان لیجیے جو ابتدا میں خود قربانی نہیں دیتے انکا مشن لطیفہ ثابت ہوتا ہے،اگر آپ قربانی دے سکتے ہیں تو یقینا تاریخ کے صفحات میں آپ بے مثال ہونگے اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو غریبوں مفلسون کمزورں کو کیوں ستاتے ہو ؟کیوں تکلیف میں مبتلا کررہے ہوعام اورغریب انسانوں کو ،بینکوں پر لگی بھیڑ اس بات کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے کہ عام آدمی کتنی تکلیف میں ہے ،آپ کے اس اعلان نے کتنی ڈولیاں اٹھنے سے روک دی ہیں ،کتنے طلبہ فیس جمع کرنے کے لئے پریشان ہین ،عام افراد کا کیا حال ہے، ایک دن ذرا نکل کر دیکھئے تو حقائق آپکی نگاہوں کے سامنے آجائینگے،میک ان انڈیا کا نعرہ ہوائ ثابت ہوا ،کالا دھن لانے کا نعرہ سیاسی جملہ ثابت ہوا ،مسلمان عورتوں کے حقوق دلانے کا نعرہ محض تعصب پر مبنی نظر آیا، دلتوں کے حقوق آپ نے نہیں دیا،کونسا سماج ہے جو آپکے فیصلوں سے خوش ہو ،کیسے اعتماد کئے جائیں وزیر اعظم کے فیصلوں پر ،جتنا وہ اپنے لباس پر خرچ کرتے ہیں ،جتنی توجہ اپنے بناؤ سنگار پر دیتے ہیں، اتنی اگر اس ملک پر دئے ہوتے ؛تو ملک کی تصویر بدل جاتی اور اتنے سخت فیصلہ کی ضرورت نہ پڑتی ،کتنے غریب و مفلس بچے ہوٹلوں میں برتن صاف کرتے ہیں کوئ بات نہیں،اگر ہندوستان کے مستقبل کی فکر ہوتی تو کاروائی نہ کی جاتی؟بس کالا دھن ایسا سیاسی حربہ ہے انتخاب آتے ہی اسے بل میں چھپے سانپ کی طرح باہر لاتے ہیں ،اور اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.