حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
(Dr Iqbal Ahmed Akhtar Alqadri, Karachi)
( مقام ومرتبہ‘ فرمودات اور ذوقِ سخن ) |
|
بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
سیدی و سندی‘ مرشدی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی نوراﷲ مرقدہ جنہیں سارا
عالم ’’ غوثِ اعظم ‘‘ اور ’’پیرانِ پیر دستگیر‘‘ کے نام سے پکارتا و یاد
کرتاہے ‘یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ /۱۰۷۵ ء بر وز جمعۃ المبارک طبر ستان کے
علا قہ ’’ گیل ‘‘ کے محلہ نیف میں پیدا ہوئے۱ …… ’’گیل ‘‘ جسے بعد میں ’’
گیلان ‘‘ کہا جانے لگااوراہل عرب جسے ’’ جیلان ‘‘ کہتے ہیں‘ یہ عجمی علاقے
میں واقع ہے۲ …… اسی علاقہ کی نسبت سے آپ کے نام کے ساتھ عجمی ’’گیلانی ‘‘
اور اہل عرب ’’جیلانی ‘‘ لکھا کرتے ہیں…… آپ نے ۱۱ ؍ربیع الثانی ۵۶۱ھ کو
بغداد شریف (عراق) میں وصال فرمایا‘جہاں آپ کا مزار پُر انوار عالم اسلام
کے مسلمانوں کا مرجع ہے۔ ۳
آپ کے بیان و کلام میں ایک پُر اثر برقی تیز ی تھی جو سامعین کے قلوب میں
خوف کے ساتھ ساتھ لذت بھی پیدا کردیتی تھی …… آپ نے ۵۲۱ھ میں وعظ فرمانا
شروع کیا ……جب آپ خطاب فرماتے تو دور ان وعظ پورا مجمع ہمہ تن گوش ہوکر
کلام سنتا ……آپ کی آوازِ حق‘ اﷲ اکبر! دور و نزدیک سب سامعین کو آپ کی آواز
بر ابر پہنچتی تھی ، لاکھوں کے مجمع میں ہر شخص آپ کی آواز کو ایسے سنتا کہ
گویا آپ اسی سے مخاطب ہیں ……دورانِ وعظ‘ احادیث مبارکہ کے عجب عجب معانی
ومطالب بیان کرتے اور ایسے ایسے اسرار و معارف حاضرین کے سامنے واکرتے کہ
سننے والے مرحبا مرحبا کہتے اور شسدر رہ جاتے …… حضرت شیخ عبد الحق محدث
دہلوی علیہ الرحمۃ آپ کے کلام اور اس کی اثر آفرینی کے حوالے سے لکھتے ہیں
کہ:
’’آپ کے کلا م معجز بیان میں اس قدر تاثیر تھی کہ جب آیاتِ وعید کے معانی
ومطالب کو بیان فرماتے تو سامعین پر لرزہ طاری ہوجاتا‘ ان کے چہروں کی رنگت
فق ہوجاتی، پر وردگار عالم کے خوف سے رونے والوں کی یہ حالت ہوجاتی کہ ان
پر بے ہوشی طاری ہوجاتی ، اور جب اﷲ کی رحمت اور فضل وکرم کا ذکر فرماتے تو
لوگوں کے دل باغ باغ ہو جاتے۔اکثرسامعین آپ کے کلام کے حسن ِبیان سے مست
ہوجاتے اور بعض تو واصل ِحق ہو جاتے تھے ‘‘۔۴
آپ کی مجلس و عظ میں علم و حکمت کے بے شمار دریا رواں رہتے جنہیں محفوظ
کرنے کے لیے چار چار سوعلماء و اولیاء قلم دوات لیے آپ کے قدموں میں بیٹھتے
‘ جو کچھ سنتے ،لکھ لیتے اور بعد میں اس کی نقول تیار کر کے دوسروں کو
پہنچائی جاتیں۵……
آپ کے وعظ و کلام کا عالم‘ اﷲ اکبر! جو غیر مسلم بھی سن لیتا ، اُسے اسلام
قبول کیے بنا چارہ نہ ہوتا……آپ کے دست حق پرست پر ہزاروں نہیں لاکھوں یہود
ونصارٰی نے اسلا م قبول کیا اور بے شمار فاسق وفاجر لوگ آپ کے ہاتھ پر توبہ
کر کے راہِ راست پر آگئے ۔
امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمۃ نے غوث
اعظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی نوراﷲ مرقدہ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے
ہوئے اپنے مکتوبات شریف میں لکھا ہے کہ:
’’ اﷲ جل شانہ تک پہنچنے کے دور استے ہیں ۔ ایک راستہ نبوت سے تعلق رکھتا
ہے اور اصل الا صل تک پہنچنے والا ہے اس راہ سے پہنچنے والے حضرات انبیاء
علیہم السلا م اور ان کے اصحاب ہیں اور بعض اُمتی کوبھی اس راہ سے حق
تعالیٰ سر فراز فرماتاہے ، لیکن ویسے پہنچنے والے بہت تھوڑے ہیں اس راستے
میں واسطہ نہیں ہے یہ شخص بلا واسطہ فیض حاصل کر تا ہے۔ دوسر ا راستہ قربِ
حق وہ ہے جو ولا یت سے تعلق رکھتا ہے تمام قطب ، اوتا د ، ابد ال ،نجیب اور
عام اولیاء اﷲ سب اسی راستہ سے واصل ہوئے ۔ راہ سلو ک اسی راہ سے مر اد ہے
بلکہ جذبہ متعارفہ بھی اسی میں داخل ہے ۔ اس راستہ میں واسطہ ضروری ہے ۔ اس
راہ ولایت کے پیشو احضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں اور یہ عظیم الشا ن مرتبہ
اُنہی کی ذات مبارک سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس مقام میں گویا آنحضرت ﷺ کے دونوں
قد م مبارک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے سر مبارک پر ہیں اور حضرت بی بی فاطمہ
وحضرات حسنین رضوان اﷲ عنہم بھی اس مقام میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے شریک
ہیں حضرت علی رضی اﷲ عنہ قبل پید ائش وبعد پیدائش وجو دِ عنصر ی اس مقام کے
مرکز رہے ہیں……اس راہ ولایت سے جس کسی کو فیض پہنچتا ہے انہی جناب کے وسیلہ
سے پہنچتا ہے جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا دور تمام ہوا تو یہ عظیم الشان
مرتبہ ترتیب وار حضرات حسنین رضی اﷲ عنہما کے سپر دہوا اور ان کے بعد بارہ
اماموں میں سے ہر ایک کے ساتھ ترتیب اور تفصیل وار قرار پایا۔ ان بزرگواروں
کے زمانے میں اور ان کے انتقال فرمانے کے بعد جس کسی کو یہ فیض ہدایت پہنچا
وہ انہی بزرگوں کے واسطے سے پہنچتا رہا گو اپنے اپنے زمانے کے قطب ، ابد ال
وغیر ہ ہوتے رہے لیکن فیض کا مر کز وملجا وماوٰی یہی بزرگوار ہوئے ہیں کیوں
کہ اطراف کو مر کز کے ساتھ ملحق ہوئے بغیر چارہ نہیں، حتیٰ کہ حضرت شیخ عبد
القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ تک نوبت آپہنچی اور یہ منصب مذکو ر ان بز رگ کے
حوالے ہوا ……مذکو رہ بالا اما مو ں کے اور حضرت شیخ عبد القاد ر جیلا نی
رحمۃ اﷲ علیہ کے درمیانی زمانے میں کوئی بزرگ اس منصب سے مشر ف ہونا پایا
نہیں جاتا۔ اس راستے میں تمام اقطاب اور نجبا ء کو فیوص وبرکات کا پہنچنا
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے ذریعے سے معلو م ہوتاہے کیونکہ
یہ مر کز سوائے حضرت شیخ عبد القا در جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے کسی کو میسر
نہ ہوا ۔ اسی واسطے حضرت شیخ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ’’ غروب ہوا آفتا ب
پچھلو ں کا اور چمکا آفتا ب میرا ‘‘۔یہاں شمس سے مر اد فیض ہدایت ہے اور
غروب سے مراد ہے کہ وہ منصب اب میرے سپر د ہے جو پہلے والوں کے سپر د تھا
یعنی رشدو ہدایت پہنچنے کا ذریعہ‘ اب آپ کی ذات مبارک ہے اور جب تک فیضان
کے وسیلے کا معاملہ برپا ہے وہ حضرت شیخ عبد القادر جیلا نی رحمۃ اﷲ علیہ
کے وسیلے اور تو سل ہی سے پہنچے گا ۔ اسی واسطے جو حضرت نے فرمایا کہ غروب
ہوا آفتا ب پچھلوں کا وہ درست ہے اور اس الف ثانی میں جو فیض‘ مجدد الف سے
پہنچے گا وہ بطور نیابت حضرت شیخ عبد القا در جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ سے پہنچے
گا جیسے کہ چاند کی روشنی سورج کی روشنی سے قایم ہے‘‘ ۔۶
نبیرۂ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری الازہری
طال العمرہ نے کیا خوب فرمایا کہ
پیروں کے آپ پیر ہیں یا غوث المدد
اہلِ صفا کے میر ہیں یا غوث المدد
اہلِ صفا نے پائی ہے تم سے رہِ صفا
سب تم سے مستنیر ہیں یا غوث المدد ۷
غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نوراﷲ مرقدہ کے اسی مقام و مرتبہ کو
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس طرح منظوم فرمایا
ہے کہ
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اُونچے اُونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سَر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
تو حُسینی حَسنی کیوں نہ محی الدّیں ہو
اے خضر مجمعِ بحرین ہے چشمہ تیرا
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اﷲ تیرا چاہنے والا تیرا
مصطفی کے تنِ بے سایہ کا سایہ دیکھا
جس نے دیکھا مری جاں جلوۂ زیبا تیرا
ابنِ زہرا کو مبارک ہو عروسِ قدرت
قادری پائیں تصدّق مرے دُولہا تیرا
تجھ سے در‘درسے سگ اورسگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اِس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا
میری قسمت کی قسم کھائیں سگانِ بغداد
ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا
تری عزت کے نثار اے میرے غیرت والے
آہ صد آہ کہ یوں خوار ہو بَردا تیرا
بد سہی‘ چور سہی‘ مجرم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
مجھ کو رسوا بھی اگر کوئی کہے گا تو یوہیں
کہ وہی نا‘ وہ رَضاؔ ‘ بندۂ رُسوا تیرا
ہیں رَضاؔ یوں نہ بلک تو نہیں جیّد تو نہ ہو
سیدِ جیّدِ ہر دہر ہے مولا تیرا
فخر آقا میں رَضاؔ اور بھی اِک نظم رفیع
چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرا تیرا ۸
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانی نوراﷲ مرقدہ کی کرامات و خوارق کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’سیدی مرشدی حضور غوث الا عظم رضی اﷲ عنہ کی وہ کر امتیں جو ہر وقت ظاہر
ہوتی رہتی تھی ان کا احاطہ وشمار قوت وبیان وتحریر سے باہر ہے اور یقین
فرمائیں کہ اس میں بناوٹ اور مبالغہ آرائی نہیں کیوں کہ آپ کی ذات اقد س
بچپن اور جوانی سے ہی مظہر کرامات ہے ، اور نوے سال تک جو آپ کی عمر ہے آپ
سے مسلسل کرامتوں کا ظہور ہوتارہا ہے ۔ آپ پیدائش کے بعد رمضان المبارک میں
دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیتے تھے ۔ حتیٰ کہ سب میں مشہور
ہوگیا کہ سادات کے فلاں گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں
دن کے وقت دودھ نہیں پیتا ۔
ایک مرتبہ لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ اﷲ کے
ولی ہیں ؟
آپ نے فرمایاکہ:’’ دس سال کی عمر تھی جب میں مدرسہ جاتا تو راستہ میں
فرشتوں کو اپنے ارد گر دچلتے ہوئے دیکھتا اور جب مدرسہ میں پہنچ جاتا تو
فرشتوں کو یہ بات بچوں سے کہتے ہوئے سنتا کہ اے بچو! اﷲ کے ولی کے لیے جگہ
کشادہ کرو۔ ایک روز مجھے ایک ایسا شخص دکھائی دیا جو پہلے کبھی نظرنہ آیا
تھا ، اس نے ایک فرشتہ سے پوچھا یہ بچہ کون ہے ؟جس کی تم اتنی تعظیم کررہے
ہو! فرشتے نے جواب دیا کہ یہ اﷲ کا ایک ولی ہے جس کا بہت بڑا مرتبہ ہوگا ۔
اس راہ میں یہ وہ شخص ہے کہ جسے بے حساب عطایا ،بے حجا ب تمکین واقتدار اور
بغیر حجت تقرب ملے گا۔ چالیس سال کے بعد میں نے پہچا نا کہ وہ شخص اپنے وقت
کے ابد ال میں تھا‘‘ ……حضرت غوث اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ:’’ میں چھوٹا
ساتھا ایک دن عرفہ کے دن شہر سے باہر آیا اور کھیتی باڑی کے ایک بیل کی دُم
پکڑ کر بھاگنے لگا ، بیل نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور کہا ، اے عبد القادر!
تجھے اس کا م کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، نہ اس کا حکم دیا ہے (میں گھبراتے
ہوئے) اپنے گھر واپس آیا اور مکان کی چھت پر پہنچ گیا تو وہاں سے لوگوں کو
میدان عرفات میں کھڑے ہوئے دیکھا ۔ بس میں اپنی والدہ کی خدمت میں آکر کہنے
لگا کہ مجھے تحصیل علم کی اور زیارت اولیاء کے لیے بغداد جانے کی اجازت دے
دیجیے‘‘…… حضرت غوث اعظم فرمایا کرتے تھے کہ:’’ جب بھی میں نے چھوٹے بچوں
کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کیا تو یہ آواز آتی کہ اے برکتوں والے! ہمارے پاس
آؤ ، یہ آواز سن کر خوف کی وجہ سے میں دوڑتا ہوا اپنی والدہ کی گود میں آکر
چھپ جاتا اور اب بھی اپنی خلو ت میں یہ آواز سنتا ہوں‘‘ …… حضرت شیخ علی
ہینی نے فرمایا ہے کہ:’’ میں نے اپنے زمانہ میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ
اﷲ علیہ سے زیادہ کرامت والا کوئی نہیں دیکھا۔ جس وقت جس کا دل چاہتا آپ کی
کرامت کا مشاہدہ کرلیتا اور کرامات کبھی آپ سے ظاہر ہوتیں کبھی آپ کے بارے
میں اور کبھی آپ کی وجہ سے‘‘ …… شیخ ابو مسعود احمد بن ابوبکر حزیمی ابو
عمر وعثمان صرنفی نے فرمایا کہ:’’ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ
کی کرامتیں اس ہار کی طرح ہیں جس میں جواہر تہہ بہ تہہ ہیں کہ ایک کے بعد
دوسرا ہے ۔ ہم میں سے جو بکثرت روزانہ آپ کی کرامتوں کو شمار کرنا چاہے تو
کرسکتاہے ‘‘…… شیخ شہا ب الدین سہر وردی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ:’’ شیخ
عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ بادشاہ طریقت اور موجودات میں تصرف کرنے
والے تھے ۔ اﷲ کی طرف سے آپ کو تصرف ِکرامات کا ہمیشہ اختیار حاصل رہا‘‘ ……
امام عبد اﷲ یافعی کا بیان ہے کہ:’’ آپ کی کرامتیں حد تو اتر تک پہنچ گئی
ہیں اور بالا تفاق سب کو اس کا علم ہے ۔ دنیا کے کسی بزرگ میں ایسی کرامتیں
نہیں پائی گئیں‘‘ ۔ ۹
پاکستان کے ممتازماہر تعلیم، محقق و مؤرخ،پر وفیسر ڈاکٹر محمد مسعوداحمد
علیہ الرحمۃ نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نوراﷲ مرقدہ کے فرمودات کے اسرار
و رموز کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’حضرت غو ث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ایک مر ید با صفانے ’’ جلا ء
الخواطر ‘‘ کے نام سے آپ کے خاص ملفوظات جمع کیے ہیں…… (یہ ملفوظات ۸۵۶؍بر
س پہلے ۹؍رجب المرجب ۵۴۶؍ہجر ی اور ۱۴؍رمضان المبا رک ۵۴۶؍ہجر ی کے درمیان
منعقد ہونے والی وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں لفظاً لفظاً قلم بند کیے گئے ۔
اس کے عربی متن کے قلمی نسخے کا عکس مکتبہ نبو یہ ،لا ہو رنے شائع کیا ہے
جو قابل مطا لعہ ہے ) یہ ملفوظات پڑ ھ رہاتھا ۔ حضرت غو ث اعظم رضی اﷲ عنہ
نے ان ملفوظات میں اﷲ کے محبوبوں کے فضائل وخصائل کا ذکر فرمایا ہے ۔۔۔۔ایک
ایک بول دل پر اثر کرنے والا ، ایک ایک بات من میں گھر کرنے والی…… چند
ملفوظات پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔یہ باتیں ایسی ہیں جو سنا نی چاہییں اور سننی
چاہییں،ا ن باتوں سے انسان بنتے اورسنورتے ہیں……حضرت غو ث اعظم رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
۱……مومن کے لیے ایک مخصوص نورہے جس سے وہ دیکھتا ہے ۔(جلا ء ا لخو اطر ، ص
:۱۱)
۲…… سرکی آنکھ دنیا میں مست رہتی ہے، دل کی آنکھ آخر ت میں مست رہتی ہے ،
سِرّاور روح کی آنکھ اﷲ تعالیٰ کی معیت میں مست رہتی ہے ۔(ایضاً ، ص :۹۴)
۳…… اپنے نفس کی آنکھ کھول اور اس سے کہہ کہ اپنے عز ت وجلا ل والے پر ور
دگا ر کو تو دیکھ‘ تجھے کیسے دیکھ رہا ہے ۔(ایضاً ،ص : ۷۴)
۴……شر م کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی خلو توں اور جلو توں میں اپنے عزت وجلال
والے پروردگار سے شرم کر و‘تا کہ خالق سے حیاء مخلوق کی حیاء کے تا بع
ہوجائے ۔
۵…… ہرمر ض کی دواتوجہ الی اﷲ اور دنیا کی محبت سے پیٹھ پھیر نے میں
ہے۔(ایضاً ۔،ص :۷۲)
۶…… زُہد اور دنیا سے بے رغبتی زاہد وں اورفر مانبر دار بندوں کے دل کا چین
ہے ۔(ایضاً ،ص: ۲۲)
۷…… اے اﷲ کے بندو !اپنی عا دت وخصلت کے خانوں سے نکلو ۔(ایضاً ، ص :۲۷)
۸…… مر ید توبہ کے سایہ میں قائم ر ہتا ہے مگر مر اد اﷲ کی عنا یت کے سایہ
میں قایم ہوتا ہے (ایضاً ، ص: ۳۰)‘‘۔ ۱۰
حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نوراﷲ مرقدہ آفتابِ شریعت،ماہتاب طریقت
اور شہ سوار اقلیم معر فت و حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ شعر وسخن کا بھی اعلیٰ
ذوق رکھتے تھے…… آپ کے عربی قصیدہ ’’ قصید ۂ لا میہ ‘‘ کو ’’قصیدۂ غوثیہ ‘‘
کے نام سے دنیائے اسلا م میں بڑی شہرت اور مقبو لیت عام حاصل ہے جس کا مطلع
و مقطع یہ ہے ۱۱ :……(مطلع)
سَقَانِی الْحُبُّ کَا سَاتِ الْوِصَالٖ
فَقُلْتُ لِخَمْرَ تِیْ نَحْوِیْ تَعَالٖ
جب کہ مقطع یہ ہے:
اَ نَا الْجِیْلِیْ مُحِیُّ الدِّ یْنِ اِسْمِیْ
وَ اَعْلَامِیْ عَلٰی رَاسِ الْجِبَالٖ
طریقت ومعر فت کی کتابوں میں ’’ قصیدۂ غوثیہ ‘‘ کو بہت اہمیت حاصل ہے ……
مولانا عبد البا قی فرنگی محلی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ :
’’قصیدۂ غوثیہ عالم کیف ووجد وسر ور کی ایک آواز ہے جس سے قلوب راحت محسوس
کرتے ہیں‘‘ ۔۱۲
اس قصیدۂ مبارک میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے اعلیٰ
وارغ مقامات ِروحانی کا تذکرہ کیا ہے اور یہ ذکر تحدیث ِنعمت کے طورپرکیاہے
کیونکہ ’’فتوح الغیب‘‘ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ
جب بھی ’’قصیدۂ غوثیہ‘‘ کے بعض اشعار پڑھتے تو آخر میں فرماتے تھے کہ :
’’ وَ لَا فَخَرْوَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَ بِّیْ ‘‘۔ ۱۳
مولانا سید بہاء الدین جیلانی ثم المدنی‘ جنہوں نے حضرت غوث اعظم شیخ عبد
القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب ’’غنیۃ الطالبین الیٰ طریق
الحق‘‘ پر جامع حاشیہ لکھا ہے‘ لکھتے ہیں کہ:
’’ جو سا لکا نِ طریقت معمولاً اس قصید ہ(قصیدۂ غوثیہ) کو سوچ سمجھ کر
پڑھتے ہیں اُن کے روحانی مراتب میں حیرت انگیز ترقی ہوتی ہے …… خوف وہر اس
کے مواقع پر یہ قصیدہ پڑھا جائے تو سکو نِ دل کی نعمت حاصل ہوتی ہے اور خوف
وہراس کے بادل بہت جلد دور ہو جاتے ہیں ‘‘۔۱۴
امام یافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کے علاوہ آپ کا ایک اور عربی قصید ہ ’’
قصیدۂ بائیہ ‘‘کے نام سے نقل کیا ہے ۱۵…… اگرچہ یہ ’’ قصیدۂ بائیہ ‘‘
……’’قصیدہ ٔلا میہ ‘‘کی طرح زبان زدِعام اور مشہور تو نہیں لیکن اس کی
فصاحت و بلاغت بتاتی ہے کہ بلا شبہ یہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ
علیہ ہی کا کلا م بلا غت نظام ہے کیونکہ اس میں بھی وہی امتیاز ی بلاغت
پائی جاتی ہے جو ’’ قصیدہ ٔلامیہ ‘‘ کی شان و جان ہے …… ’’قصیدۂ بائیہ ‘‘
کامطلع و مقطع یہ ہے ۱۶: ……(مطلع)
مَا فِی الصَّبَابَۃِ مَنْھَلٌ مُسْتَعْذَبُ
اِلاَّ وَلِیْ فِیْہِ الْاَ لَذُّ الْاَ طْیَبُ
جب کہ مقطع یہ ہے:
اَ فَلَتْ شُمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ وَ شَمْسُنَا
اَ بَدًا عَلٰی فَلَکِ الْعُلٰی لَا تَغْرَبُ
کتب ِسوانح میں فارسی کا بھی ایک دیوان آپ سے منسوب کیا جاتاہے ……چنانچہ
علامہ عبد الرحیم خان قادری اتر ولوی نے اپنی تصنیف ’’سیرت غوث اعظم ‘‘ میں
آپ کے فارسی دیوان کا ذکر کیا ہے ……۱۷
اگر یہ دیوان آپ کا نہ بھی ہوتو بھی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ
علیہ کی ادبی شاعری کی شان لطافت اور آپ کے پر مغز کلا م کی فصاحت اور اس
کا عرفان حاصل کرنے کے لیے ’’ قصیدۂ بائیہ ‘‘ اور ’’قصیدہ ٔلامیہ ‘‘ ہی
کافی و کامل ہیں ……جس سے آپ کے اعلیٰ ذوق سخن کا پتا چلتا ہے۔
پیش نظرمختصر مقالہ میں راقم نے ان دو قصائد کے صرف مطلع ومقطع پراکتفاکیا
ہے ، جوشائقین ِسخن پورے قصائدملاحظہ کرنا چاہیں وہ علامہ عبد الرحیم خان
قادری اتر ولوی کی کتاب ’’ سیرت غوث ا عظم ‘‘ ملا حظہ کریں……جنہیں یہ کتاب
دستیاب نہ ہوسکے وہ مادر علمی انسٹی ٹیوٹ اوف اسلامک ایجوکیشن کی رَضا
لائبریری ۵۔بی۔۲،نارتھ کراچی‘پاکستان سے رجوع کر کے عکس منگوا سکتے ہیں۔
٭٭٭
حواشی:
۱……(الف)امام حافظ ابن کثیر(م۔۷۷۴ھ)،البدایہ والنہایہ،بحوالہ:سیرت غوث
اعظم،از علامہ عبدالرحیم خان قادری اترولوی،مطبوعہ فیصل آباد،ص:۵۲
(ب)امام یافعی(م۔ ۷۶۸ھ)مراۃ الجنان و عبرۃ الیقطان،بحوالہ: ایضاً،ص:۵۲
۲…… علامہ عبدالرحیم خان قادری اترولوی،سیرت غوث اعظم، مطبوعہ فیصل
آباد،ص:۵۳
۳……(الف)امام حافظ ابن کثیر(م۔۷۷۴ھ)،البدایہ والنہایہ،بحوالہ:ایضاً،ص:۲۴۷
(ب)امام یافعی(م۔ ۷۶۸ھ)مراۃ الجنان و عبرۃ الیقطان،بحوالہ: ایضاً،ص:۲۴۷
۴……شیخ عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار،مترجم،مطبوعہ کراچی، ص:۴۱
۵……ایضاً، ص:۴۱
۶…… مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی، مکتوبات مجدد الف ثانی ،مطبوعہ
کوئٹہ، دفتر سوم، مکتوب:۱۲۳
۷……تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں الازہری، سفینہء بخشش، مطبوعہ کراچی
۱۴۳۱ھ / ۲۰۱۰ء ، ص:۱۵۶۔۱۵۷
۸……امام احمد رضاخاں محدث بریلوی،حدائق ِبخشش،حصہ اول،مطبوعہ لاہور،ص:۵
۹……شیخ عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار،مطبوعہ کراچی، ص:۴۳۔۴۵
۱۰……پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد،تقریظ بر کتاب انوارِمظہریہ،از مولانا
محمد یونس باڑی مظہری،مطبوعہ کراچی، ص:۳۰۔۳۱
۱۱…… علامہ عبدالرحیم خان قادری اترولوی،سیرت غوث اعظم، مطبوعہ فیصل
آباد،ص:۶۷،۷۴
۱۲……مولاناشاہ عبدالباقی فرنگی محلی،تذکرۃ الکرام،بحوالہ:ایضاً،ص:۶۵
۱۳…… علامہ عبدالرحیم خان قادری اترولوی،سیرت غوث اعظم، مطبوعہ فیصل
آباد،ص:۶۵
۱۴……مولاناسید بہاء الدین جیلانی ثم المدنی،حاشیہ بر غنیہ الطالبین الیٰ
طریق الحق،بحوالہ: ایضاًص:۶۵
۱۵…… علامہ عبدالرحیم خان قادری اترولوی،سیرت غوث اعظم، مطبوعہ فیصل
آباد،ص:۶۶۔۶۸
۱۶……ایضاً،ص:۶۶۔۶۸
۱۷……ایضاً،ص: ۶۴ |
|