پانامہ دستاویزات کی انکشافات نے یوں تو
ساری دُنیامیں تہلکہ مچادیا۔ کئی لوگوں کو اِن لیکس کے بعد اپنے عہدوں سے
ہاتھ دھونے پڑ گئے۔لیکن مملکتِ پاکستان میں اِس کے برعکس رائل فیملی سربراہ
سمیت اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔کرپشن پر ساتھ دینے والا بھی کرپٹ کہلاتا
ہے۔پانامہ پیپرز میں خُفیہ خزانوں کے انکشافات کے بعد ملک کے اندر کئی
مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کی خاطر ان کے کرتوتوں کو مکمل
تحفظ دینے کی بھر پور کوشش کی۔اس ضمن میں جے یو آئی (ف) نے جلسوں کا انعقاد
بھی کیا۔باقی جماعتوں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی مسلم لیگ کو
مخالفت اور مزاحمت پر چھوڑ دیا۔اس مزاحمت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے
رہنماؤں اور ورکرز میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔سڑکوں اور میدانِ عدالت میں
پارٹی کا ساتھ دینے والوں کو نوٹ کیا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ایشو
کو کیش کرنے کیلئے ۲۷ دسمبر سے شروع ہونے والے غیر اعلانیہ انتخابی مہم کو
عوام کی عدالت میں اُچالنے کا فیصلہ کیا ہے۔گو کہ پیپلز پارٹی میں قانون
اور سیاسی داؤ پیچ سمجھنے والے رہنما اعتزاز احسن نے عمران خان کو عدالت نہ
جانے کا مشورہ بھی دیا تھا۔چنانچہ اُن کو علم تھا۔کہ پاکستان کی عدالتوں سے
رائل خاندان کو کرپٹ ثابت کرنے کی توقع نہیں۔لیکن خان صاحب کرکٹ کی طرح
سیاست میں بھی جارحانہ کھیلتے ہیں ۔ دونوں سیاسی پارٹیوں کو یہ بھی یقین
ہے۔کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتاشریف خاندان سیاست سے نااہل ہو
جائے۔تو مرکز اور پنجاب سے اکثریت کا حصول مشکل نہیں۔سال ۲۰۱۷ کے شروعات سے
ہی سیاسی جلسوں اور پارٹیوں میں شمولیتی دعوت ناموں کا سلسلہ شروع ہو جائے
گا۔نیا سال سیاسی مہمات کا سال ہوگا۔پاکستان تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی
دونوں بڑی جماعتیں پانامہ لیکس کا معاملہ عوام کی عدالت میں اُٹھائیں گے۔اس
حوالے سے میڈیا پر بھی گرما گرم مباحثے اور تندو تیز بیانات چلیں گے۔پیپلز
پارٹی اپنے ناراض عہدیداروں اور کارکنوں کو منانے کی کوششیں کریں گے۔اگر
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لاتے ہیں۔تو اس کا براہِ راست
اثر پی ٹی آئی پر پڑے گا۔نئے سال میں بہت سے لوگ نئی پارٹیوں کے ساتھ
دکھائی دیں گے۔ پی ٹی آئی کو بھی بہت سے لوگ الوداع کہیں گے۔چنانچہ پی ٹی
آئی کے بہت سے ورکرز اور رہنما پانامہ لیکس کے مابعد فیصلوں سے خوش نہیں۔
دوسری بات یہ کہ سال ۲۰۱۷ میں اگر پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن نہیں
کرواتے۔تو پارٹی کے اندر بدنظمی اور پرانے نظریاتی کارکنوں کی بغاوت کا
خطرہ ہے۔اگر انٹرا پارٹی الیکشن ہو پاتی ہے۔تو اس صورت میں بہت سے موسمی
بٹیروں کے انتخابات سے پہلے پارٹی چھوڑنے کے امکانات ہیں۔
۵ سالہ دورِ حکومت گُزارنے کے بعد کوئی بھی جماعت اپنی ناکامیوں کا اقرار
نہیں کرتا۔ جتنے علاقوں کے دورے کیے ۔ترقیاتی پیکجز کے بڑے بڑے اعلانات کیے
گئے۔ تاحال عملی جامہ پہننے کے منتظر ہیں۔ہاں البتہ مسلم لیگ (ن) اپنے
انتخابی مہم میں دو بڑی کامیابیاں عوام کے سامنے رکھیں گے۔
۱۔ فاٹا اور کراچی جیسے شورش زدہ علاقوں اور پورے ملک میں امن کا قیام ۔
۲۔چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی راہداری کا معاہدہ۔
شاید ان دو کامیابیوں کے علاوہ اور بھی دعوے ہوں۔لیکن ممکنات یہ ہے کہ ان
دو کامیابیوں پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما مُکے لہرائیں گے۔
پیپلز پارٹی ، تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی پہلی ترجیح پنجاب کی
اکثریت حاصل کرنا ہوگی۔اس لحاظ سے پی پی پی اور پی ٹی آئی کی اگلے انتخابات
کی شفافیت پر اکتفا ہو سکتی ہے۔کیونکہ دونوں بڑی جماعتوں کو اندازہ ہے۔ کہ
انتخابات کی عدم شفافیت کی صورت میں پنجاب سے انتخابی دنگل جیتنا مشکل
ہوگا۔پی پی پی سندھ میں اپنی پرانی پوزیشن کی بحالی کیلئے جدوجہد کرے
گی۔وہاں ان کو ماضی سے مختلف متحدہ قومی مومنٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ساتھ
ہی مصطفیٰ کمال کی نئی پارٹی پاک سر زمین اور پاکستان تحریک ِ انصاف سے بھی
مقابلہ ہوگا۔یہ دونوں پارٹیاں اپنے پارٹی منشور کی بِنا پر مخالف پارٹی
کیلئے اتحاد بھی بنا سکتے ہیں ۔دوسرا ممکنہ اتحاد ایم کیو ایم پاکستان اور
مسلم لیگ فنکشنل کا بھی ہو سکتا ہے۔ماضی میں پیپلز پارٹی پر اقتدار کی باری
لینے کا قدغن لگ چکا ہے۔مخالف جماعتیں یہ دھبہ اپنا انتخابی نعرہ بنا سکتی
ہے۔کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات بھی سندھ میں لگیں گے۔ساتھ ہی ـ
’بلاول بچہ ہے‘ کا نعرہ لگنا بھی ممکن ہے۔
صوبہ بلوچستان میں گیم چینجر ، سی پیک کے ذریعے ترقیاتی کاموں کا جال
بِچھانے اور بلوچ لوگوں کو قومی دائرے میں لانے کیلئے منظور شُدہ پراجیکٹس
پر حکمران پا رٹیاں اپنی نصب شُدہ تختیوں کے بینرز اور پینافلیکس لگائیں
گے۔بلوچ لوگوں کو اگر حقِ انتخاب حاصل ہوتا ہے۔اور عام آدمی سرداروں کے خوف
سے آزاد ہو کر ووٹ ڈالیں۔ تونتائج کی تبدیلی ممکن ہے۔قومیتی جماعتوں کے
علاوہ تین بڑی جماعتوں ( پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی)کے ووٹ
بیلنس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے
نظریاتی ورکرز ہیں۔لیکن اصل ووٹ سرداروں اور وڈیروں کے ہاتھوں میں لوگوں
میں عدم شعور اور پسماندگی کی وجہ سے یرغمال ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں جے یو آئی ، اے این پی اور پی پی پی ۲۰۱۳ کے انتخابات
کی تلخ یادیں بھُلا کر صوبہ میں اپنی اکثریت لانے کیلئے پاکستان تحریکِ
انصاف اور جماعتِ اسلامی کا ۲۰۱۸ کے انتخابات میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیلئے
اپنی انتخابی مہم کی شروعات کرے گی۔ان مذکورہ پارٹیوں کے توپوں کا رُخ بنی
گالہ ہوگی۔کیونکہ ان ساری پارٹیوں کا ووٹ بیلنس گُذشتہ انتخابات میں پی ٹی
آئی نے کیش کیا تھا۔پی ٹی آئی نے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے نچلی سطح پر
جماعتی بنیادوں کو کچھ حد تک مستحکم تو کر دیا۔لیکن ناظمین اور نائب ناظمین
سمیت کونسلرز ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز کی راہ تھک رہے ہیں۔وہ بھی اپنی ہی
حکومت سے نالاں ہیں ۔بے روزگار نوجوانوں نے میرٹ کے نعرہ پر پی ٹی آئی کو
ووٹ دیا۔لیکن پچھلے ساڑھے تین سال کے دورِ حکومت میں این ٹی ایس کے نام پر
ان بچھاروں کو لوٹ لیا گیا۔اب زیادہ تر مایوس عوام اور نئی نسل انتخابی مہم
کے بائیکاٹ کا سوچ رہے ہیں۔ جو کہ سیاسی عمل کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ |