قائداعظم کے افکار کی روشنی میں ہماری اجتماعی ذمہ داری
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
ایوان صدرمیں ہائرایجوکیشن کمیشن کے
زیراہتمام قائداعظم سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے صدرمملکت ممنون حسین نے کہا
ہے کہ قائداعظم کی زندگی ہمیں فکروعمل کی یکجائی کاپیغام دیتی ہے۔قائداعظم
کی زندگی ہمیں فکروعمل کے ساتھ ساتھ قول وفعل کی مطابقت کادرس بھی دیتی
ہے۔قائداعظم کی زندگی میں کوئی تضادنہیں تھا۔قائداعظم کوبرصغیرمیں رہنے
والے مسلمانوں کی فکرتھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک ہوناچاہیے جہاں یہ
اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارسکیں اورامورمملکت چلاسکیں۔انہوں
نے اس فکرکوفکرتک ہی محدودنہ رکھا بلکہ انگریزوں اورہندؤں کی سخت مخالفت کے
باوجودایک الگ آزاد، خودمختیارملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔صدرمملکت
ممنون حسین کہتے ہیں کہ عزت نفس اورنظریاتی اساس پرثابت قدمی پرجمے رہنے نے
انہیں ہم عصروں میں ممتازبنادیا ہے۔یہ نظریاتی اساس اورعزت نفس پرثابت قدم
رہناقائداعظم کاہی خاصا تھا۔قائداعظم نے برصغیرکے مسلمانوں کو جو نظریاتی
اساس دی اس پرخودبھی قائم رہے۔تحریک پاکستان کے دوران ایک کانفرنس میں
قائداعظم سے سوال کیاگیا کہ برصغیرمیں مسلمان اورہندوسینکڑوں سالوں سے ایک
ساتھ رہ رہے ہیں۔ آپ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والوں کوتقسیم کررہے ہیں۔سوال
کرنے والاغیرمسلم تھا۔قائداعظم محمدعلی جناح نے پانی منگایا تھوڑاساپی
کرسوال کرنے والے سے کہا کہ بچاہواپانی تم پی جاؤ۔وہ کہنے لگامسلمان
کابچاہواپانی میں کیوں پی جاؤں اس نے وہ پانی پینے سے صاف انکارکردیا۔اس کے
بعدقائداعظم نے وہی پانی ایک مسلمان کودیا تووہ اسی وقت پی گیا۔اس قائداعظم
نے کہا کہ جب تم ہم مسلمانوں کابچاہواپانی ہی نہیں پیتے توہم اورتم ایک
ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں۔پاکستان بنانے کامقصدیہاں رہنے والے مسلمانوں کی عزت
نفس کی حفاظت بھی تھا۔قیام پاکستان سے پہلے برصغیرمیں مسلمانوں کی عزت نفس
بھی محفوظ نہیں تھی۔مختلف حربوں اورطریقوں سے مسلمانوں کی عزت نفس پرحملے
کیے جاتے تھے۔ نہ مسلمانوں کی عزت محفوظ تھی اورنہ ہی عزت نفس ۔نظریاتی
اساس اورعزت نفس کے حوالے سے موجودہ دورکی بات کی جائے توہماری کوئی
نظریاتی اساس ہے ہی نہیں۔ہم جب چاہیں اپنی نظریاتی اساس تبدیل کردیتے
ہیں۔نہ توہماراسیاسی نظریہ ایک رہتا ہے اورنہ ہی سماجی اورمعاشی نظریہ۔ایک
دن ہم کسی کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں اوردوسرے دن اسی کے خلاف۔ہم مطالبہ
بھی خودکرتے ہیں اورمستردبھی خودکرتے ہیں۔رہی بات عزت نفس کی تووہ اب
بااثرافرادکے پاس ہی رہ گئی۔ غریب اورمزدورطبقے اورآئمۃ المساجدکاعزت نفس
سے دوردورکاواسطہ بھی نہیں۔بااثرافرادمیں سے کسی کی عزت نفس پرزندگی میں
ایک یا چندچندبارتھوڑی سی بات ہوجائے توہنگامہ کھڑاہوجاتاہے۔اس عزت نفس کی
تذلیل کابدلہ لینے کے لیے کیاکچھ نہیں کیاجاتا ۔دوسری جانب غریب کی عزت نفس
پریہی بااثرافرادروزانہ حملے کرتے ہیں اورایساکرناوہ اپناحق بھی سمجھتے ہیں۔
روزانہ دفتروں، دکانوں، بازاروں، ہوٹلوں، مارکیٹوں ،ورکشاپوں اور بہت سی
جگہوں کتنے ہی ایسے انسان رہتے ہیں جن کی عزت نفس پرروزانہ کئی کئی بارحملے
ہوتے ہیں ۔اپنی اس روزانہ کی تذلیل کابدلہ تودورکی بات معاشی مسائل سے
دوچاروہ غریب بے چارے زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔ایک ہماری قومی
عزت نفس بھی ہے ۔ہماری اس قومی عزت نفس پربھی کئی بارحملے ہوچکے ہیں۔جب
عالمی مالیاتی اداروں سے ہم قرض دینے کی درخواستیں کرتے ہیں تواس وقت ہماری
عزت نفس کی کیاکیفیت ہوتی ہے یاہمارے ارباب اقتدارجب قرض یاامدادلینے جاتے
ہیں توکیاوہ اپنی اورقوم کی عزت نفس ایئرپورٹ پرچھوڑ جاتے ہیں۔ہماری عزت
نفس غیروں کے ہاتھ میں ہے ۔بیرون ملک پاکستانیوں سے جوسلوک روارکھاجاتا ہے
وہ کون نہیں جانتا۔ابھی حال ہی میں ایک قومی اخبارمیں ایک چھوٹی سی لیکن
ہمارے قومی ضمیراورعزت نفس کوجھنجھوڑنے والی ایک خبرشائع ہوئی۔جس کے مطابق
ہماری ایک سیاسی پارٹی کے سرکردہ راہنماکی بیرون ملک جوتے اتارکرتلاشی لی
گئی ۔ کب تک ہم پاکستانیوں کی اس طرح تذلیل ہوتی رہے گی۔موجودہ حکومت نے
اپنی قومی عزت نفس کی بحالی کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ان اقدامات میں سے
ایک اقدام یہ بھی ہے کہ سفری دستاویزات کے بغیربیرون ملک سے آنے والوں کوڈی
پورٹ کردیاجاتا ہے اوردنیاسے کہاگیا ہے کہ بغیرتصدیق اور ٹھوس ثبوت کے کسی
بھی پاکستانی پرکسی بھی دہشت گردانہ حملے یادیگرکسی بھی واردات میں ملوث
ہونے کاالزام نہ لگایا جائے۔ یہ ڈرون حملے بھی ہماری قومی عزت نفس پرحملوں
کے مترادف ہیں۔آئے روزپاکستان سے ڈومورکے تقاضے بھی ہماری قومی عزت نفس
پرحملہ ہیں۔ صدرمملکت ممنون حسین کاکہنا ہے کہ قائداعظم کے ان افکارکی
ہمیںآج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی پاکستان بنتے وقت تھی۔سچ تویہ ہے کہ
قائداعظم کے صرف مندرجہ بالاان افکارکی ہی نہیں تمام افکارکی آج ہمیں
پاکستان بنتے وقت سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ہم نے قائداعظم کے افکارکوفراموش
ہی کردیا ہے۔ہم نہ توقائداعظم کے افکار پر عمل کرتے ہیں اورنہ فرمان پر۔صرف
ہماری سیاسی قیادت ہی قائداعظم کے افکاروفرمان پرعمل کرنے کوترجیح دینے لگ
جائے توقوم بھی پیچھے نہیں رہے گی ۔ صدرممنون حسین نے قائداعظم سیمینارسے
خطاب کرتے ہوئے موجودہ حالات کے تناظرمیں کہا کہ ایک طویل سفرکے بعدپاکستان
کے دروازے پرروشن مستقبل دستک دے رہا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری
ہے کہ ہرقسم کی مصلحتوں اورشکوک وشبہات کوبالائے طاق رکھ کرقوم کاہرفردخاص
طور پر نوجوان سرگرم عمل ہوجائیں تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری سمیت
دیگرتمام قسم کے مواقع سے بھرپورفائدہ اٹھایاجاسکے۔صدرممنون حسین نے بہت ہی
اچھی بات کہی ہے۔انہوں نے ہرقسم کی مصلحتوں اورشکوک وشبہات کوبالائے طاق
رکھنے کاکہا ہے۔یہ مصلحتیں سیاسی بھی ہوتی ہیں ،ذاتی اورکاروباری بھی ۔ ان
مصلحتوں کی وجہ سے ہی ہمارابہت سانقصان ہوچکا ہے۔یہ سیاسی مصلحتیں ہی ہیں
جوکالاباغ ڈیم نہیں بننے دیتیں۔اقتصادی راہداری، کالاباغ ڈیم سمیت قومی
مفاداورنوعیت کے تمام منصوبوں کے بارے میں ہم اپنی ہرقسم کی مصلحتوں
کوبالائے طاق رکھ دیں توجلدہی پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل
ہوجائے گا۔مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تمام مصلحتوں اورشکوک شبہات
کوخیربادکہناضروری ہے۔ایک اورالمیہ یہ بھی ہے کہ اکثراوقات ہم مواقع کا
استعمال بھی ہم اپنی سیاسی اورذاتی ضرورتوں کے مطابق کرتے ہیں۔ان مواقع
کااستعمال قومی ضرورتوں اورفائدوں کودیکھتے ہوئے کیاجائے توملک میں ترقی کی
رفتاراوربھی تیزہوجائے۔ممنون حسین کاکہنا ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ
ہوں ہمیں مسائل کی کثرت سے گھبراکرکبھی اپناراستہ نہیں بدلنا چاہیے ۔بلکہ
یکسوئی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گامزن رہناچاہیے۔حالات کامقابلہ کرنے
والی قومیں ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔پاکستانی قوم بھی حالات کامقابلہ
جواں مردی سے کرتی ہے۔حالات چاہے جیسے بھی ہوں پاکستانی قوم نہ توکبھی
گھبرائی ہے اورنہ ہی کبھی شکست تسلیم کی ہے۔ممنون حسین نے ثابت قدم رہنے
کامشورہ بھی دیاہے۔حالات کامقابلہ ثابت قدم رہ کرہی کیاجاسکتاہے۔یہ بات
قیادت کے بنیادی اوراہم اوصاف میں بھی شامل ہے کہ مسائل کی کثرت اسے پریشان
نہیں کرسکتی اوریکسوئی کے ساتھ اس کاسفرمنزل کے حصول تک جاری رہتا
ہے۔سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے صدرمملکت نے کہا کہ کسی سیاسی قائدکے کردارکی
سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کرتے ہوئے خودپرکیے جانے والے
اعتمادپربہرصورت پورا اترے ۔ صدر ممنون حسین کی طرف سے بتائے گئے اس وصف
کوسامنے رکھتے ہوئے قارئین یہ تجزیہ خودہی کریں کہ ہماری تمام سیاسی قیادت
میں سے کتنے سیاستدان ایسے ہیں جواس وصف پرپورااترتے ہیں اورکتنے سیاستدان
ایسے ہیں جن میں یہ وصف پایاہی نہیں جاتا۔کتنے ایسے سیاستدان ہیں
جواقتدارمیں آنے کے بعد قومی ، سیاسی، سماجی اورمعاشی امانتوں کی حفاظت
کرتے ہیں اورکتنے ایسے سیاستدان ہیں جواپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان امانتوں
کاخیال رکھتے ہیں ۔ صدر مملکت کہتے ہیں کہ قائداعظم کی یہی خوبی تھی جس کے
سبب ان کے مخالفین بھی تسلیم کرنے پرمجبورتھے کہ وہ ہمیشہ درست بات کہتے
ہیں اوربڑے سے بڑے فائدے کے لیے بھی اصولوں پرکبھی سمجھوتہ نہیں کرتے
تھے۔اپنے اصولوں پرقائم رہنا اورسمجھوتہ نہ کرناسیاسی قیادت کااہم وصف
ہے۔آج کی بات کی جائے جواصولوں پرقائم رہے اس پربھی تنقیدہوتی ہے
اورجوسمجھوتہ کرلے اس کوبھی معا ف نہیں کیا جاتا۔جواپنی بات قائم رہے اسے
ضدکاپکاکہاجاتا ہے۔اسے مشوروں کونظراندازکرنے ،تنہافیصلے کرنے اوراڑے رہنے
والاکہاجاتا ہے اورجواصولوں سے انحراف کرلے تواسے غیرمستقل کہاجانے لگتا ہے
لیکن جوواقعی قیادت ہوتی ہے وہ ایسی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتی
اوراپناسفرمنزل کی جانب جاری رکھتی ہے۔ہماری سیاسی قیادت قائداعظم کے اس
وصف کواپنالے توآج بھی دنیایہ تسلیم کرنے پرمجبورہوجائے گی کہ پاکستانی قوم
کوشکست نہیں دی جاسکتی۔صدرمملکت کہتے ہیں کہ ماضی کے بعض ادوارمیں قومی
وسائل کابے دریغ استعمال کیاگیاجس کے سبب ملک معاشی ناہمواری،بے روزگاری،
محدودقومی وسائل اورعوام میں بے چینی پیداہوئی جس کے اثرات بیشترطبقات میں
نظرآتے ہیں۔قومی وسائل کابے دریغ استعمال کرنے والوں سے بازپرس ضرورہونی
چاہیے چاہے ان کاتعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔یوں توملک میں احتساب کرنے
والے اورتفتیش وتحقیق کرنے والے ادارے موجودہیں اس کے باوجودقومی وسائل
کابے دریغ استعمال ایک سوالیہ نشان ہے۔ہمیں ایسانظام لاناہوگا کہ قومی
وسائل کابے دریغ استعمال ہونے ہی نہ دیاجائے۔قومی وسائل کے درست اوربروقت
استعمال سے ہی ہم ترقی کی منازل تیزی سے طے کرسکتے ہیں۔قومی وسائل کی
کیااہمیت ہے یہ سکولوں اورکالجوں کی درسی کتب میں بھی پڑھایاجائے اورساتھ
یہ بھی پڑھایاجائے کہ قومی وسائل کے بے دریغ اوربے جااستعمال سے ملک ،قوم
اورمعیشت کاکتنانقصان ہوتا ہے اورقومی وسائل کے بروقت اوردرست استعمال سے
کیافوائدحاصل ہوتے ہیں۔ ممنون حسین کاکہنا ہے کہ اب ہمیں ان مسائل کوشکست
دے کرقوموں کی برادری میں سراٹھاکرجیناہے توہمیں اپنے بزرگوں ا ورقائداعظم
کے افکارسے روشنی حاصل کرنی ہوگی۔جن کی قیادت نے اس وطن کاحصول ممکن
بنایا۔ممنون حسین یہ بات درست ہی کہتے ہیں۔صدرمملکت نے کہاکہ ہمارامعاشرہ
عمومی طور پر اخلاقی بحران کاشکارہے۔لوگوں نے اجتماعی ذمہ داریوں سے کنارہ
کشی اختیارکرکے انفرادی طرزعمل اپنارکھا ہے۔اجتماعی ذمہ داری سرکاری افسران
اور سیاستدانوں پرہی عائدہوتی ہے۔ہم صرف اخلاقی ہی نہیں سیاسی اورقیادت کے
بحران کابھی شکارہیں۔ممنون حسین کاکہنا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے کہ
اجتماعی سوچ اپنائی جائے اوریکجائی کے ساتھ آگے بڑھاجائے۔ یہی بات وزیراعلیٰ
پنجاب شہبازشریف بھی کئی بارکہہ چکے ہیں کہ ہمیں میں کی روش چھوڑ کرہم کی
روش اپنانی ہوگی۔قائداعظم نے ہمیشہ قومی دولت کوامانت سمجھ کرخرچ کیا۔اگریہ
لائحہ عمل آج حکومتی ادارے اورہم سب اپنالیں توہمارے بہت سارے مسائل
خودبخودحل ہوسکتے ہیں ۔صدرمملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں
رکاوٹ بننے والوں کوبے نقاب کیاجائے۔کیونکہ یہ ملکی ترقی کے ہی نہیں ہمارے
بھی دشمن ہیں۔تمام سیاسی قائدین سیاسی مفادات سے بالاترہوکربچوں ا
ورنوجوانوں کے مستقبل اورپاکستان کی ترقی کی طرف توجہ دیں۔ صدر ممنون حسین
کہتے ہیں کہ نوجوان ہماراقومی اثاثہ ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ پاکستان اوراس
کے مستقبل کے بارے میں اندرونی وبیرونی سطح پرکیے جانے والے پراپیگنڈے سے
متاثرہوئے بغیرملک وقوم کی ترقی اورسربلندی کے لیے پوری محنت سے تعلیم
کاحصول جاری رکھیں۔میراایمان ہے کہ پاکستان کامستقبل تابناک ہے اورہمارے
بچے قائداعظم کی اس امانت کی پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ حفاظت کریں گے
اوراسے بابائے قوم کے خوابوں کی تعبیربنانے کے لیے اپنی تمام ترصلاحیتوں کے
ساتھ کام کرتے رہیں گے۔
ایوان صدرمیں قائداعظم سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے صدرمملکت ممنون حسین نے جن
مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے اورقائداعظم کے جن افکار و نظریات سے سمینارکے
شرکاء اورقوم کویاددہانی کرائی ہے ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس
افکارونظریات اورمسائل کوسامنے رکھتے ہوئے اپنے اجتماعی اور انفرادی
کردارکاجائزہ لیں اوریوم قائداعظم مناتے ہوئے ہم یہ عہدکریں کہ آج سے ہی ہم
قائداعظم محمدعلی جناح کے افکار،نظریات اورفرمودات کی روشنی میں ملک کانظام
چلائیں گے اوراس سلسلے میں کسی قسم کی مصلحتوں،رکاوٹوں، رنجشوں اورمفادات
کوآڑے نہیں آنے دیں گے۔
|
|