ملکہ ترنم نورجہا ں کی یاد میں !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
پاکستان کی قابل فخر گلوگارہ ملکہ ترنم نورجہاں کی 16 ویں برسی پر خصوصی تحریر
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو ۔۔۔۔۔ !
بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ
جنہوں نے گلوکاری اور اداکاری کی فیلڈ میں نمایاں مقام حاصل کیا ! |
|
پاکستان کی سرزمین فنکاروں کے لحاظ سے بھی
بڑی زرخیز واقع ہوئی ہے یہاں پیدا ہونے والے فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کی
وجہ سے دنیا بھر میں اپنا نام اور مقام بنایا ۔بولی ووڈ کی طرح لولی ووڈ
میں بھی باصلاحیت فنکاروں کی کوئی کمی نہیں ہر دور میں یہاں بڑے بڑے نامور
فنکاروں اور گلوکاروں نے جنم لیا ۔لولی ووڈ میں بہت کم ایسے فنکار تھے
جنہوں نے گلوکاری اور اداکاری کے میدان میں یکساں شہرت حاصل کی ،ایسے
فنکاروں میں ملکہ ترنم نورجہاں،اداکار رنگیلا،ندیم اور اظہار قاضی کے نام
سر فہرست لیئے جاسکتے ہیں ان فنکاروں میں ایک بات قدر مشترک یہ بھی ہے کہا
ن سب نے اپنے کیرئیر کے آغاز سے ہی گلوکاری اور اداکاری شروع کردی تھی۔
پاکستان کی قابل فخر گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کا نام کسی تعارف کا محتاج
نہیں انہوں نے گلوکاری اور اداکاری کے میدان میں بہت نام اورمقام پیدا کیا،
ملکہ ترنم نورجہاں نے مشہور زمانہ بھارتی فلم ’’جگنو‘‘ میں دلیپ کمار کے
مقابل ہیروئن کا کردار اداکیا اور اس فلم میں گلوکاری بھی کی، قیام پاکستان
کے بعدبھی نورجہاں نے اداکاری اور گلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستانی
فلموں میں نامور اداکاروں کے ہمراہ کامیاب فلموں میں ہیروئن کے کردار
اداکیے جن میں سے بعض فلموں میں انہوں نے گلوکاری بھی کی لیکن پاکستان میں
ان کو اداکاری سے زیادہ گلوکاری کے میدان میں شہر ت اور کامیابی ملی۔
برصغیر کی سب سے بڑی گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں نے21 ستمبر1926 کوپاکستانی
شہر’’ قصور ‘‘کے گاؤں’’کوٹ مراد‘‘میں ایک گانے بجانے والی فیملی میں مددعلی
اوراور فتح بیگم کے گھر جنم لیا جس کا نام ماں باپ نے’’اﷲ وسائی‘‘ رکھالیکن
کسے معلوم تھا کہ ایک عام غریب گھرانے میں پیدا ہونے والی یہ بچی اپنے
خاندان کے لیئے خوش قسمت ثابت ہوگی اور ایک دن پوری دنیا میں’’نورجہاں ‘‘
کے نام سے مشہور ہوکر ’’ملکہ ترنم ‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل کرے گی۔اﷲ وسائی
المعروف نورجہاں صرف 5 سال کی عمر سے ہی اپنی خوش الحانی کی وجہ سے لوگوں
میں مقبول ہوگئی۔اﷲ وسائی کو’’نورجہاں ‘‘ کانام آغا حشر کاشمیری کی شریک
حیات اورنامور گلوکارہ فریدہ خانم کی بڑی بہن، اداکارہ و گلوکارہ ’’مختار
بیگم ‘‘ نے دیا جو اﷲ وسائی کے لیئے بہت ہی مبارک ثابت ہوا اور آگے چل کر
یہی نام دنیا بھر میں اس کی شناخت کا ذریعہ بن گیا اور وہ جب تک زندہ رہی
اس جہاں میں ایک نور کی طرح جگمگا تی رہی۔نورجہاں نے موسیقی کی ابتدائی
تعلیم استاد غلام محمد سے حاصل کی اور صرف9 سال کی عمر میں انہوں نے پنجابی
فلموں کے عظیم موسیقار جی اے چشتی کے ترتیب دیئے ہوئے چندلوک گیت،غزلیں
اورنعتیں پڑھ کرلاہور کے اسٹیج پربے حدمقبولیت اور کامیابی حاصل کی اس
زمانے میں بے بی نورجہاں ایک گیت گانے کے ساڑھے سات آنے معاوضہ لیا کرتی
تھی۔نورجہاں کی سریلی آواز کا چرچہ بہت جلدبھارت تک جاپہنچا اور نورجہاں کو
بھارتی شہر کلکتہ بلالیا گیاجہاں پہنچنے کے بعد 1935 میں نورجہاں نے اپنی
بہن عیدن بائی کے ساتھ ایک پنجابی فلم’’پنڈدی کڑی‘‘میں ’’بے بی نورجہاں‘‘
کے نام سے گلوکاری کے ساتھ اداکاری بھی کی۔لیکن نورجہاں کو اصل شہرت1939
میں ریلیز ہونے والی فلم’’گل بکاؤلی‘‘کے مشہور گیت’’شالاجوانیاں
مائیں۔۔۔آکھانہ موڑیں پی لے‘‘سے ملی۔اس گیت کی دھن ماسٹر غلام حیدر نے
بنائی تھی یہ فلم لاہور میں مکمل کی گئی تھی اور اس فلم کا شمار نورجہاں کے
ابتدائی دور کی مشہورر فلموں میں ہوتا ہے۔1942 کو لاہور میں بننے والی
فلم’’خاندان‘‘نورجہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم تھی، اس فلم سے قبل بھی
نورجہاں نے چند فلموں میں کام کیا لیکن ان میں وہ ایک چائیلڈ اسٹار کے طور
پر شامل تھیں۔نورجہاں کی بطور ہیروئن پہلی فلم ’’خاندان‘‘ کی شاندار
کامیابی نے نورجہاں کو اسٹار بنادیااس فلم کے ہدایتکار سید شوکت حسین رضوی
تھے جبکہ بھارتی فلموں کے مشہور ولن ’’پران‘‘ اس فلم کے ہیرو تھے۔نامور
موسیقار ماسٹرغلام حیدر کی موسیقی میں نورجہاں کے گیتوں نے دھوم مچادی اور
نورجہاں بمبئی فلم انڈسٹری کے فلمسازوں کی نظروں میں آگئی جس کے بعد ان
کوبمبئی میں بننے والی بہت سی فلموں میں نامور فلمی ہیروز کے ساتھ ہیروئن
کے طور پرکاسٹ کیا گیا جن میں فلم’’انمول گھڑی،زینت اور جگنو بہت زیادہ
کامیاب رہیں۔فلم زینت میں نورجہاں نے صرف 9 1 سال کی عمر میں ینگ ٹواولڈ
کردار اداکیا اور عمدہ اداکاری کرنے پر بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی حاصل
کیااور اس فلم میں پہلی بار ایک قوالی عورتوں کی آواز میں شامل کی گئی جسے
نورجہاں،شمشاد بیگم اورزہرہ بائی انبالے والی نے گائی نسوانی آواز میں گائی
گئی قوالی نے بھی اس فلم کی کامیابی میں اہم کردار اداکیا۔پاکستان بننے کے
بعدملکہ ترنم نورجہاں اپنے شوہرسید شوکت حسین رضوی اور بچوں کے ہمراہ بمبئی
سے کراچی چلی آئیں۔
پاکستان کی مقبول اور کامیاب ترین گلوکاراؤں میں نورجہاں کا شمار ہوتا تھا
،اردو فلمیں ہوں یا پنجابی انہیں بطور گلوکارہ دونوں زبانوں کی فلموں میں
یکساں طور پرپسند کیا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ ہر دوسری پاکستانی فلم میں
نورجہاں کے گائے ہوئے فلمی نغمے شامل ہوتے تھے جو ان فلموں کی کامیابی میں
اہم ترین کردار ادا کیا کرتے تھے ۔پاکستان کے چار بڑے سپر اسٹارز
،وحیدمراد،محمدعلی ،ندیم اور سلطان راہی کی بیشتر فلمیں نورجہاں کے گائے
ہوئے گیتوں سے سجی ہوئی ہوتی تھیں،پاکستان کے مقبول ترین فلمی ہیرو اداکار
وحیدمراد مرحوم کی بھی کئی نغمہ بار فلموں میں نورجہاں کی آواز نے ایسا رنگ
جمایا کہ وہ گیت آج بھی روز اول کی طرح پسند کیئے جاتے ہیں،خاص طو ر پرفلم
’ناگ منی ‘، مستانہ ماہی جیسی کامیاب اور ایورگرین فلموں کے سپر ہٹ گانوں
کو کون بھلا سکتا ہے جبکہ نورجہاں کو قومی نغمے گانے کے حوالے سے بھی خصوصی
پہچان حاصل رہی خاص طور پر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ان کا گایا ہوا
قومی نغمہ ــ ـــ’’ اے وطن کے سجیلے جوانو،میرے نغمے تمہارے لیئے ہیں‘‘ ایک
ایسا سدا بہار ولولہ انگیز قومی نغمہ ہے جس نے نہ صرف65 کی جنگ میں سرحد پر
موجود فوجی جوانوں کے حوصلے بڑھانے میں نہایت اہم کردار ادا کیابلکہ آج بھی
حب الوطنی کے جذبات جگانے کے لیئے اس قومی نغمے کو 14 اگست اور 6 ستمبر کے
یادگار قومی دنوں کے موقع پربہت زور وشور کے ساتھ سنا جاتا ہے اس کے علاوہ
بھی نورجہاں کے گائے ہوئے اکثرفلمی اور قومی نغمے آج بھی زبان زد عام ہیں
اور نہایت ذوق و شو ق سے سنے اور دیکھے جاتے ہیں۔ریڈیو ،ٹی وی اور فلم ہر
جگہ نورجہاں کے گیتوں نے کئی عشروں تک دھوم مچائے رکھی ،یہی وجہ ہے کہ نہ
صرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی نورجہاں کی گائیگی کے بے شمار قدر دان
موجود ہیں۔
23 دسمبر2000 بمطابق26 رمضان المبارک 1421 ہجری کی شب پاکستان فلم انڈسٹری
کی سب سے مشہور اور کامیاب گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں اس دارفانی سے کوچ
کرگئیں،ان کی تدفین ڈیفنس کراچی کے قبرستان میں کی گئی جس میں ان کے مداحوں
،عام لوگوں اور فنکاروں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ۔وہ نہ صرف ایک بہترین
گلوکارہ بلکہ بہت اچھی اداکارہ بھی تھیں، انہوں نے کئی پاکستانی اور چند
انڈین فلموں میں بیک وقت گلوکاری اور اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں برصغیر
کے مقبول فنکار دلیپ کمار کے ہمراہ شہرہ آفاق فلم ’’ جگنو‘‘ بھی شامل
ہے۔پاکستان کی بین الااقوامی شہر ت یافتہ گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کو یہ
منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر
بڑھاپے تک نہ صرف مسلسل اپنے فن کا مظاہر ہ جاری رکھا بلکہ وہ سات عشروں تک
مقبولیت اور کامیابی کے بھی اعلیٰ مقام پر فائز رہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مرنے
کے بعد بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں۔
آج ایک بار پھردسمبر کا مہینہ ملکہ ترنم نورجہاں کی یاد لے کر آیا
ہے،پاکستان کی سب سے بڑی گلوکارہ نورجہاں جن کا نام کبھی لولی ووڈ کی فلموں
کی کامیابی کا ضامن ہوا کرتا تھاگوکہ آج منوں مٹی تلے دفن ہیں لیکن ان کے
گائے ہوئے گیت اور نغمے ہمیں آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں اور ان کانام ان
کے دنیا بھر میں موجود لاکھوں مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے ، فنکار سچا اور
اچھا ہو تو وہ اپنے فن کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملکہ
ترنم نورجہاں کوآج تک فراموش نہیں کیا جاسکا،ان کے مداح آج ان کی 16 ویں
برسی پوری عقیدت واحترام کے ساتھ منارہے ہیں اس موقع پر مرحومہ کے لیئے
دعائے مغفرت کرتے ہوئے راقم ان کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتا ہے، امید ہے
کہ نورجہاں مرحومہ کے اہل خانہ اور دنیا بھر میں موجود ان کے مداحوں کو
پسند آئے گا۔
ملکہ ترنم نورجہاں کو منظوم خراج عقیدت
وہ تھی نورجہاں
شاعر:فریداشرف غازی
جو تھی سب سے الگ اور سب سے جدا
وہ تھی نورجہاں
جس کے گیتوں کا تھا کچھ الگ ہی مزہ
وہ تھی نورجہاں
جس کے چہرے پہ نور کا ہالا تھا
جس کاسارا جہاں متوالا تھا
وہ تھی نورجہاں
جسے موت ملی تو وہ بھی رمضان کی
خواہش ہوتی ہے جو ہرمسلمان کی
وہ تھی نورجہاں
جسے چاہتا تھا یہ سارا جہاں
خدا بھی ہوا جس پر مہربان
وہ تھی نورجہاں
آخر میں دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نورجہاں مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ
عطافرمائے (آمین)۔ |
|