حکومت اور نظام سے عوامی اعتمادکا اٹھ جانا
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
پرویز مشرف کے ان انکشافات نے ملک کے تینوں بڑے اور اہم ترین اداروں کے طریقہ کار اور کردار سے متعلق کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔تاہم اس کا ایک مختلف پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور فوج ہی نہیں عدلیہ بھی ان کے ساتھ ا'' ایک پیج'' پر ہے۔اب یہ لازم بات ہے کہ جب حکومت ،فوج اور عدلیہ '' ایک پیج '' پر ہوں تو اس ''پیج'' میں عوام کے لئے جگہ باقی کہاں رہ سکتی ہے۔ |
|
پاکستان کے سابق آمر حکمران ریٹائرڈ جنرل
پرویز مشرف کے حالیہ بیان میں کئے گئے انکشافات کی حکومت کی طرف سے تردید
کی جا رہی ہے ۔لیکن یہ تردید ایسی ہی ہے کہ جس طرح حکومت خود کو مکمل طور
پر بااختیار ثابت کرنے کے لئے پہلے بھی اس طرح کے تردیدی بیانات جاری کرتی
رہی ہے۔پرویز مشرف کے ان انکشافات نے ملک کے تینوں بڑے اور اہم ترین اداروں
کے طریقہ کار اور کردار سے متعلق کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔تاہم اس کا
ایک مختلف پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور فوج
ہی نہیں عدلیہ بھی ان کے ساتھ ا'' ایک پیج'' پر ہے۔اب یہ لازم بات ہے کہ جب
حکومت ،فوج اور عدلیہ '' ایک پیج '' پر ہوں تو اس ''پیج'' میں عوام کے لئے
جگہ باقی کہاں رہ سکتی ہے۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں
حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے
لئے آزاد کشمیر میں ''گڈ گورنینس'' بہت ضروری ہے۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر
ا س سے پہلے کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آزاد کشمیر میں سرکاری نظام
جتنا بگڑ چکا ہے،اس کو راہ راست پہ لانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔آزاد کشمیر
میں بدعنوانی،اقرباء پروری،قبیلائی و علاقائی ازم اور سیاسی کمزوری سے
سیاسی و سماجی روئیوں کے علاوہ سرکاری شعبہ بھی اتنا متاثر ہو چکا ہے کہ اب
اس میں اصلاح کا عمل بھی دشوار،ناممکن دکھائی دیتا ہے۔آزاد کشمیر میں
سرکاری،حکومتی سطح پر بہتری کا عمل شروع کرنے کے لئے لازم ہے کہ آزاد کشمیر
حکومت کی حیثیت و کردار کا تعین کرتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت اور خطے میں
پائے جانے والے بنیادی نوعیت کے تضادات کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔آزاد
کشمیر حکومت اور خطے کو ''آدھا تیتر،آدھا بٹیر'' کی طرز پر رکھنے سے نہ تو
کشمیر کاز کا کوئی بھلا ہوا ہے اور نا ہی آزاد خطے کے مجبور عوام کو درپیش
مسائل کے خاتمے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات اور
کردار کے تعین کے حوالے سے پائی جانے والی بے اعتمادی کے اظہار اور غیر
یقینی کی صورتحال سے آزاد کشمیر میں منفی رجحانات کو ترغیب مل رہی ہے۔
یہی بات اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھی جائے تو پاکستان میں شہریوں کا
حکومت تو ایک طرف ،ملکی نظام سے ہی اعتماد اٹھتا محسوس ہوتا ہے۔عوام کو اس
احساس سے محروم کر دیا گیا ہے کہ وہ آزاد ملک کے آزاد اور باوقار شہری
ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ''جنگ'' کے لئے متعلقہ محکموں ،اداروں
کی استعداد کار کی بہتری کے انتظامات کو تو یقینی بنایا گیا ہے لیکن شہریوں
کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سرکاری محکموں ،اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے
میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ملک میں واضح طور پر چند طاقتور،باختیار اور
دولت مند طبقات کی بالادستی اور شہریوں کو کسی مفتوح علاقے کے لوگوں کی طرح
برتا جاتا ہے۔عوامی امنگوں کی ترجمان سیاسی جماعتوں کو
خاندانی،شخصی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں کی شکل دے دی گئی ہے۔یہ سیاسی
گروپ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے تو بلند کرتی رہتی ہیں لیکن عملا
پارلیمنٹ کی بالادستی کے فیصلوں کی اہلیت و جرات کے بجائے محض '' بار
گینگ'' کرنے کا ہی اختیار رکھتی ہیں۔.ملک کے طاقتور،با اختیار،دولت مند
طبقات سے تعلق رکھنے والے کے لئے اعلی ترین سطح پر ماورائے آئین و قانون
خصوصی ''شاہی فیصلے '' کئے جاتے ہیں لیکن ملک کے عام شہری،جن کے لئے ملک کا
تمام کاروبار حکومت و سرکار سجایا گیا ہے،بے اختیار،بے وقار،مظلوم اور عاجز
نظر آتے ہیں۔قیام پاکستان کے وقت سے ایک جنگ پاکستان کے خلاف جاری ہے اور
دوسری مسلسل جنگ ملک میں اختیارو اقتدار کے لئے لڑی جا رہی ہے۔کبھی ایک کا
پلہ بھاری ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کا لیکن ملک میں شہریوں کو تقسیم در
تقسیم کرتے ہوئے انہیں نچلے درجے پر رکھنے کے معاملے میںوسیع پیمانے پر
اتفاق پایا جاتا ہے۔آج ملک کا نظام دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ ملک عوامی
مفاد کو اولیت دینے کے لئے بنایا گیا تھا۔ |
|