پاکستان میں جمہوریت کے باوجود سیاسی
پارٹیاں چونکہ جمہوری کے بجائے شخصی بنیادوں پر قائم ھیں۔ اس لیے سیاسی
جماعتوں کے سربراہ ' سیاسی پارٹیوں کو ملک اور عوام کے لیے بنائے گئے پارٹی
کے منشور اور دستور کے بجائے ذاتی مقاصد اور ذاتی مفادات کے لیے ھی چلاتے
ھیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کے ھونے کے باوجود حکمرانی شخصی ھی
ھے اور اس شخصی حکمرانی کو سیاسی آمریت ھی کہا جاسکتا ھے۔
جمہوری سیاست کے نام پر سیاسی آمریت کے اس کھیل سے سیاسی جماعتوں کے
سربراھان کے ذاتی مقاصد اور ذاتی مفادات کو تو فائدہ ھو رھا ھے لیکن نقصان
ملک اور عوام کا ھو رھا ھے۔ جبکہ سیاسی جماعتیں بھی عوامی سیاسی جماعتوں کے
بجائے پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں بن کر رہ گئی ھیں اور سیاسی جماعتوں کے لیڈر
اصل میں ان پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹر ھوتے ھیں۔ جو پارٹی کے
امور کو ٹھیکہ داری نظام کی طرح چلاتے ھیں۔ جبکہ ورکرز کو یہ اپنا ملازم
سمجھتے ھیں۔
جب تک سیاسی جماعتوں کی ممبرشپ لسٹ الیکشن کمشن کے پاس جمع کرواکر الیکشن
کمیشن کی نگرانی میں سیاسی جماعتوں کے اندر بھی یونین کونسل سے لیکر مرکزی
سطح تک کے عہدیداروں کے انتخابات کروانے کا سلسلہ شروع نہیں کیا جاتا۔ اس
وقت تک پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے جمہوری کے بجائے شخصی ھی رھنا ھے اور
پاکستان میں جمہوری سیاست کے نام پر سیاسی آمریت ھی رھنی ھے۔
پاکستان میں جمہوری سیاست کے نام پر سیاسی آمریت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں
کے سربراھان کے ذاتی مقاصد اور ذاتی مفادات کو تو فائدہ ھو رھا ھے لیکن
نقصان ملک اور عوام کا ھو رھا ھے۔ اس لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ' خاص ظور
پر پاک فوج تو اس نقصان سے بچنے کے لیے کسی نہ کسی طرح ملک کی سلامتی کے
معاملات اور پاکستان کے دفاع کے امور کو بخوبی سمبھالے ھوئے ھے۔ لیکن
پاکستان کے عوام سے متعلق امور کے لیے پروگرام اور پالیسی بنانا حکمراں
جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کی شکل میں چونکہ جمہوری سیاست کی وجہ سے
اسٹیبلشمنٹ کے بجائے سیاسی جماعتوں کا ھی فرض ھے۔ اس لیے پاکستان کی عوام
روز بروز سماجی پیچیدگیوں ' معاشی بحران اور انتظامی نااہلی کے دلدل میں
پھنستی جا رھی ھے۔
پاکستان کی 20 کروڑ عوام جمہوری سیاست کے نام پر سیاسی آمریت کی وجہ سے درج
ذیل تین ملکی سطح کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیوں اور تین مقامی سطح کی
پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کے ھاتھوں یرغمال ھیں۔
ملکی سطح کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ھیں۔
نوار شریف کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی جسکا نام پی ایم ایل این ھے۔
آصف ذرداری کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی جسکا نام پی پی پی ھے۔
عمران خان کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی جسکا نام پی ٹی آئی ھے۔
مقامی سطح کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ھیں۔
الطاف حسین کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی جسکا نام ایم کیو ایم ھے۔
اسفند یار کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی جسکا نام اے این پی ھے۔
فضل الرحمان کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی جسکا نام جے یو آئی ھے۔
پاکستان کی باقی تمام سیاسی جماعتوں کے نام پر کام کرنے والی پارٹیاں نہ تو
ملکی سطح کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ھیں اور نہ ھی علاقائی سطح کی
پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ھیں۔ یہ چند افراد پر مشتمل سروس پروائیڈر فرمیں
ھیں۔ ان میں سے کسی فرم کو ملکی سطح کی کسی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی سے ٹھیکہ
مل جائے تو ٹھیک ھے ورنہ کمیشن کے عوض اپنی خدمات کسی مقامی سطح کی
پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کو پیش کردیتی ھیں۔ سازشیں ' شرارتیں اور بلیک میلنگ
کرنے کے چکر میں مصروف رھنا ان فرموں کا پسندیدہ مشغلہ رھتا ھے۔ اس لیے '
اکثر و بیشر ملکی سطح کی اور علاقائی سطح کی پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ' ملک
اور عوام میں سازشیں ' شرارتیں اور بلیک میلنگ کرنے والے معاملات ان سروس
پروائیڈر فرموں کے ذریعے بھی انجام دیتے ھیں۔
مھاجر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں پاکستان میں مارشلا نافذ کرکے پاکستان
کو مھاجرستان بنانے کے لیے اقربا پروری اور مفاد پرستی کو فروغ دے کر
پاکستان کی فوج کے ادارے کو برباد اور پاکستان کے سیاسی اداروں کو تباہ
کردیا تھا۔
پنجابی جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کی فوج کے ادارے کا سربراہ بننے
کے بعد فوج کے ادارے کو ٹھیک کرنا شروع کیا اور پنجابی جنرل راحیل شریف نے
فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے ادارے کو بہترین بنا دیا۔ اب
پنجابی جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کے ادارے کا سربراہ بننے کے بعد فوج کے
ادارے کو مزید بہترین بنا دینا ھے۔
اس لیے سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اب اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کو منظم اور
متحرک ادارے بنانے پر دھیان دیں۔ جبکہ پاکستان کی فوج کے ادارے کی آشیر باد
اور اشارے کی بنیاد پر سیاست کرنے کے عادی حضرات اپنے گھر بار اور کاروبار
پر دھیان دیں۔
پاکستان کی فوج کے ادارے کے منظم اور مظبوط فوجی ادارہ بننے کے بعد اب ایک
تو سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے بنانا ضروری ھے اور دوسرا
پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کی ضرورت
ھے۔
گو کہ آمریت کے دور میں "موج مستی" کرنے والوں کو ابھی تک پاکستان میں
"جمہوری سیاسی نظام" برداشت نہیں ھو پا رھا۔ لیکن اس کے باوجود "منتخب
سیاسی اور جمہوری حکومت" کو خطرہ پاکستان کی "فوج کے ادارے" سے نہیں ھے
بلکہ "سیاسی جماعتوں" کے منظم ادارے نہ بننے اور "سول سروس" کے اداروں کی
کارکردگی کے معیاری نہ ھونے سے ھے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اگر منظم اور مظبوط سیاسی ادارے بننے میں ناکام
رھیں اور پاکستان کی حکومت اگر پاکستان کی سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی
بہتر اور معیاری بنانے میں ناکام رھی تو کہیں ایسا نہ ھو کہ با امر مجبوری
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو منظم اور مظبوط سیاسی ادارے جبکہ پاکستان کی
سول سورسز کے ادارے کی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کے فرائض بھی کہیں
پاکستان کی فوج کے ادارے کو انجام نہ دینے پڑ جائیں۔ |