پلی بارگین۔۔۔ لوٹو اور پھوٹو

30دسمبر کو ریٹائرہونے والے سپریم کور ٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں نیب کو ایک کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا۔ پلی بارگین پر انھوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے کرپشن کو بڑھاوا دینے کے مترادف ایک قانون قرار دیا۔ لیکن اس کے با وجود نیب کے قانون میں پلی بارگین کی شق موجود رہی کیونکہ اسے صرف پارلیمنٹ ہی ختم کر سکتی ہے۔چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کے زیر صدارت ہونے والے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ پلی بارگین کے تحت مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید شاہ 2 ارب روپے سے زائد نیب میں جمع کرائیں گے تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔جمعرات کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کرپشن کے سنگین الزامات میں ملوث مشتاق احمد رئیسانی کو ’کلیئر‘ قرار دیئے جانے کے بعد ڈی جی آپریشنز نیب ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ 6 ارب روپے میں سے 40 ارب کی کرپشن نہیں ہوسکتی۔میڈیا سے گفتگو میں ڈی جی آپریشنز نیب کا کہنا تھا کہ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ پلی بارگین کی منظوری کو کچھ لوگوں نے بہت منفی انداز میں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 15-2014 کے لیے وزارتِ خزانہ کو ادا کیے جانے والے فنڈز کی مالیت 6 ارب روپے تھی، جس میں سے سوا 3 ارب روپے ملزمان سے ریکور ہو گئے ہیں کیونکہ ریکور ہونے والی جائیدادیں ان کی موجودہ قیمت کے حساب سے نیلام کی جائیں گی ۔ان کے مطابق ضبط کی جانے والی ساری رقم اس سال کی نہیں بلکہ ان کے کام کے دوران جمع کی گئی رقم ہے اور یہ نیب کی تاریخ میں ملزمان سے حاصل کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشتاق احمد رئیسانی 65 کروڑ 32 لاکھ روپے کی رقم سمیت 3ہزار 300 گرام سونا نیب کے حوالے کرچکے ہیں، اس کے علاوہ کوئٹہ میں 6 کروڑ روپے مالیت کا شاندار گھر اور ڈی ایچ اے کراچی میں واقع 7 کروڑ روپے مالیت کا گھر بھی ان کی جانب سے نیب کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ یہ جائیدادیں مئی میں سامنے آنے والی 11 جائیدادوں کے علاوہ ہے۔ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے سے قبضے میں موجود ان 11 جائیدادوں کی قیمت خرید ایک ارب 25 کروڑ روپے کے قریب ہے اور فروخت سے 2 ارب روپے تک حاصل ہو جائیں گے۔ڈی جی آپریشنز نیب کے مطابق ان جائیدادوں میں 2 کمرشل پلازہ، تین 500 مربع گز کے شاندار بنگلے، 3 ایک ہزار مربع گز کے بنگلے جبکہ 6 رہائشی پلاٹس شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے مشتاق احمد رئیسانی کی ملکیت میں موجود 2 قیمتی گاڑیوں کے متعلق بھی میڈیا کو بتایا، ڈی جی آپریشنز کے مطابق ملزم سے حاصل ہونے والی مرسڈیز اور گرینڈی کرولا کی کل مالیت 80 لاکھ روپے ہے اس طرح ان سے 80 کروڑ روپے حاصل کیے جاچکے ہیں جبکہ 11 جائیدادوں سے وصول ہونے والے سوا ارب روپے اس کے علاوہ ہیں۔پلی بار گین کرنے والے دوسرے ملزم صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ سے متعلق بات کرتے ہوئے ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے ہاتھ میں خود بہت کم رقم آئی اور وہ صرف ان کا سہولت کار تھا۔ سیکریٹری خزانہ کے سہولت کار نے اپنے اکاؤنٹ میں موجود تمام رقم نیب کے حوالے کرنے کا کہہ دیا ہے اور یہ رقم 96 کروڑ یا تقریبا ایک ارب بنتی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح دونوں افراد سے کرپشن کے زمرے میں سوا تین ارب روپے حاصل کیے جاچکے ہیں اور مشیر خزانہ خالد لانگو سمیت دیگر سینئر افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ان کے مطابق مجرم سے ان کا عہدہ لے لیا جائے گا جبکہ 10 سال کے لیے وہ سرکاری ملازمت نہیں کر سکتے جبکہ 10 سال بعد ان کی عمر اتنی نہیں رہتی کہ وہ سرکاری ملازم رہ سکیں۔ان کا مزید بتانا تھا کہ جرم ثابت ہونے کے بعد مجرم کسی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کے زیر کنٹرول کسی بینک سے قرضہ لے سکتا ہے۔پلی بارگین کے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پلی بارگین کرنے والا شخص کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور ماضی میں جس کسی نے ایسا کیا ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا کیونکہ ان کے مجرم ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کو بھی مستقبل میں سرکاری نوکریاں حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ درست ہے کہ پلی بارگین کے ذریعے ملکی خزانے کی لوٹی ہوئی رقم کا کچھ حصہ خزانے میں واپس آجاتا ہے لیکن کیا یہ ایک درست عمل ہے کہ ایک شخص جو کرپشن میں ملوث رہا اور اس نے اس کرپشن کا اعتراف بھی کر لیا لیکن اسے کرپشن کی کچھ رقم ادا کرنے کے بعد نہایت آسانی سے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اسے کسی قسم کی قید کی کوئی سزا نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ اسے ملک میں یا ملک سے باہر کسی بھی جگہ جا کر بس جانے اور اپنی بقیہ زندگی وہاں گزارنے کی اجازت ہوتی ہے۔ نیب خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ مشتاق رئیسانی اور اس کے ساتھی ایک طویل عرصے سے کرپشن کر رہے ہیں لیکن نیب صرف6ارب روپے کے ترقیاتی کاموں میں کی جانے والی کرپشن کی چھان بین کرتا رہا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ممکن ہے کہ مشتاق رئیسانی اور اس کے ساتھیوں نے کرپشن کا کچھ پیسہ یا بہت بڑی رقم ملک سے باہر بھی رکھا ہو۔ اگر یہ درست ہے تو پھر اس پیسہ کا حساب کون لے گا؟ کیا یہ ملک اسی لئے ہے کہ یہاں جی بھر کے کرپشن کرو، اگر پکڑے جاؤ تو ملک میں یا ملک سے باہر جا کر کرپشن کے اس پیسے پر ساری زندگی آرام سے گزارو اور یہاں کے غریب عوام ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی ترستے رہیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو ؟

 
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.