سندھ حکومت کے ترجمان کے بیان پڑھیں
تو لگتا ہے یہ پیپلزپارٹی کے ترجمان کے بیانات ہیں اور پیپلزپارٹی ستائیس
دسمبر کو حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے والی ہے ۔ لیکن میرے نزدیک خبر یہ
ہے کہ مفاہمت کا بادشاہ وطن واپس آچکا ہے اس لئے سیاسی درجہ حرارت اب نیچے
آئے گا اور پھر دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کے لئے گرما گرمی شروع ہوگی جو
ایک نارمل بات ہے ۔بڑی حد تک دو ہزاراٹھارہ کے انتخابات کی تیاریاں شروع
بھی ہوچکی ہیں اور تقریباتمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے جلسے جلوسوں اور
پارٹی کنونشنز کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ پیپلزپارٹی اپنی تنظیم نو کے مراحل
سے گزر رہی ہے اور ستائیس دسمبر کو گڑھی خد ابخش سے ایک اہم اعلان کی نوید
بھی دی گئی ہے ۔ یہ اعلان کچھ بھی ہو لیکن اس کا انجام پانامہ کے ڈرامے اور
چار جمع ایک مطالبات کی موت پر منتج ہوگا۔ پانامہ پیپرز کا معاملہ تو بڑی
حد تک پہلے ہی اپنی موت آپ مر چکا ہے کیونکہ شور مچانے والوں کی اپنی آف
شور کمپنیاں منظر عام پر آچکی ہیں اور وہ ایک بار پھر ڈی چوک سے ہوتے ہوئے
براستہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ـ’’بوڑھ‘‘ کے سائے میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔
بلاول کے چار مطالبات کا جا ئزہ لیا جائے تو مجھے کوئی ایسی وجہ یا مجبوری
نظر نہیں آتی کہ حکومت ان مطالبات کو مان لے ۔ بلاول کا پہلا مطالبہ یہ ہے
کہ حکومت پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی قائم کرے ۔ ذرا سوچئے جس
پارلیمنٹ کا ایک قابل ذکر حصہ بیالیس ماہ گزر جانے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں
کرسکا کہ اسے پارلیمنٹ کے اندر بیٹھنا ہے یا پھر دھرنوں کی سیاست کرنی ہے
اس پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی بن بھی گئی تو وہ اپنا کردار کس حد تک
ادا کر سکے گی ۔بلاول کا دوسر امطالبہ یہ ہے کہ سی پیک پر آل پارٹیز
کانفرنس کے فیصلوں پر عمل کیا جائے ۔ سچی بات ہے مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی
کہ یہ ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ کس مرض کی دوا ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب
تک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تمام کی تمام آل پارٹیز کانفرنس میں سوائے دو
ایک کے باقی تمام ٹانگہ پارٹیاں ہوتی ہیں ۔ پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی
جماعتوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی بھی
حکومت اگر ’’آل پارٹیز ‘‘ کے مطالبوں پر غور کرنا شروع کر دے تو اس کے لئے
روز مرہ کے امور پر فیصلے کرنا بھی مشکل تر ہو جائے ، خود بلاول صاحب کو
معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی والدہ کے مدمقابل بھی سیاسی جماعتوں نے ایک
اتحاد بنایا تھا ، اس طرح کے اتحادوں کے مقاصد بہت دیر بعد واضح ہوتے ہیں
ویسے بھی سی پیک اتنا سادہ منصوبہ نہیں اور نہ ہی اس پر کام کے آغاز کے لئے
اس قد ر وقت تھا کہ تمام سیاسی پارٹیو ں کے نخرے اٹھائے جاسکیں ۔ وفاقی
وزیر احسن اقبال کے علاوہ خود وزیر اعظم بھی کئی بار سی پیک سے متعلقہ امور
پر وضاحت کر چکے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا پرنالہ ابھی بھی وہیں کا وہیں ہے
کیونکہ جس طرح انہیں کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے اپنی سیاست دم توڑتی نظرآتی
ہے اسی طرح ان کو اس عظیم منصوبے کی تکمیل سے یہ ڈر ہے کہ پاکستانی عوام کو
اس کی بدولت جب روزگار میسر آئے گاتو وہ ان کی بات سننے کی بجائے اپنے بچوں
کی تعلیم وتربیت پر توجہ دے گا کیونکہ یہ بہرحال اس کے لئے یہ ایک پرکشش
آپشن ہوگا ۔ مجھے یاد ہے جب میاں نواز شریف کی پہلی حکومت گرائی گئی تو
فیصل آباد کے سپوت میاں زاہد سرفراز جو اس وقت وزیر داخلہ بنائے گئے تھے
روزانہ ٹیلی ویژن پر آکر موٹر وے کے خلاف اس قد ر بولتے تھے کہ ان دنوں دو
خواتین نے چڑ کر اپنے گھروں کے ٹی وی ہی توڑ ڈالے تھے ۔آج یہ حالت ہے کہ
اسی موٹر وے کی طرز پر بننے والی اقتصادی راہداری کے بارے میں ہر کوئی یہ
کہتا ہے کہ اس کے دروازے کے سامنے سے گزاری جائے ۔یہ ہے اس منصوبے کی اصل
طاقت کہ سیاسی مخالف بھی اس منصوبے کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔
بلاول کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا پانامہ انکوائری بل پارلیمنٹ
سے منظور کرایا جائے ،یہ ایک ناممکن بات ہے !کوئی بھی حکومت یہ گوارہ نہیں
کرتی کہ اس کی اکثریت کے ہوتے ہوئے اپوزیشن اس کی مشاورت کے بغیر ایک بل
پارلیمنٹ میں لائے اور اسے منظور کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی اگر اس بل پر پہلے
حکومت سے مشاورت کرتی تو شائد یہ بل کچھ ترامیم کے بعد پارلیمنٹ سے منظور
کرایا جا سکتا لیکن اب ایسی کوئی امید نہیں ۔ اس کی بجائے اگر حکومت سے نیب
قوانین میں ترامیم اور بہتری کے لئے بات کی جاتی تو شائد حکومت کرپشن کا
راستہ روکنے کے لئے اس پر تیار ہو جاتی لیکن صد افسوس پیپلزپارٹی نے ساڑھے
تین برس ضائع کر دئیے ، میرا خیال ہے اب بھی وقت ہے پیپلزپارٹی کو اس پر
توجہ دینی چاہیے ۔بلاول کاچوتھا مطالبہ وزیرخارجہ کا تقرر جبکہ پانچواں اور
نیا نکور مطالبہ وزیرداخلہ کی برطرفی ہے ۔ حیر ت کی بات یہ ہے پیپلزپارٹی
گزشتہ ساڑھے تین برس حکومت پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ خارجہ پالیسی حکومت
نہیں بلکہ ’’کوئی اور‘‘ بنا رہا ہے ۔ بندہ پوچھے اگر کوئی اور بنار ہا ہے
تو پھر وزیرخارجہ کیا کرے گا؟جہا ں تک بات ہے وزیرداخلہ کی برطرفی کی تو
پیپلزپارٹی کا یہ مطالبہ بھی پورا ہونے والا نہیں ہے ۔عمران خان کے پہلے
دھرنے سے لے کر اب تک مستقل پیپلزپارٹی کے بعض حلقوں کی یہ خواہش یا کوشش
ہے کہ کسی طرح وزیراعظم میاں نواز شریف کو وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان
سے بدگمان کر دیا جائے لیکن تاحال یہ کوشش ناکام رہی ہے اور میاں نواز شریف
کے چودھری نثا ر علی خان پر اعتمادمیں کوئی فرق نہیں آیا۔ دوسری بات یہ ہے
کہ جس رپورٹ کو وزیرداخلہ کی بر طرفی کے مطالبے کا جواز بنایا جار ہا ہے وہ
کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ۔ ہو سکتا ہے اس میں بہت سی کام کی باتیں بھی ہوں
لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے بعض
وکلا ء محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بہت اچھے دوست بھی تھے اور وہ بجا
طور پر اس حوالے سے غم و غصے کی کیفیت میں تھے ، ان حالات میں ا س معاملے
کی جانچ ان کے سپرد نہیں کی جانی چاہئے تھی ۔ اگر محترم جج کی یہ بات مان
بھی لی جائے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں وزیرداخلہ قیادت میں ناکام رہے
ہیں تو پھر انہیں یہ وضاحت بھی کر دینی چاہئے کہ دو ہزار تیر ہ تک اوسطاََ
روزانہ چار سے چھ دہشتگردی کی جو وارداتیں ہوتی تھیں وہ کیسے کم ہوگئی
ہیں۔کیا کوئی جن ہے جو پس پردہ کام کر رہا ہے ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ دہشتگردی
کے خلاف عدالتوں کے کردار پر اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ فوجی عدالتوں
کی ضرورت کیوں محسو س ہوئی ۔ بلاشبہ ملک کی سیاسی قیادت بشمول اپوزیشن اور
فوجی قیادت کو یہ کریڈٹ دیا جانا چاہئے کہ باوجود سیاسی اختلافات کہ انہوں
نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو متاثر نہیں ہونے دیا ۔بجائے اس کے کہ ہم اس
سٹیج پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں ہمیں متحدہو کر دہشتگردی کا آخری بیج
بھی جلا دینا چاہیے تاکہ دوبارہ کوئی کم بخت اس سرزمین میں کانٹوں کی یہ
فصل نہ اگا سکے۔
قارئین !آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر پیپلزپارٹی کا ایک بھی مطالبہ پورا
نہ ہوا تو پھر مفاہمت کیسے ہوگی ؟اس کی تفصیلات تو بوجوہ ابھی میں بھی نہیں
بتاؤں گا لیکن بہت سے سمجھنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں بھی ہیں
۔صرف اتنا کہوں گا کہ آصف علی زرداری نے ابھی تک نہ تو چار مطالبات کی بات
کی ہے نہ پانچویں مطالبے کو درخو ر اعتنا سمجھا ہے اور نہ ہی مولا بخش
چانڈیو کی طرح حکومت گرانے کی کوئی دھمکی دی ہے بلکہ انہوں نے واضح طو رپر
کہا ہے کہ حکومت کے خلاف جو بھی کریں گے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر
کریں گے اور آئین اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑکوں پر آکر حکومت کو
مفلوج کیا جائے ۔ جس شخص نے ہزار مشکلوں اور مخالفین کے بے پناہ دباؤ اور
طعنوں کے باوجود پانچ برس تک ایک سیاسی نظام چلایا اور جمہوریت پر آنچ نہیں
آنے دی وہ کیسے گوارا کرے گا کہ نو یا دس برس بعد جب جمہوریت کا پودا پہلے
سے زیادہ توانا ہوچکا ہے کوئی اس کی جڑوں پر کاری ضرب لگائے ؟۔ |