کالعدم تنظیمیں اور نیشنل ایکشن پلان

( میرا یہ آرٹیکل تین حصوں میں ہو گا پہلا حصہ پیش خدمت ہے دوسرے حصہ میں کالعدم تنظیموں کی ساخت اور تیسرے حصہ میں کالعدم تنظیموں کا اصلاح کس طرح ممکن ہے پر مشتمل ہو گا )
بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سانحہ کوئٹہ پر قائم کیے گئے کمشن کی رپورٹ میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں لیکن یار لوگوں نے اسے بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ کچھ لوگ جو چوہدری نثار سے نالاں تھے انہوں نے اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف کر کے تنقید و طنز کے گولے پھینکنے شروع کر دیے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت اپوزیشن جماعتوں سے مل کر نیشنل ایکشن پلان کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی اور اپوزیشن جماعتیں اس پر پوائنٹ سکورنگ کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتے اور ان خامیوں اور رکاوٹوں کی نشاندہی ہوتی جو نیشنل ایکشن پلان کے عملدرآمد میں حائل ہیں ۔ لیکن سیاست بڑی بے رحم ہیں ۔جمہوریت کی چھتری تلے ہماری سیاسی جماعتیں ہر وہ کام کرتی ہیں جس سے ان کی سیاسی ساکھ کو تو فائدہ پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن عوام کے دکھ درد کا مداوا کسی صورت ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول میں پھول سے بچوں کی شہادت نے اس قوم کویکجا کر دیا تھا ۔لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اتحاد کمزور ہوتا چلا گیا ۔ اﷲ بھلا کرے ہماری پاک فوج کا جس کی قیادت راحیل شریف کے ہاتھ میں تھی ۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف مربوط اورمنظم کارروائیوں نے دہشت گردی کے عفریت سے جان چھڑانے کا آغاز کر دیا ۔اس آپریشن کے تحت دہشت گروں کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ ان کے سلیپر سیلز کو بھی ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کی گئیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں دہشت گرد ی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ۔لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ جو ملک گزشتہ کئی عرصہ سے جنگجو گروپوں کی آماجگاہ بنا رہا ہو اوردنیا کی بڑی خفیہ ایجنسوں کی حمایت انہیں حاصل ہو ان کے گٹھ جوڑ توڑنا فوری ممکن نہیں ہوتا ۔پہلے اس جنگ کو زبردستی ہماری جنگ بنایا گیا اور پھر جب واقعتا اس جنگ کے شعلوں نے ہمارے گھروں کو جلانا شروع کر دیا تو ہمیں احساس ہونا شروع ہو اکہ پرائی جنگ لڑتے لڑتے ہم خود اس جنگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ۔یہ ہمارے دشمن کا مقصد تھا جس میں وہ کامیاب ہوا ۔

دہشت گردی کی اس جنگ میں دشمن مختلف سمتوں سے حملہ آور ہو رہا تھا۔ ہمیں اس موقع پر اس جنگ کے خلاف حکمت عملی بناتے وقت ان تمام سمتوں کا خیال رکھنا تھا کیونکہ دشمن اس جنگ میں ہمارے اپنے بچوں کو سامنے لے آیا تھا ۔ ایک طرف بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو کھڑا کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف اسلام کے نام پر خودکش حملہ آور تھے ۔اسلام کی تشریح اس انداز سے کی جارہی تھی کہ پاکستان کو دارلحرب قرار دے کراس سرزمین کو معصوم لوگوں کے خون سے رنگا جارہا تھا ۔ جی ایچ کیو سے لے کرسابق صدر مشرف پر حملوں سمیت اکثر میں ہمارے اپنے نوجوان استعمال ہو رہے تھے جنہیں کچھ گمراہ لوگوں نے جنت اور شہادت کا لالچ دے کر فساد کو جہاد کا نام دے کر استعمال کیا۔ لہذا دہشت گردی کی جنگ کے خلاف جہاں فوجی آپریشن کی ضرورت تھی وہاں ایک ایسا بیانیہ بھی متعارف کروانے کی ضرورت تھی جس میں ہم اپنی نظریاتی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے اسلام کی اصل روح سے اپنے نوجوانوں کو متعارف کرواتے ۔ فوج نے تو اپنا کام بخوبی سرانجام دیا اور اس وقت بھی وہ محاذوں پر ہے ۔کمان کی تبدیلی کے باوجود نظر آرہا ہے کہ جس کام کا آغاز راحیل شریف نے کیا تھا وہ منطقی انجام تک پہنچ کر ہی رک سکے گا۔ تاہم نظریاتی میدانوں میں ہم ناکام ہوئے اور اس طرح کا بیانیہ متعارف کروانے میں ناکام نظر آتے ہیں جس سے اسلام کا اصل اور روشن چہرہ اپنے نوجوانوں کے سامنے لا سکیں ۔بلکہ اس محاذ پران لوگوں کوآگے کیا گیا جس سے دہشت گرد اور گمراہ لوگوں کو پھر سے پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا۔نیشنل ایکشن پلان جس انداز سے شروع کیا گیا تھا اسی وقت اس پر تحفظات سے آگا ہ کیا جا رہا تھا لیکن حکومت نے اس موقع پر جذباتی انداز میں اسے جاری رکھا ۔نیشنل ایکشن پلان میں ایک اہم نقطہ کالعدم تنظیموں کے متعلق تھا ۔ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں بھی اس پر بات کی گئی ہے ۔یہ بات تو درست ہے کہ ریاست اس سلسلہ میں کوئی واضح پالیسی قوم کو نہیں دے سکی ور یار لوگ بھی اس اہم نقطے کو محض اپنے فائدے کے مطابق ہی اٹھاتے رہے ۔اس سلسلہ میں کمیشن نے جس ملاقات پر اعتراض کیا ہے وہ وزیر داخلہ کی دفاع پاکستان کونسل کے ایک وفد سے ملاقات اور ان کو اسلام آباد میں جلسہ کی اجازت دینے کے متعلق تھا ۔اب اس پر بھانت بھانت کی بولیاں اس لیے بولی جارہی ہیں کہ حکومت کی پالیسی مبہم ہے ۔اسی مبہم پالیسی کا خمیازہ مختلف جماعتوں کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے اور خود حکومت کو بھی بعض اوقات اس کی وجہ سے خفگی اٹھانا پڑتی ہے ۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ان کی فہرست موجود ہے لیکن اس کے باوجود بعض اوقات حکومت کی مبہم پالیسی کی وجہ سے مختلف اوقات میں شدید تنقید کا سامان کرنا پڑتا ہے ۔کالعدم تنظیموں کی فہرست کے ساتھ ساتھ حکومت ابھی تک اس بات کا تعین بھی نہیں کر پائی کہ جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان کو کس بنیاد پر کالعدم قرار دیا جائے اور ان سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد اور ان سے وابستہ خاندانوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔دوسری جانب یہ واضح ہونا بھی ضروری تھا کہ کیا جن کارروائیوں کی بنیاد پر انہیں کالعدم قرار دیا گیا اگر وہ لوگ اس سے تائب ہوجائیں تو معاشرے میں ان کا کیا مقام ہو گا۔ان افراد کے بچوں کے ساتھ ریاست کیا رویہ اختیار کرے گی اور ان نوجوانوں کی اصلاح کا کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے جو گمراہ لوگوں کی وجہ سے اپنے راستے سے بھٹک گئے ۔دنیا بھر میں ایسے سنٹرز موجود ہیں جہاں دہشت گردی میں ملوث ان نوجوانوں کی اصلاح کا کام کیا جاتا ہے جو وقتی طور پر کسی غلط نظریے کی شکار ہو جائیں اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں ۔اگرچہ پاکستان میں یہ کام بھی ہوا لیکن بہت ہی محدود پیمانے پر اور جس کے بارے میں کوئی مربوط لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا جس سے یہ سنٹرز خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر سکے ۔وزارت داخلہ کی فہرست میں جن تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ان میں اکثر تنظیمیں تو وہ ہیں جن کا نظریہ ہی دہشت گردی ہے پہاڑوں پر قائم ، غاروں میں بسنے والی ان تنظیموں سے یقینا رعایت نہیں برتی جا سکتی ۔ان تنظیموں سے وابستہ افراد بھی غاروں اور پہاڑوں میں رہتے ہیں ۔یہ بھی کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں تاہم ایسی تنظیموں کا وجود بھی ہے جو مختلف حالات کی وجہ سے ایسے راستے پر چل پڑیں جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا یہ تنظیمیں سیاسی ہوں یا مذہبی ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہیں قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے البتہ کس سطح پر ان کو موقع دینا چاہیے اس کے لے الگ حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے ۔ ان تنظیموں کے دفاتر ہمارے شہروں میں موجود ہیں ان سے وابستہ افراد ہمارے اپنے ہیں ان سے وابستہ بچے ہیں خواتین ہیں ۔ ریاست ان خاندانوں اور ان سے وابستہ لاکھوں افراد کو ایک میدان میں جمع کر کے گولی سے نہیں اڑا سکتی ۔ان کا معاشی و سوشل بائیکاٹ ممکن نہیں کیونکہ ان کی جڑیں ہمارے معاشرے میں ہیں ان کے خاندان ہی نہیں بلکہ بہت سے افراد ان کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں ۔ریاست کو ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے یہ خیال بھی کرنا ہے کہ ریاست تو ماں کے جیسی ہوتی ماں اپنے برے سے برے بچے کو بھی پالتی ہے لیکن اس کی اصلاح کی کوشش بھی کرتی ہے ۔سو ریاست کو ان کی اصلاح کے لیے کوشش کرنی ہے انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے اہتمام کرنا ہے ان کی تربیت ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکے گا جب اس طرح کے معاملات کو سیاست سے الگ رکھا جائے ۔ان معاملات کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے تمام سیاسی و مذہبی طبقات سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقات کو ریاست کا ساتھ دینا ہو گا پھر ہی ممکن ہو گا کہ ہم نیشنل ایکشن پلان پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کر سکیں ۔
Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 74469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.