حکومت بمقابلہ این جی اوز

چند دن قبل وزیر اعظم گیلانی نے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب زدگان کے لئے غیر ملکی امداد کا 80فیصد این جی اوز کے ذریعے تقسیم ہوگا اور این جی اوز والے آدھی امداد خود کھا جائیں گے، وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ کیونکہ این جی اوز کے اپنے بہت سارے اخراجات ہوتے ہیں، انہیں دفاتر بنانا پڑتے ہیں، اپنے ملازمین کو تنخواہیں ڈالروں میں دینا پڑتی ہیں اور ان کے لئے بلٹ پروف گاڑیوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ وہ شائد یہ تمام بات غیر ملکی این جی اوز کے بارے میں کر رہے تھے جبکہ انہوں نے ملکی این جی اوز کے بارے میں کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ جو این جی اوز اور سیاسی جماعتیں اس وقت سیلاب زدگان کی مدد کررہی ہیں وہ اپنے کارکنوں کو تنخواہیں کس کرنسی میں دیتی ہیں اور کیا وہ بھی بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرتی ہیں اور کیا امداد کے لئے نئے دفاتر بناتی ہیں یا نہیں؟

اگر ہم 2005 والے زلزلے کو سامنے رکھیں تو اس وقت بھی اس وقت کی حکومت کو اربوں ڈالر امداد کے طور پر ملے تھے لیکن کیا ان کا حساب رکھا گیا کہ کتنے ڈالر زلزلہ زدگان کی امداد پر صرف ہوئے اور کتنے ڈالر حکومتی عہدیداران کی جیبوں میں چلے گئے؟ اس وقت امدادی رقوم کی جس طرح سے بندر بانٹ کی گئی وہ یقیناً تمام قوم کو یاد ہوگی۔ اب اگر موجودہ سیلاب اور حکومت وقت کی ساکھ (Credibility) کو سامنے رکھیں تو جس حکومت کے سربراہ صدر مملکت کے بارے میں غیر ملکی اخبار یہ لکھیں کہ کیمرون کو زرداری سے ہاتھ ملانے کے بعد اپنی انگلیاں گن لینی چاہئیں تو اس کی بین الاقوامی ساکھ کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جاسکتا ہے، سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جب سعودی حکومت، پاکستانی حکومت کی بجائے پاکستان آرمی کا انتخاب کرے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے حالانکہ فوج حکومت سے علیحدہ نہیں ہوتی بلکہ ماتحت ادارہ ہوتی ہے، جہاں تک رہا سوال ملکی این جی اوز، سیاسی جماعتوں اور امدادی کام کرنے والوں کا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ وہ حکومت سے بہت بڑھ کر کام کررہے ہیں جس کا مشاہدہ پوری قوم آج کل کررہی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جس طرح جماعت الدعوہ کی این جی او ”فلاح انسانیت“ جماعت اسلامی کی ”خدمت خلق“ اور عمران خان کی ”پکار“کام کررہی ہیں وہ نہ تو کسی سے ڈھکی چھپی ہے اور نہ مخفی! ایک اور بات جس کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ یہ تنظیمیں پہلے بھی اپنے دکھی بھائیوں کی اسی طرح دل و جان سے مدد کرتی رہتی ہیں اور مذکورہ بالا تینوں تنظیمیں اس وقت بھی سیلاب زدگان کی بھرپور مدد بغیر کسی سیاسی لالچ کے کررہی ہیں۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی بہترین ساکھ والی حکومت بھی اس وقت اقتدار میں ہوتی تو اس کے لئے بھی اکیلے سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کا کام کرنا ممکن نہیں تھا اور یہ حکومت تو پہلے دن سے ساکھ جیسی قیمتی چیز سے محروم چلی آرہی ہے، عمران خان نے یہ بھی کہا کہ یہ وقت سیاست کا نہیں ہے اور سیاسی جوڑ توڑ سے بالاتر ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے ساتھ ایک نجی ٹی وی کے علاوہ بہت سے امدادی کارکن بھی شامل ہیں اور لوگ ان کی بہترین ساکھ کی وجہ سے ان پر بھرپور اعتماد اور اعتبار دکھا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ”پکار“ کو صرف پہلے ہفتہ میں چوبیس کروڑ روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی گئی ہے، اس کے علاوہ ”فلاح انسانیت“اور ”خدمت خلق“ جس طرح سیاست سے بالاتر ہوکر سیلاب زدگان کی امداد کررہی ہیں وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کی حد تک ایم کیو ایم بھی بھرپور کام کررہی ہے لیکن ایم کیو ایم کے ساتھ کہیں کوئی مسئلہ ضرور ہے کہ جب کبھی وہ کوئی اچھا کام کرتی ہے تو ساتھ ہی کوئی ایسا فعل بھی ضرور سرانجام دیتی ہے کہ اس کی اچھائی بہت دور چلی جاتی ہے جس طرح سندھ بھر سے سیلاب سے متاثرہ لوگ جب کراچی پہنچے تو ان کی رجسٹریشن کی بات کی گئی۔ سندھ کے رہنے والے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب آپ لوگ پاکستان میں آئے تھے تو پورے پاکستان کے عوام بالخصوص سندھیوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا تھا اور کسی رجسٹریشن کی کوئی بات نہ کی گئی تھی تو اب ایسی کیا ضرورت تھی کہ اچھا کام کرتے ہوئے اس طرح کی دل دکھانے کی بات کی جاتی؟

سی این این کو ایک انٹرویو میں بحریہ ٹاﺅن کے چیئرمین ملک ریاض نے بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے اپنے پچھتر فیصد اثاثے جن کی مالیت دو ارب ڈالر سے بھی زائد بنتی ہے، دینے کا عندیہ دیا ہے۔ وہ چونکہ ایک بلڈر ہیں اس لئے انہوں نے بالکل صحیح کہا کہ جتنی امداد بیرون ملک سے آرہی ہے اور جو امداد اندرون ملک سے اکٹھی ہورہی ہے اگر وہ صحیح طرح سے استعمال میں لائی جائے تو سیلاب زدگان کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن مسئلہ پھر ”ساکھ“ کا پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پر کسی کو اعتماد ہی نہیں اور حکومت بھی فی خاندان صرف بیس ہزار روپے امداد دینے پر رضامند نظر آتی ہے حالانکہ اگر اب تک کی امداد ہی متاثرین میں تقسیم کردی جائے تو اس سے بہت زیادہ رقم ان کو دی جاسکتی ہے۔ مختلف این جی اوز کے علاوہ پاکستان بھر کے صاحب ثروت لوگ اپنے طور پر بھی سیلاب زدگان کی بھرپور مدد کررہے ہیں، وہ دور دراز کا سفر کر کے اس لئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی امدادی رقوم کسی این جی او کو نہیں دینا چاہتے لیکن انہیں حکومتی اداروں پر بھی کسی قسم کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہی اعتبار اور ساکھ کی کمی ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی حکومت کو بہت حد تک تنہا کردیا ہوا ہے اور وہاں کے امداد دینے والے اسی ساکھ کی عدم دستیابی کی وجہ سے این جی اوز پر بھروسہ کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کو اپنے وزیروں، مشیروں حتیٰ کہ صدر صاحب پر بھی بھرپور نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور کیسے کام کررہے ہیں، اور تو اور سیلاب نے تو اب سندھ کارڈ کے حوالے سے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے مشکلات کے ایسے دروازے کھول دئے ہیں جن کو بند کرنا اگر نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے! کیا حکومت اپنی ساکھ بہتر بنانے پر کوئی توجہ دے گی یا صرف بیانات تک محدود رہے گی کیونکہ اب ووٹ بغیر کام کے نہیں ملیں گے !
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.