جنید جمشید دلوں میں زندہ رہے گا

دنیا میں انسان کا ٹھیکانہ عارضی ہے دنیا میں مو جو د ہر ایک چیز کا وجود عارضی ہے اور وہ فا نی ہے اور مو ت اٹل ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی ہے موت نے ایک نہ ایک ہمیں گلے لگا نا ہے اور ہم پھر اس جہاں فانی سے کو چ کرجانا ہے موت کے بعد کو ئی لو ٹ کر واپس نہیں آتا ہے اور جب مو ت کا وقت آتاہے توایک پل کی مہلت نہیں دیتا اور فرشتہ پل میں روح قبض کر پروز کر جاتا ہے اس دنیا میں ہمیں اپنے آنے والے پل کی بھی خبر نہیں کہکس پل موتگلے لگا تی ہے انسان اس عارضی مکاں کو سب کچھ تصور کرلیتا ہے انسان کو بھلا کو ن سمجھئے کہ کسی سواری کا مسافر منزل کو لوٹ جاتا ہے ناکہ اس سواری کو اپنی منز ل تصورکر لیتا ہے جب انسان اس دنیا کو اپنی راحت آسائش سمجھتا ہے اور یہ بھو ل جا تا ہے کر کے وہ تو چند سانسیں ادھار لے کر آیا ہے اور دنیا بنانے کی مستی میں مست ہو کر بہت دور چلا جا تا ہے اسے پیچھے مڑ کر دیکھناایسا لگتا ہے کہ اس کی بر بادی ہے اگر وہ اس دنیا کی بلندی شہرت دولت چھوڑے تو کیسے چھوڑجس کے لئے اس نے اتنا طویل سفر طے کیا ہے اور وہ اپنی واپسی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے اگر کچھ دیر کے لئے اپنی ذات کا جا ئزہ لیں یا معاشرے میں اپنے اردگرد نظر دوڑیں تو ایسے افراد سے دنیا بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی منزل تو پا لی پر راستے کے چنا ؤ میں غلطی کر بیٹھے پر ایک بڑی فتح اور کا میا بی کے بعد احساس ہو کہ غلط راستے پر چل کر آئے ہیں تو اس دولت عزت شہرت نے واپسی پر اٹھتے قدموں میں بیڑیاں ڈال دیں اور واپسی کی جانب اٹھتے قدموں کو تھمنے پر مجبور کر دیا پھر جو لوگ ان بیڑیوں کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں تو وہ ساری حیاتی اس کنو ائیں میں غرق رہتے ہیں پر کچھ ایسے بھی با ہمت ہو تے ہیں جب وہ اس شہرت دولت والی منزل کے قریب ہوتے ہیں یا منزل پا چکے ہوتے ہیں توان کے ضمیر کو ملنے والی اﷲ کی جا نب ہدایت کو اس منز ل سے منہ مو ڑنے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہی ہدایت ان بیڑیوں کو توڑکر اس رائے حق پر لے آتی ہے جس سے شاید وہ اب تک غافل تھا جنید جمشید بھی انہی انسانوں میں سے ایک تھے جو اس ہدایت کو منزل کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہو ئے اس خد ا واحد لاشریک کی راہ پر میں نکل پڑا جس نے اپنی کئی سالوں کی محنت کے بعدحاصل ہو نے والی منزل کو پل میں ٹھکرا کر اس حقیقی سفرمیں راخت سفرباندھا جس پر چلنے کے لئے اﷲ پاک اپنے پیاروں نوازتا ہے اس بات سے ہم انکار نہیں سکتے کہ جنید جمشید نے زندگی میں جو بھی کا م کیا وہ انتہا تک کیا اور خوب محنت اور لگن سے کیا جس میں وہ پختہ ارادے سے ڈٹ کراس کام کو سرانجام دیتے تھے اس نے موسیقی کے فن کا آغاز ہی دل سے کیا جس میں اس کے سر سے نکلا پہلا لفظ ہی دل دل پا کستا ن تھا جو ایک سچا حب الوطن ہی کر سکتا ہے جنید جمشید 1964 کو جب کپٹین اکبرخان جندی کے گھر کر اچی میں پیدا ہوا ہو گا تو اس وقت کو ئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا ہو گا کہ یہ بچہ ایک دن اتنا عظیم ہو جا ئے گا کہ اپنے آپ کو رہتی دنیا میں امر کر جا ئے گا جنید جمشید کے والد ائر فورس میں کپیٹن تھے توفوج سے نسبت کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کو ائر فورس میں پا ئلٹ بنا نا چاہتے تھے اس مقصد کے لئے جنید جمشید نے لاہور کی یو نیو رسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لو جی سے ٹیکنیکل انجینئرکی ڈگری حاصل کی اور بعد میں پاکستان ائر فورس میں سویلین کنٹر یکٹر کے طور پر ملازمت حا صل کی جب 1983 میں پہلی مر تبہ جنید جمشید نے راک سنگر کے طور پر یو ینورسٹی میں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو شرکاء نے بہت پسند کیا پھر دوستوں کے ساتھ مل کر ایک میو زیکل گروپ بنایا کچھ سا لوں کی محنت رنگ لے آئی اور 14اگست 1987 ء کو پا کستان کے یو م آزادی کے دن وطن سے محبت کا اظہار’’ دل دل پا کستا ن جا ن جان پا کستا ن‘‘ جیسے سدا بہار ملی نغمے سے کیا وہ ملی نغمہ اتنا مشہور ہو ا کہ اس وقت لے کر اب تک عوام میں مقبول ہے جو اب بھی دنیا کے بہترین قومی نغموں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جنید جمشید کا وائٹل سائنس گروپ مسلسل کا میابیوں کی وجہ سے چھا یا رہا جنید جمشید نے اپنی صلاحتوں سے پاکستا ن میں پا پ میو زک کو بام عروج بخشا 1994 ء میں جنید جمشید نے اپنا پہلا سولو البم نکالا جس نے آتے ہی پا کستا ن کے علاوہ پوری دنیا میں دھو م مچا دی یہ جنید جمشید کی زندگی کا عروج تھا پر جنید جمشید اتنی شہرت پا نے کے بعد بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہ تھے اور ہمیشہ اس چیز کو محسوس کر تے تھے کے ان کی زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے انہوں نے کچھ سال قبل ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا تھاجب وہ گلو کاری کے فن میں عروج پر تھے وہ گھٹن محسوس کر تے تھے اور اپنی زندگی کو کسی کمی کی وجہ سے ادھورا سمجھتے تھے شاید یہ گھٹن یہ غیر مطمئن ہو نے کی کیفیت اور تڑپ وہ ہد ایت تھی جو ان کے دل میں کسی سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہلکی سی روشنی محسوس کی جا تی ہے ایسی ہلکی اور دھمی روشنی جو ایک اندھیرے کے اختتام اور روشنی کی ابتداء کے درمیا ن ہوتی ہے جس کو دیکھا تو نہیں جاتا سکتا پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اب اندھیرا اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے جنید جمشید نے اس ہدایت کی اس دھمی روشنی کو اپنی شہرت اور بلندی کے اندھرے میں ڈوبنے نہیں دیا بلکہ اس روشنی کی کھوج لگانا شروع کر دی آخر اس ہلکی اور دھمی روشنی کی آمد کدھر سے ہے پر اس با ت کا اندازہ جنید جمشید کو بھی نہ ہو گا کہ اس ہلکی مد ھم روشنی جس کے پیچھے وہ چل پڑا ہے اس کو ایک دن ایسے روشن دن میں لے آئے گی جس سے اس کی دنیا اور آخر سنور جا ئے گی مو لانا طارق جمیل سے ہو نے والی اتفاقیہ ملاقات نے جنید جمشیدکی دنیا بدل دی پھر وہ اچا نک مو سیقی کی دنیا کو خیر باد کہے کر خیر کے راستے چل پڑے اور گھر کے قریب واقع مسجد کے دروازے پر دستک دینے کے بعد اس نے جو لذت خدا کی راہ میں نکل کر پائی جس کی کمی وہ ہمیشہ محسوس کرتا تھا 2004ء کے بعد جنید جمشید تبلیغی جماعت سے وابستہ ہو گئے اچانک اپنا پیشہ جس کی بنیاد پر ان کو عزت شہرت ملی تھی چھو ڑ کر پر یشا نی تو ہو ئی اپنے پر ائے کی طرف سے تنقید کے نشتر بھی چلائے گئے لیکن خدا کا بند سجدے کی لذت کو پا چکا تھا جس تنقید کے نشتربے اثر ثا بت ہو رہے تھے پر جنید جمشید نے ہمت نہ ہا ری اور اس لگن میں جے جے کے نام سے اپنا کاروبار شروع کیا جس کو جاری وساری رکھا جو دنیا میں فیشن برائینڈ بن گیا جس کے آوٹ لٹ پورے پا کستان میں تھے جنید جمشید مسلسل تبلیغ کی راہ میں چلتے رہے کیونکہ ماضی میں جس غفلت کی اذیت سے وہ گز رتا رہا ہے وہ ہی اس کو اچھے طر یقے سے محسوس کر سکتا ہے اس احساس کو لے کر وہ تبلیغ کر راہ پر نکل پڑتا تھا اور اپنے مسلما ن بھا ئیوں کی خدا کی راہ پر لا نے کی جستجو کر تا رہا جنید جمشید میں خلق خدا سے محبت کا جذبہ بلند تھا وہ ایک طرف اپنے مسلما ن بھائیوں کی آخرت سنوارنے کے لئے تبلیغ کر تا اور ساتھ ہی غریب نادار مفلس بھا ئیوں کی امداد کرتاتھاٹی وی پروگراموں کے ذریعے فلاح کا درس دیتا تھا اس نے موسیقی چھوڑی تو حمد ثناء اور نعتیں پڑھنا شروع کردی کبھی انسا نیت کے درس میں ڈوب کر خدمت انسانیت میں ڈٹ جاتے اور گلیوں کے کچرے صفاف کرنے کی مہم میں لگ جا تے اعلیٰ اخلاق کا پیکر محبتیں با نٹنے والا جنید جمشید بچوں بڑوں مردوں عورتوں جوا نوں اور بزرگوں سب میں مقبول تھا جس کی وجہ سے دنیا میں 500با اثر مسلما نوں کی شخصیات میں ان کا نا م شا مل تھا جنید جمشید تما م طبقات میں مقبول تھے جس کی وجہ سے ان کادینی علماء کے علاوہ ادکاروں کھلاڑیوں ٹی وی انیکروں صحافیوں سیاست دانوں سب میں میل جول بہت اچھا تھا جس طرف بھی جاتے سب میں گھول مل جا تے مذہبی اور لبرل طبقے میں ایک پل کا کردار ادا کرتے تھے جس سے وہ درس تبلیغ اس لبرل طبقے تک لے جا تے تھے جب 7دسمبر کو ان کی اچانک فضائی حادثے سبب موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی ہر دل غم ذدہ تھا ہر چہرے پر اداسی چھا ئی ہو ئی تھی جس دن جنید جمشیدکی نما ز جنا ز ہ اداکی گئی ااورو تدفین کی گئی تواس دن جنید جمشید کے جنازے کو دیکھ کر رشک آرہا تھا اورہر مسلمان کے دل میں ایسی ہی خواہش پیدا ہو ر ہی ہو گی یا ﷲ ایسی دھوم دھمام سے اس دنیا سے رخصتی تو اپنے پیا رے بند وں کو عطاء کرتا ہے ہمیں بھی اپنے ان پیارے بند وں میں شا مل فر ما ۔پر بند پیارا تب بنتا ہے جب وہ اﷲ کی راہ میں نکل پڑتا ہے پھر اس راہ میں دولت شہرت سب کو اس راہ میں ٹھکر ا کر آگے بڑھتا جاتا ہے اور وہ بندہ خدا پھر انسا نیت سے پیاربھی کر تا اور غم خارو ں کا غم با نٹتا ہے تب جا کر کہیں اس کو ایسی ہی دنیا سے رخصتی نصیب ہوتی ہے پھر مرنے کے بعد بھی وہ انسان دلوں میں زندہ رہتا ہے جسے آج جنید جمشیددلوں میں زندہ ہے -

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 144727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.