تذکرۂ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ
(غلام مصطفی رفیق, karachi)
|
تذکرۂ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ |
|
حضرت مولانا ڈاکٹرمحمدحبیب اللہ
مختارشہیدرحمہ اللہ اپنے دورکے محقق علماء میں سے تھے،اہل علم کے حلقہ میں
آپ کااسمِ گرامی مشہورومعروف ہے،،اللہ تعالیٰ نے آپ کوبیک وقت بے
شمارخوبیاں،ان گنت صلاحیتیں عطافرمائی تھیں۔علمی اورتحقیقی میدان میں آپ کی
خدمات مسلم اورانتظامی معاملات میں آپ کی مدبرانہ اوردوررَس نگاہ کے سبھی
معترف ہیں۔اصول پسندی اورقواعدوضوابط کی پاسداری میں آپ اپنی مثال آپ
تھے،وقت کی قدروقیمت نے آپ کی شخصیت کوچارچاندلگادیئے تھے،چنانچہ نہایت ہی
مختصر عرصہ میں آپ تنِ تنہاایک پوری جماعت کاکام کرکے،سینے پرشہادت کاتمغۂ
سجائےاس دارِفانی سے دارِبقاکی جانب روانہ ہوگئے اوراپنے بعدوالوں کے لئے
ایک آئیڈیل اور نمونہ بن گئے۔حضرت مولانامحمدڈاکٹرحبیب اللہ مختار1944ء میں
دہلی میں پیداہوئے،آپ کے والدِگرامی جناب حکیم مختارحسن خان دہلویؒ طبیبِ
حاذق وماہرحکیم تھے،انہوں نے دہلی میں طب کی تعلیم حاصل کی،پاک وہندکی
تقسیم کے بعدہجرت فرماکرکراچی تشریف لائے اوریہاں حکمت فرماتے رہے،حکیم
مختارحسن خان نہایت متواضع،خلق خدا کے خدمتگار،دیانت وامانت کے
پیکراورعلماء کے بڑے قدردان تھے۔1954ء میں آپ کی اپنے والدماجدحکیم
مختارحسن خانؒ کے ہمراہ سرِراہ محدث العصر علامہ محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ
سے پہلی ملاقات ہوئی،اس ملاقات میں آپ کوحضرت بنوریؒ سے دعاؤں کے حصول
اورشفقتوں کے سمیٹنے کی سعادت میسر ہوئی،یہی دعائیں رنگ لائیں اورآپ اپنے
وقت کے عظیم محقق،کہنۂ مشق مدرس ، مایۂ نازمصنف اورمنتظم
بنے۔مولاناڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختارنے 1963ء میں جامعہ بنوری ٹاؤن سے محدث
العصر علامہ بنوریؒ کی زیرِنگرانی دینی تعلیم کی تکمیل کی،مزیدتعلیم کے لئے
آپ نے مدینہ یونیورسٹی کارُخ کیا،جہاں 1966ء تا1970ء چارسال تک آپ تعلیم
حاصل کرتے رہے،مدینہ یونیورسٹی سےتعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے توآپ کوآپ کے
محبوب شیخ ومربی حضرت علامہ بنوریؒ نےاپنے ادارے میں دینی خدمت کے لئے طلب
فرمایا،آپ نے اس حکم کی تعمیل کواپنے لئے سعادت سمجھااوراپنے شیخ کے ادارے
’’جامعہ بنوری ٹاؤن ‘‘سے منسلک ہوگئے۔یہاں دینی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے
1973ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم،اے کیا،جس میں آپ نے فرسٹ پوزیشن حاصل
کرکے گولڈمیڈل حاصل کیا۔اور1981ء میں جامعہ کراچی سے ہی ڈاکٹریٹ(پی،ایچ
،ڈی)کی ڈگری بھی حاصل کی۔ علامہ بنوریؒ کے انتقال کے بعد امام اہلسنت
مولانامفتی احمدالرحمن ؒ کوجامعہ بنوری ٹاؤن کاسربراہ مقررکیاگیااور1991ء
میں جب مفتی احمدالرحمن ؒ کاوصال ہواتومولانا ڈاکٹرحبیب اللہ مختاراس ادارے
کے رئیس ومہتمم منتخب ہوئے۔آپ اِس ممتاز دینی ادارے کے رئیس ہونے کے ساتھ
ساتھ مدارس عربیہ کی ملک گیرتنظیم ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘کے ناظم
اعلیٰ بھی رہے۔ مولانا ڈاکٹر محمدحبیب اللہ مختارکواللہ تعالیٰ نے علمی
استعداد،ذہانت وفطانت ،اعلیٰ اوصاف واخلاق اورانتظامی صلاحیتوں کاوافرحصہ
عطافرمایاتھا،آپ نے اپنی زندگی کاکوئی لمحہ ضائع نہیں فرمایا،بلکہ وقت کی
قدرقیمت کوجانتے ہوئے اورعمرعزیزکوامانت سمجھتے ہوئے ہمہ وقت آپ
تعلیمی،تدریسی،تصنیفی اورانتظامی معاملات میں مصروف رہے،تاریخ ہمیشہ وقت کے
قدردان لوگوں کانام اونچااور روشن رکھتی ہے،آپ کے تاریخی کارناموں کی
بناپربعدوالوں کے لئے آپ کی شخصیت روشن قندیل کی حیثیت رکھتی ہے۔آپ خالص
علمی ،اورتحقیقی امورسے تعلق رکھتے تھے،عربی ادب سے خصوصی لگاؤتھا،آپ نے
اپنے پیچھے بے شمار تصانیف ،تراجم اورتلامذہ کی صورت میں ذی استعداد علماء
کرام کی جماعت یادگارچھوڑی ہے۔آپ سے استفادہ کرنے والوں میں نامی گرامی
علماء کرام شامل ہیں جو ملک پاکستان اوربیرون ممالک میں بڑی دینی خدمات
سرانجام دے رہے ہیں۔آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں دیگرذمہ داریوں کے نبھانے
کے ساتھ ساتھ بیسیوں مفیدعربی کتابوں کا انتہائی سلیس اردوترجمہ کیا،تاکہ
اُردوداں طبقہ کے لئے اُن کتابوں سے استفادہ کرناآسان ہو،آپ کی تصانیف
میں سے ’’کشف النقاب‘‘کوبڑی اہمیت حاصل ہے،اس کتاب کامختصر پسِ منظریہ ہے
کہ صحاح ستہ یعنی حدیث کی مشہورچھ کتابوں میں شامل امام ترمذیؒ کی کتاب
’’سننِ ترمذی ‘‘کوخاص اہمیت حاصل ہے،حدیث کے طلبہ کے لئے یہ کتاب بڑی نفع
بخش سمجھی جاتی ہے،امام ترمذی ؒ عموماً کسی عنوان کے تحت ایک حدیث
ذکرفرماکراُس عنوان سے متعلق دیگراحادیث مکمل ذکرکرنے کی بجائے اُن کی جانب
اشارہ کرنے پراکتفاء کرتے ہیں،کہ اس موضوع سے متعلق دیگراحادیث بھی فلاں
فلاں صحابی سے منقول ہیں،ان احادیث کی تلاش وجستجو کاکام اولاً علامہ بنوری
ؒ نے خودشروع فرمایااورپھراس عظیم حدیثی خدمت کے لئے مولاناڈاکٹرحبیب اللہ
مختارکومنتخب کیا،آپ نے ان احادیث کی تحقیق وتلاش فرما کر ایک عظیم الشان
ذخیرہ جمع فرمایا،یہ عظیم اورمایۂ ناز حدیثی خدمت ’’کشف النقاب‘‘کے نام سے
پانچ جلدوں میں طبع ہوکرمنظرعام پرآئی،اوراہل علم کے ہاتھوں اس کتاب کو
خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ عموماً ،تدریسی ،تصنیفی اورانتظامی امورکی ذمہ
داریوں کابوجھ اتنازیادہ ہوتاہے کہ انسان اس بارِگراں کے ساتھ تصوف وسلوک
،ذکرواذکار کے لئے وقت نہیں نکال سکتا،لیکن ڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختارؒان
تمام خدمات اورذمہ داریوں کے باوجودتصوف وسلوک کی لائن میں بھی پیچھے نہیں
رہے ، چنانچہ آپ‘ قطب الارشادحضرت مولانا عبدالعزیز رائے پوریؒ سے بیعت
بھی تھے اورآپ کوخلافت بھی حاصل تھی،نیزآپ ذکرواذکاراوردیگرمعمولات بھی
پابندی سے سرانجام دیاکرتے تھے۔دیگرمناصب وعہدوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے
ساتھ ساتھ آپ سات برس تک جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم وشیخ الحدیث کی حیثیت
سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔نومبر1997ء میں آپ اپنے چندرفقاء کے ہمراہ اپنے
ادارے کی ایک برانچ میں ایک تصفیہ طلب مسئلہ کے حل کے لئے تشریف لے
گئے،اورواپسی پرآپ کی گاڑی گرومندرکے قریب جامعہ بنوری ٹاؤن سے چندقدم کے
فاصلے پرپہنچی تھی کہ دن دیہاڑے لوگوں کے جم غفیرکے سامنے 2؍نومبر1997ء
کوآپ اپنے رفیق مولانا مفتی عبدالسمیع ؒ اورڈرائیورمحمدطاہرؒکے ہمراہ
شہیدکردیئے گئے،آپ کوجامعہ بنوری ٹاؤن کے احاطہ میں مسجدکے دائیں جانب
اپنے محبوب ومشفق شیخ ومربی علامہ بنوری ؒ کے پہلومیں دفن کیاگیا،جہاں آپ
ابدی نیندآرام فرمارہے ہیں۔خدارحمت کنندایں عاشقانِ پاک طینت را۔ |
|