دمادم مست قلندر؟

 ستائیس دسمبر بھی گزر گیا، قوم کا خیال تھا کہ زرداری صاحب اپنی پٹاری سے کوئی نئی چیز ضرور نکالیں گے، سرپرائز کا اعلان انہوں نے خود بھی کر رکھا تھا۔ کوئی بڑی خبر تو سامنے نہ آسکی، تاہم سرپرائز والی بات درست ثابت ہوگئی، کیونکہ زرداری کی طرف سے قومی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کا اعلان کسی سرپرائز سے کم نہیں، ایک فرد جو پانچ برس ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر متمکن رہا ہو، اب وہ ساڑھے چار سو میں سے ایک بن جائے تو خود کو اتنا نیچے گرا لینا سرپرائز ہی تو ہے۔ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا زرداری کے لئے نئی بات نہیں، وہ پہلے بھی ان راہوں سے گزر چکے ہیں، وزارتوں کے تاج اپنے سر پر سجا چکے ہیں،اب بھی شکست کا انہیں کوئی خطرہ نہیں، مگر اب ایم این اے بننے سے ان کی حکومت بننے کے بھی کوئی امکان نہیں، بلکہ اب تو وہ ایسے وقت میں کشتی میں سوار ہو رہے ہیں، جب ساحل سامنے دکھائی دے رہا ہے، وہ ایک سال کے لئے ممبر اسمبلی بن کر کون سا معرکہ سر کرلیں گے ، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ دوسری طرف بلاول کو بھی میدان میں اتارا جار ہا ہے، یقینا اس عمل سے موصوف کو تجربہ حاصل ہو جائے گا۔ اپوزیشن لیڈرشپ کو ایک کھلونے کی طرح ایک بہت ہی جونئیر نوجوان کے ہاتھ میں دینا کوئی دانائی نہیں۔

اس اہم موقع پر پی پی کے فیصلوں سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ آمریتوں کے خلاف اپنی پوری توانائیاں ضائع کرنے والے پارٹی قائدین خود بھی اسی راہ پر گامزن ہیں، پارٹی اب بھی مکمل طور پر ایک جاگیر کی حیثیت رکھتی ہے، فردِ واحد اس میں فیصلے صادر کرتاہے اور پارٹی کے دیگر قائدین عقیدت سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اب تو زرداری سائیں خود آگئے مگر بزرگ قائدین جب ہاتھ باندھے، سرجھکائے بلاول کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ایسے ہی لگتا ہے کہ کسی ریاست کا شہزادہ ہے اور تمام وزیر اس کے رحم و کرم پر ہیں۔ زرداری نے بے نظیر کی برسی کے موقع پر جلسے میں ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا کہ پارٹی ایک ہی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ پی پی پر ہی کیوں جائیے، کہ یہ بھی ایک خاندان کی ذاتی جاگیر ہے، اور بھٹو کا نام ہی اس کے لئے روح کا کام دے رہا ہے، ورنہ یہ کب کی تہہ خاک چلی جاتی، اور اس کے قائدین کے نام قصہ پارینہ ہو جاتے۔بے نظیر کی حد تک تو بھٹو کا نام بیٹی کے نام کے ساتھ چمٹا ہوا تھا، مگر بعد میں جب دیکھا گیا کہ صرف زرداری کے نام پر پارٹی کو متحد نہیں رکھا جاسکتا تو اپنے زرداری بیٹے کو ’’بھٹو‘‘ بھی بنا دیا، تاکہ پارٹی کے جیالوں اور کارکنوں کی ہمدردیاں حاصل رہیں۔ اب دونوں باپ بیٹے کا اسمبلی میں آنے کا فیصلہ جہاں جمہوریت کے لئے روح افزا ہو گا، وہاں شخصی آمریت کی بھی بدتر مثال ہے۔ مسلم لیگ ن بھی ا س قسم کی آمریت میں کسی سے پیچھے نہیں، پارٹی کا نام ہی میاں نواز شریف کے نام سے ہے، تو اس سے زیادہ ذاتی اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟دیگر بہت سی سیاسی جماعتوں کی طرح یہ دو بڑی جماعتیں بھی آمرانہ رویوں کی حامل ہیں۔

زرداری یا اُن کے خلف الرشید بلاول کے اسمبلی میں پہنچنے سے ایک تبدیلی تو یہ آئے گی کہ ان کے لئے سیٹیں خالی کرنے کے لئے دو افراد کو اسمبلی سے باہر کر دیا جائے گا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوگی کہ بلاول اپوزیشن لیڈر بن جائیں گے، گویا ان کے بڑے ان کے ارد گرد بیٹھ کر ان کی تربیت کیا کریں گے، تاکہ ان کو تجربہ حاصل ہو اور آنے والے وقتوں میں وہ سیاست میں کامیاب اور جہاندیدہ کھلاڑی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اگرچہ پی پی کے قائدین کا یہ جمہوری فیصلہ ہے ، مگر اپنے لئے کسی سے نشست خالی کروانا جمہوری رویہ نہیں۔ دوسرا یہ کہ جو کچھ دعوے ایک عرصے سے پی پی قیادت کی طرف سے جاری تھے، چار نکات تھے، ان کو منظور نہ کئے جانے پر ’’دمادم مست قلندر‘‘ کی دھمکی تھی، کچھ کر گزرنے کے اعلانات تھے، مگر اب اسمبلیوں کے الیکشن نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ ملی بھگت ہی ہے، اس عمل سے بھلا کون سا انقلاب آجائے گا،اور حکومت کے لئے کونسی مشکلات کھڑی ہو جائیں گے۔ یہی ہوگا کہ اپوزیشن لیڈر آواز کی تان کھینچ کھینچ کر لکھی ہوئی تقریر پڑھا کرے گا ، اور حکومتی وزراء اس میں سے نکات چُن چُن کر جواب دینے اور مذاق کرنے کی کوشش کیا کریں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472638 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.