پاکستان پیپلزپارٹی کی پوزیشن سندھ میں تو
ٹھیک ہے لیکن ملک کے دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں یہ جماعت اپنی بقا
کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ اس جنگ میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے تاہم ان
مشکلات کے حل کے لئے جو کوششیں کی جاری ہیں وہ پیپلزپارٹی کو پنجاب ، کے پی
کے اور بلوچستان میں مضبو ط کرنے کے بجائے مزید کمزور کرتی دکھائی دے رہی
ہیں۔پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ بہت زیادہ کنفیوز نظر آ رہی ہے۔پہلے تو ایک بہت
ہی مختصر عرصے کے لئے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا قومی اسمبلی
کا رکن بننا ہی حیران کن ہے کیونکہ قومی اسمبلی کے دو نشتیں خالی ہونے کے
بعد کم از کم دو ماہ تو لگیں گے اس کے بعد ضمنی الیکشن ہوں گے ۔ پھر حلف
برداری کی تقریب تک تقریباً پندرہ دن اور گزر جائیں گے ، گویا اگر بہت جلدی
بھی ضمنی الیکشن کا عمل مکمل کیا گیا تو اس میں بھی کم از کم ڈھائی مہینے
لگ جائیں گے یوں آئیندہ الیکشن میں چودہ پندرہ مہینے رہ جائیں گے۔ یعنی
موجودہ حکومت نے اگر قبل از وقت الیکشن کا اعلان نہ کیا تو پھرپیپلزپارٹی
کے چیئرمین اور شریک چیئر مین بہت ہی مختصر عرصے کے لئے قومی اسمبلی کے رکن
رہیں گے ۔ پھر وہ قومی اسمبلی سے پاناما بل منظور کروانے کی کوشش کریں گے
اور پھر اگر کسی طر ح وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئے تو وہ عدالت میں
میاں نواز شریف کے خلاف مقدمہ لڑ کر انھیں نا اہل ثابت کرنے کی کوشش کریں
گے۔ دوسری طرف یہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل نکتہ ہے قومی اسمبلی میں ن
لیگ کو عددی اعتبار سے فیصلہ کن اکثریت حاصل ہے لہذا اس بات کا کوئی امکان
نہیں کہ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی سے کوئی بھی بل ن لیگ کی مرضی اور منشا کے
خلاف منظور کروا سکے۔ لہذا اگر یہ کہا جائے کہ پیپلزپارٹی ہر اعتبار سے
اپنے آپ کو اپنے سپورٹر اور ووٹر کے ساتھ ایک سنگین مذاق کر رہی ہے تو شاید
بے جا اور غلط نہ ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے سپورٹرزکیلئے اس صورت حال میں یہ
فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہو رہا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی
آمد کے بعد اسمبلی پر اور اسمبلی کی کارکردگی پر کیا فرق پڑے گا؟ اسی حوالے
سے یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ قومی اسمبلی میں دو زرداریوں کی آمد کے بعد
اپوزیشن لیڈر کون ہو گا۔ آصف علی زرداری جو پانچ سال تک ملک کے صدر رہ چکے
ہیں اور انھوں نے ایک بھر پور دور گزارا ہے۔ کیا اس دور کے بعد وہ قومی
اسمبلی میں ایک عام رکن کی حیثیت سے بیٹھتے ہوئے کیسے لگیں گے؟ یہ سوال ان
سے پی پی کے کارکن اور رہنما بھی کر رہا ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں
جمہوریت کی دعویدار کسی بھی جماعت میں جمہوریت نام کی کوئی چیز برائے نام
بھی دیکھنے کو نہیں ملتی لہذا کسی کے اعتراض اور کسی سوال کی نہ تو کوئی
گنجائش ہے اور نہ ہی اہمیت۔ اب تو فیصلہ کرنے ولے فیصلہ کر چکے ہیں کہ
انھیں قومی اسمبلی میں جانا ہے ۔ سو اب کون انھیں سمجھائے اور کون روکے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اصل رہنما اور کرتا دھرتا آصف علی
زرداری نے ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کو کھیلنے کا موقع دیا ہے۔دونوں
میں زبردست ہم آہنگی اور گہرے رابطے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے 27دسمبر سے
حکمراں جماعت کے سربراہ اور حکومت کے خلاف جو تحریک چلانے کا ’’ہوا‘‘ کھڑا
کیا تھا اسے آصف علی زرداری نے بہت ہی سکون اور دھیمے انداز میں اپنے منطقی
انجام تک پہنچا دیا۔اس پربلاول بھٹو زرداری کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا
پڑا ہے لیکن چونکہ فیصلہ پیپلزپارٹی کے وارث کا نہیں اس کے مالک کا لہذا
بلاول کی ایک نہ چلی۔ ویسے بھی بلاول کوابھی بہت زیادہ سیاسی تربیت کی
ضرورت ہے۔ جب بھی وہ اس سے ہٹ کو بولتے ہیں جو ان کو سکھایا گیا ہے ، تو اس
کے ساتھ ہی بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اوروہ کہیں نہ کہیں ڈی ٹریک ہوتے
دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں میں اس کارٹون کا ذکر ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ جو ایک
غیر معروف اخبار میں شائع ہوا لیکن بھر پور معنوں کے ساتھ۔ آصف علی زرداری
کی پاکستان آمد کے بعد یہ کارٹون شائع ہوا جس میں آصف علی زرداری کو ایک
گاڑی پر بیٹھے دکھایا گیا ہے ۔ گاڑی کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے ۔۔۔
پاکستان پیپلزپارٹی۔۔۔۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر آصف علی زرداری بیٹھے ہیں
۔ ان کی گود میں بلاول بھٹو زرداری بیٹھے ہیں جو ’’چوسنی‘‘ پی رہے ہیں۔
نیچے کیپشن لکھا ہے۔۔۔۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کی گود میں چیئرمین بلا
ول بھٹو زرداری ڈرئیونگ سیکھتے ہوئے۔۔ ۔ کارٹون دیکھنے کے بعد میں بہت دیر
تک سوچتا رہا کہ بات تو ۔۔۔۔ سچ ہی ہے۔۔۔۔پیپلزپارٹی یہ بھی اچھی طرح جانتی
ہے کہ ابھی بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے وزیراعظم بننے کے اہل نہیں ۔ ان
کی کئی اعتبار سے تربیت ہونے کی ضرورت ہے لہذا امکان یہ ہے اگر خوش قسمتی
سے یا ’’معجزاتی‘‘ طور پر پاکستان پیپلزپارٹی 2018کے الیکشن جیت بھی گئی تو
اس کے لئے پرائم منسٹر کے بہترین امیدوار خود آصف علی زرداری ہونگے۔
2018میں اگر کوئی ’’معجزہ‘‘ ہو ہی جاتا ہے تو پھر ایسی صورت میں بلاول بھٹو
کو پہلے سندھ کی وزارت اعلی دیکر تربیت دی جائی گی اور پھر اگلے الیکشن میں
یعنی2023 میں بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم کا امید وار کے طور پر پیش کیا
جائے گا۔ لیکن یہ سب پی پی پی کی خواہشات ہی محسوس ہوتی ہیں کیونکہ عملی
طور پر ایسا کچھ ہوتا دکھائی نظر نہیں دیتا۔ زمینی حقائق بہت مختلف
ہیں۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کی جب تک کوئی پوزیشن نہیں بنتی اس وقت تک
پیپلزپارٹی کی پوزیشن میں کسی بھی انقلاب یا تبدیلی کو کوئی توقع نہیں۔
تقریباً تمام ہی ضمنی الیکشن میں پی پی پی کو پنجاب میں نہ صر ف شکست ہوئی
ہے بلکہ بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، بعض موقعوں پر تو اس جماعت
کے امیدوار کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں۔ ادھر کشمیر میں جہاں پیپلزپارٹی کی
حکومت تھی وہاں پر بھی پی پی پی کو بد ترین شکست ہوئی ہے اور یہ سب کچھ
بلاول بھٹو کے پارٹی چیئرمین بننے کے بعد ہواہے۔ ان حالات میں پی پی پی کے
محلات میں خوش گمانی اور خوش فہمیاں ہی گشت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ |