دنیا میں قیام امن کیلئے اقوام متحدہ کے نئے سکریٹری جنرل کے عزائم

شام میں جنگ بندی معاہدہ اور سعودی عرب میں مشترکہ جنگی مشقیں اسلامی ممالک کے فوجی اتحادکے سربراہ جنرل راحیل شریف(ریٹائرڈ) مقرر
عالمِ اسلام اس وقت جس دور سے گزر رہا ہے شائد اس سے پہلے ایسے حالات نہ رہے ہوں۔ فلسطین میں اسرائیلی ظلم و بربریت کاسلسلہ جاری ہے تو شام میں بشارالاسد ،ولادیمیرپوٹین کی ظالم افواج کی کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بشارالاسد اور اپوزیشن گروپ کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پاچکا ہے اس کے باوجود مظلوم شامی عوام سکون و راحت کی زندگی گزارنے سے ابھی محروم ہیں کیونکہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کے باوجود کون کب کس پر حملہ کرتا ہے اس کا ڈر شامی عوام کو ہے اور داعش ٹھکانوں پر حملے کے نام پر عام شہریوں کو ہلاک کیا جاتا رہا ہے، ماضی میں بھی جنگ بندی کے معاہدے ہوچکے ہیں ایک طرف معاہدہ کیا جاتا ہے تو دوسری جانب کسی نہ کسی بہانے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ فی الحال شام میں جنگ بندی معاہدہ کے موقع پر 14عسکری گروپوں نے دستخط کرنے کی اطلاعات ہے ، شام میں جنگ بندی کے سلسلہ میں حال ہی میں روس اور ترکی کی مساعی سے بشارالاسد کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ جنگ بندی معاہدے میں اپوزیشن کی نمائندہ ’جیش الحر‘ کے ماتحت 14 عسکری گروپوں نے دستخط کردیئے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں جنگ بندی معاہدے کا حصہ بننے والے اپوزیشن کے گروپوں میں ’’فیلق الشام‘‘ سر فہرست ہے جس کے 19 ذیلی گروپ اور 4 ہزار جنگجو بتائے جاتے ہیں۔ یہ تنظیم حلب، ادلب ، حمات اور حمص میں لڑائی میں حصہ لے چکی ہے۔دوسری اہم تنظیم’’احرار الشام‘‘ ہے۔ اس کے 80 ذیلی یونٹ ہیں اور کل جنگجوؤں کی تعداد 16 ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہ گروپ حلب، مضافات حلب، درعا، ادلب، اللاذقیہ، حمات اور حمص میں لڑتی رہی ہے۔’’ثوار الشام‘‘ نامی گروپ کے 8 ذیلی بریگیڈ اور 10 ہزار جنگجو ہیں اس گروپ کا مرکز حلب، ادلب اور اللاذقیہ رہے ہیں۔عسکری تنظیم سلطان مراد بھی جیش الحر کے وفاداری میں لڑتی رہی ہے۔ حلب اور جنوبی حلب میں اس کے سیکڑوں جنگجو سرگرم رہے۔’صقور الشام‘ نامی گروپ کے 12 ذیلی بریگیڈ ہیں جن سے 16 ہزار جنگجو وابستہ ہیں۔ ادلب اور حلب اس گروپ کے اہم مراکز ہیں۔الشامی محاذ کے پانچ ذیلی گروپ اور تین ہزار جنگجو ہیں۔ یہ گروپ حلب، ادلب اور دمشق میں لڑائی میں شامل رہا ہے۔جیش العزی شمال مغربی شام میں لڑنے والی اپوزیشن کی تنظیم ہے۔ اس کی زیادہ تر سرگرمیاں ساحلی علاقوں تک محدود ہیں۔شہداء اسلام بریگیڈ ادلب میں سرگرم رہا، جنگ بندی معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں ادلب الحر کے چھ ہزار جنگجو بھی شامل ہیں۔ ادلب، حلب، اللاذقیہ اور حمات ان کے مراکز ہیں۔جیش الحر کے ماتحت جنگ بندی معاہدے میں شامل ہونے والے گروپوں میں ’فیلق الرحمان‘ بھی شامل ہے۔ یہ تنظیم دارالحکومت دمشق میں سرگرم رہا ہے۔جیش الاسلام کے 64 ذیلی گروپ ہیں جن سے 12 ہزار افراد وابستہ ہیں حلب، دمشق، درعا، دیر الزور، اللاذقیہ، حمات اور حمص اس کے مراکز ہیں۔اس طرح ان گروپوں کی جانب سے معاہدہ پر دستخط کرنے کے باوجود کہا جارہا ہے کہ ابھی شام کے حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔اگر معاہدہ طے پانے اور اس پر دستخط ہونے کے باوجود بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں حالات تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کا اقتدار سے بے دخل ہونا ہی شام کے لئے بہتر ہوگا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بشارالاسد اتنی آسانی سے اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گے کیونکہ روس اور ایران کی تائید و حمایت اور بھرپور تعاون ہی کا نتیجہ ہے کہ بشارالاسد شام کے اقتدار پر فائز ہیں ، امریکہ ، سعودی عرب اوردیگر اتحادی ممالک کی جانب سے بشارالاسد کو بے دخل کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ آج بھی شام کے مظلوم مسلمانوں پرظلم و بربریت ڈھارہا ہے اور سمجھا جارہا ہے کہ اپوزیشن، بشارالاسد سے روس اور ایران کی طاقتور حمایت کی وجہ سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بشارالاسد اور اپوزیشن کے درمیان اتحاد ہوبھی جاتا ہے توکیا جہادی تنظیم دولت اسلامیہ شام میں قیامِ امن مساعی کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرلیں گی۔ اس سلسلہ میں ماضی پر نظر ڈالنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دولت اسلامیہ (داعش) کسی صورت بشارالاسد کے اقتدار پر فائز رہنے کو برداشت نہیں کرے گی اور وہ اپنی خلافت کے دائرے کو بڑھانے کے لئے کوشش کرے گی ویسے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ جس تیزی سے مختلف علاقوں اور شہروں پر قبضے کرچکی تھی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس میں اب اسے پیچھے ہٹنا پڑرہا ہے کیونکہ امریکہ، روس اور کئی اتحادی ممالک داعش کو ختم کرنے کیلئے وسیع تر فوجی طاقت و قوت کا استعمال کرتے ہوئے اسے شکست سے دوچار کررہے ہیں۔نئے منتخبہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے صدارتی عہدہ کا جائزہ لینے کے بعد شام کے حالات پر کس قسم کا اقدام کرتے ہیں کیونکہ روس کے صدر ولایمیرپوٹین سے انکے تعلقات بہتر بتائے جارہے ہیں اس لئے اگر امریکہ خاموشی بھی اختیار کرتاہے تو بشارالاسد کی تائید و حمایت سمجا جائے گا۔ادھر سعودی عرب میں فبروری سے مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز ہونے والا ہے ۔اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد جس میں 39ممالک شامل ہیں کے سربراہ کی حیثیت سے سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف (ریٹائرڈ)کو مقرر کیا گیا ہے۔، جس میں ترکی، پاکستان، عرب امارات،اردن، بحرین، کویت، سوڈان، مالدیپ، تیونس، مصر، ملائشیا، سینگال، چاڈ سمیت کئی مسلم ممالک کی افواج حصہ لیں گی،ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب میں شروع ہونے والی مشترکہ جنگی مشقوں میں مقامی فوجی جوانوں کے ساتھ بین الاقوامی افواج کے جوان بھی حصہ لیں گے۔ ان مشقوں کے مقاصد دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی اور تربیت بتائی جارہی ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات شدت پسند جماعتوں اور انہیں ختم کرنے کے نام امریکہ ، روس و اتحادی ممالک کی کارروائیوں کے نتیجہ میں بد سے بدتر ہوچکے ہیں، سعودی عرب کی معیشت بُری طرح متاثر ہوچکی ہے، کروڑوں ڈالرس کے فوجی سازو سامان اور ہتھیاروں کی خریداری ، یمن اور شام کی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے سعودی عرب کنگال ہوچکا ہے، گذشتہ برس سے سعودی عرب کا بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے۔ ہزاروں تارکنانِ وطن جو سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے اپنے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش و دیگر ممالک کے ہزاروں تارکین وطن کئی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں انہیں اپنے ملک واپس آنے کے لئے مشکلات و مصائب سے گزرنا پڑرہا ہے۔ اگر شام، عراق ، یمن کے حالات یوں ہی رہے تو مستقبل قریب میں عالمِ اسلام مزید مسائل و مشکلات سے دوچار ہوجائے گا۔ اسی لئے ضروری ہے کہ عالمِ اسلام کے حکمراں اور قائدین خطہ کے حالات پر قابو پانے کے لئے حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدت پسند تنظیموں اور دشمنانِ اسلام کے ناپاک عزائم کو کامیاب ہونے نہ دیں ۔ سابق امریکی صدوربش سینئر، بش جونئر، کلنٹن اور دوسری میعاد پوری کرنے والے صدر بارک اوباما کے دور میں عراق ، افغانستان، شام،یمن، مصر، لیبیاء، پاکستان وغیرہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ان امریکی صدور کے دورِ حکمرانی میں جس طرح لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا اور جس طرح مسلم ممالک کی معیشت کو تباہ و تاراج کیا گیا اسی کا نتیجہ ہیکہ جہادی تنظیموں کا وجود عمل میں آیا۔ آج بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد بتانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ جنہوں نے عراق پر الزام عائد کرکے بے دریغ، خطرناک فضائی حملے کئے وہ آج اپنی نااہلی کو ماننے کے باوجود دہشت گردی کا الزام ان مظلوم مسلمانوں پر لگارہے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ تباہ و برباد ہوتے دیکھا، جنہوں نے اپنے معصوم بچوں، خواتین، نوجوانوں اور ضعیفوں کو تڑپتے بلکتے زخمی ہوتے اور شہید ہوتے دیکھا۔ آج بھی شام، عراق، یمن، ترکی وغیرہ میں شدت پسند تنظیموں اور انہیں ختم کرنے والے اتحادیوں کی فضائی و زمینی کارروائیوں کے نتیجہ میں معصوم، بے گناہ مسلمان چین کی نیند سونے سے محروم ہیں، انہیں غذائی اشیاء اور ادویات میسر نہیں۔ پناہ گزیں کیمپوں میں کڑاکے کی سردی سے ٹھٹھرنے والوں کا حال بُرا ہے ، بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں روہنگی مسلمان سردی میں ٹھٹھررہے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے آپ کو انسانیت کے علمبردار بتانے والے سوپر پاور حکمراں ان معصوم ، بے گناہ ، مظلوم مسلمانوں کی آہ و بکاہ سنائی نہیں دیتی۔لیکن جب ان ممالک میں اگر کوئی دہشت گرد انہ کارروائی ہوتی ہے تو ساری دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے ۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صرف چند مذمتی کلمات ادا کردیئے جاتے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ واقعی بین الاقوامی سطح پر انسانیت کی بقاء و سلامتی چاہتا ہے تو عالمِ اسلام خصوصاً شام، عراق، یمن کے حالات پر قابو پانے اور امن و آمان کے قیام کے لئے ان سوپر پاور ممالک پر دباؤ ڈالے۔ جس طرح اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کہا ہے واقعی اگر وہ مشرقِ وسطی میں امن و آمان کے لئے پہل کرتے ہوئے کامیاب ہوجاتے ہیں تویہ ایک تاریخ بن جائے گی۔

جنگوں سے صرف تباہی ہوتی ہے، اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل
پرتگال سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے نئے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدخطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ قیام امن کو اوّلین ترجیح دی جائے گی، جنگ کوئی بھی نہیں جیتا، جنگوں کی وجہ سے پورے پورے خطے غیر مستحکم ہو جاتے ہیں اور اس طرح عالمی دہشت گردی کے نئے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سکریٹری جنرل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ تنازعات میں الجھے ہوئے ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پْل کا کردار ادا کریں گے، ذرائع ابلاغ کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے موقع پر خطاب کے دوران انہوں نے دنیا بھر میں قیام امن کی بات کی۔انٹونیو گوٹیریش نے دنیا بھر کے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ مشترکہ طور پر یہ ارادہ کریں کہ قیام امن کو اوّلین ترجیح دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ امن ہماری منزل ہونی چاہیے اور امن کے قیام کا انحصار ہم پر ہے۔گوٹیریش نے اپنے خطاب میں اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ تنازعات میں الجھے ہوئے ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پْل کا کردار ادا کریں گے۔انہوں نے کہاکہ تمام حکومتوں کو اس عمل میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا اور یقیناً امریکہ کی نئی حکومت کو بھی۔ تاکہ اْن مسائل کا حل نکالا جائے، جن کا ہمیں مشترکہ طور پر سامنا ہے۔اگر واقعی نئے سکریٹری جنرل اپنے اس عزم میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ایک اچھی اور دنیا کی ترقی و خوشحالی کے لئے خوش آئند بات ہوگی ۔

مقبوضہ کشمیر کے ہندو مہاجرین کیلئے
ہندوستانی حکومت نے پاکستانی کشمیر(مقبوضہ کشمیر) سے جموں و کشمیر میں پناہ حاصل کرنے والے ہر ایک پناہ گزیں کیلئے ساڑھے پانچ لاکھ کی رقم ڈپازت کی ہے اس طرح 2ہزار کروڑ کی رقم مرکز نے ڈپازٹ کی ہے۔ 36ہزار ہندو پناہ گزیں ہیں جو 1947, 1965اور 1971میں جموں و کشمیر آئے تھے۔

پاکستانی فوجی سربراہ کو افغانستان کے دورے کی دعوت
نئے سال کی مبارکباد کے موقع پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کو ایک بار پھر بہتر بنانے کی راہ ہموار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی فوجی سربراہ نے نئے سال کی مبارکباد دینے کے لئے افغان صدر اشرف غنی لون ، چیف ایگزیکیٹیو عبداﷲ عبداﷲ ، افغان فوجی سربراہ جنرل قدم شاہ رحیم کو فون کرکے نئے سال کی مبارکباد دی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس موقع پر پاکستانی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو افغان رہنماؤں نے افغانستان دورے کی دعوت دی۔ پاکستانی سربراہ نے افغان حکام سے امن کے لئے مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا۔ اب دیکھنا ہیکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ چند ہفتے قبل جس طرح تعلقات بگڑتے دکھائی دیئے تھے اس میں بدلاؤ آتا ہے یا نہیں ۰۰۰

نئے سال میں نئے امریکی صدر کی پالیسی کیا رہے گی؟
منتخبہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ20؍ جنوری کو امریکی صدارت کا جائزہ لینے کے بعد سمجھا جارہا ہے کہ موجودہ امریکی صدر بارک اوباما کی پالیسیوں کو قائم رکھنے کے بجائے نئی پالیسیاں مدون کروائینگے۔ جس طرح اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پاس کرنے میں اوباما انتظامیہ نے ویٹو کا استعمال نہیں کیا اور روس کے خلاف انتخابات کے سلسلہ میں الزامات عائد کرتے رہے ہیں اب دیکھنا ہیکہ ٹرمپ کی پالیسی کیا رہے گی اور وہ عالمِ اسلام کے ان ممالک کے ساتھ کس قسم کی پالیسی اختیار کریں گے ۔
***
 
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.