گرفتاری اور قید، جیل اور عدالت…… اور ان
جیسے ہی دیگر الفاظ انسانی زندگی کے لئے سب سے تلخ اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
پنجرہ چاہے سونے کا ہی کیوں نہ ہو اور وہاں کھانا چاہے، اعلیٰ سے اعلیٰ ہی
کیوں نہ ہو، عقل و شعور کا شائبہ رکھنے والاکوئی بھی ذی روح اسے ایک لمحہ
برداشت نہیں کر سکتا ۔اسی لئے تو پس دیوار زنداں کوبدترین اذیتوں میں سے
ایک جانا جاتا ہے اور ہر مخالف اپنے دشمن کے لئے پہلا حربہ یہی اختیار کرتا
ہے۔اورجو کوئی اس کا شکار ہو ہی جائے ،اس کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے ،جیسے
تیسے ہو اس سے نجات پا لے ۔ اگر ایک جیل تنگ و تاریک کوٹھڑی کا نام ہے تو
اس کی ایک اور شکل کھلے آسمان تلے قید و بند بھی ہے ۔اگرکسی نے کوئی ایسی
جیل دیکھنی ہو تو ہم اسے مقبوضہ وادی کشمیر لے چلتے ہیں جہاں 70 لاکھ سے
زائد لوگ ایک ساتھ قید ہیں۔ دنیا کی اس سب سے بڑی کھلی جیل کے اندر بھی
مزید بے شمار چھوٹی بڑی جیلیں ہیں ۔ جب کبھی یہ جیلیں اپنے قیدیوں کو
سہارنے سے عاجز آ جاتی ہیں تو داروغے قیدیوں کو یہاں سے بھی سنگین حالات
میں لے جاتے ہیں کہ شاید اسی طرح ان قیدیوں کے جگر پگھل جائیں اور وہ ان کی
زبان سے اپنی مرضی کا بیان نکلوا اور ان کے اعضاء و قویٰ کو اپنی مرضی سے
حرکت کروا سکیں لیکن 70 سال سے ایسا نہیں ہو سکا۔ کل کی بات ہے، اس جیل کے
ایک مسرت عالم نامی قیدی کو اندھیرے میں اس ڈوبی کوٹھڑی سے کھلی جیل میں
لانے کا حکم صادر ہوا لیکن صیاد و جلاد اس قیدی سے اتنا خوفزدہ ہیں کہ اس
کو کھلے آسمان پر نگاہ ڈالنے سے پہلے ہی دوبارہ پابہ زنجیر کوٹھڑی میں
ٹھونس دیا گیا۔ بھارت نے ایسے کشمیری جگر پاروں کو پگھلانے کے لئے کالے
قانون کا نام’’ سیفٹی ایکٹ‘‘ رکھا ہے جس کے تحت کسی بھی گرفتار شدہ فرد کے
خلاف کسی بھی عدالت میں 6 مہینے تک کوئی سماعت نہیں ہو سکتی۔ یہ کالا قانون
ہمارے جیسا ہی گوشت پوست رکھنے والے اس مسرت عالم پر اب تک 34 مرتبہ عائد
کیا جا چکا ہے یعنی ساڑھے 18 سال اسی ایک قانون کے تحت ایک ہی قیدی قید
کاٹتے گزار چکا ہے جو خود ایک ریکارڈ ہے۔اس ایک جوان رعنا کی گزشتہ 26 سالہ
زندگی میں سے 19 سال ایسے ہیں جو اس نے کھلی جیل(وادی کشمیر)سے آگے چل کر
تنگ جیل میں گزارے ہیں لیکن بے پناہ قوت و طاقت اور ساری دنیا کی مدد و
حمایت کادعویدار بھارت ایک ’’مرد حُر‘‘ کا سر نہیں جھکا سکا۔
’’میں تو بچپن سے ہی سنگ با ز ہوں، کے جملے کو زبان پر سجانے اور کشمیری
نسل نو کے دل و دماغ میں بسانے والے مسرت عالم جولائی 1971ء کو سرینگر کے
زین دارمحلے میں ہوا۔ اس نے 1989 میں کشمیری نوجوانوں کی جانب سے شروع کردہ
جہادی تحریک کے عروج کے ساتھ ہی بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور پھر برسوں
اپنے وطن کشمیر کے پہاڑوں، جنگلوں،ندی نالوں اور ویرانوں کو اپنا مسکن
بنایا، جہاں نیچے نہ بستر نہ اوپر کوئی چھت، کوئی در نہ دیوار اور پھر دشمن
کا ہمہ وقت گھات۔ یوں اس نے کتنے ماہ و سال اپنے دشمن بھارت کی فوج کو خوب
خوب ناکوں چنے چبوائے۔جب دنیا نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کشمیریوں کو بندوق
اور گولی کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آ کر اپنے دل کی بات اور
مطالبہ رکھنا چاہئے کہ بھارت تو بات چیت پر آمادہ ہے لیکن یہ نوجوان ہی
آمادہ نہیں۔ مسرت عالم نے نئی اڑان بھری اور بھارت اور اس کے دنیا بھر کے
حواریوں کو یہاں بھی خوب ننگا کیا۔وہ 1999میں سرینگر کے مرکز میں آن کھڑے
ہوئے۔ تعلیمی سلسلہ جہاں روکا تھا، ایک مرتبہ پھر وہیں سے شروع کیا اور
اپنے دادا کی کپڑے کی دکان پر بھی کام کاروبار شروع کر دیا تو ہو اوہی جس
کا ڈر تھا، مکار ہندو بنیے نے انہیں فوراً یہاں سے اٹھوایا اور پس دیوار
زنداں پھینکوایا، پھر……وہ زمانہ اور آج کا زمانہ، انہیں چند دنوں کے لئے
رہائی ملی بھی تو کیا ملی کہ نہ ملی…… اگر انہیں کبھی رہائی مل بھی گئی تو
وہ کبھی اسے رہائی تو مانتے ہی نہیں اور ہمیشہ سے کہتے ہیں،رہائی کاہے کی
’’چھوٹی جیل سے نکل کر بڑی جیل میں ہی تو آیا ہوں‘‘ پروفیسر حافظ محمد سعید
اور پاکستانی فوج کی حمایت و تعاون کے جرائم، ان کے ایام زیست کا طوق بنائے
جاتے ہیں تو وہ یہ سب کچھ بصد خوشی تو قبول کرتے ہیں لیکن بھارت کو ہمیشہ
ہی نیچا دکھاتے ہیں۔ یہ مسرت عالم اسی سید علی گیلانی کے دست راست ہیں جن
کی عمر اب 87 سال سے آگے گزر چکی ہے۔ زندگی کابڑا حصہ بھارت کے بڑے قید
خانے یا پھر اس کے اندر چھوٹے قید خانوں میں گزار چکے ہیں لیکن پائے
استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ زمانہ بیتا،بھارت انہیں نماز جمعہ تک ادا
کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں ان کی نماز جمعہ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت پاش پاش نہ ہو جائے اور یہ جواں جذبوں کے حقیقی امین اول دن کی طرح
ڈٹے ہوئے ہیں۔
جنوبی مقبوضہ کشمیر جس نے ہمیشہ ہی بھارتی ایوانوں کو خاص طور پر لرزایا
اور دہلی کو دہلایا ہے ، سے اٹھنے والی ایک اور آواز کو دبانے کے لئے
بھارتی لاؤلشکر ہمیشہ ہی بے قراررہے ہیں۔ ان سے ملئے ،یہ ہیں مولانا سرجان
برکاتی۔یہ مولانا قاضی یاسر کی تحریک امت اسلامی کے مرکزی رہنما ہیں،بظاہر
نحیف و نزار جسم کے مالک لیکن اندر وہ طوفان رکھتے ہیں کہ بھارت ہمیشہ ہی
ان کے نام لے کے سر پٹختا ہے ۔سرخ و سفید رنگت، حنا سے لال بال اور چمکدار
داڑھی رکھنے والے سرجان برکاتی ،حصولِ آزادی کے کسی بھی جلسے کے سٹیج
پرجیسے ہی نمودار ہوتے ہیں کشمیری قوم کے رگ و پے میں جیسے بجلیاں کوند آتی
ہیں ’’ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی……؟ ‘‘کا نعرہ ایسی آواز اور ایسے انداز سے
اٹھاتے ہیں کہ ہر سننے والے کا رواں رواں آزادی آزادی پکارنے لگتا ہے۔
کشمیری قوم انہیں ’فریڈم انکل‘ اور ’چچا آزادی‘ کے نام سے پکارتی ہے۔ جب وہ
ایک کان پر ہاتھ رکھ کرتن بدن میں آگ بھر دینے والے نعرے لگاتے اور خطاب
کرتے ہیں تو بھارت بے بس ہونے لگتا ہے۔ اسی لئے تو انکی گرفتاری کو بھارت
نے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا اور اس دن بھارتی سورماؤں کی خوش دیدنی
تھی کہ جیسے اب جنوبی کشمیر ان کی جھولی میں گر چکا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ
وہ اگر ایک کشمیری خاتون محترمہ آسیہ اندرابی کا حوصلہ نہیں توڑ سکے تو وہ
ان لاکھوں مردان وطن کو کیسے نیچا دکھا پائیں گے۔ وہی آسیہ اندرابی جن کا
سرتاج 24 سال سے بھارتی قید میں ہے اور جن کے بارے بھارتی سپریم کورٹ تک
کہہ چکی ہے کہ انہیں تادم مرگ جیل میں رہنا پڑے گا۔ ان کا اولین نام تو
عاشق حسین فکتو تھا جسے انہوں نے محمد قاسم فکتو سے بدل دیا تو سیدہ آسیہ
اندرابی نے اپنے بیٹوں کے نام محمد بن قاسم اور احمد بن قاسم رکھ دیئے۔ جیل
میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کرنے والے ڈاکٹر قاسم فکتو کو یورپی یونین اورخود
بھارت عالمی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے چکے ہیں لیکن ان کاابرو نیچا نہیں کر کے
دکھاسکے۔کل کی بات ہے ،سیدہ آسیہ اندرابی جیل سے نکلیں تو علیل بیٹے کی
عیادت سے پہلے قبرستانِ شہداء پہنچیں اور پھر جب گھر قدم رکھاتو وہ چھوٹے
قید خانے میں بدل چکا تھا ۔یہ وہی خاتون ہیں کہ جنہوں نے دختران ملت تشکیل
دی اور لاکھوں کشمیری ماؤں بہنوں کو نہ صرف دین سے آشنا کر دیا بلکہ نسل نو
کو جہاد کی راہ پر ہی چلا دیا۔
اس راہ پر نیلسن منڈیلا سے زائد قید کاٹنے والے شبیر شاہ بھی موجود ہیں تو
ایسے ہی یاسین ملک اور دیگر پردازان کارواں بھی…… بھارت نے جیلوں میں چند
ہفتوں کے دوران 10 ہزار کا مزید اضافہ کیا ہے۔ ان کے سروں کی فصل کاٹ کاٹ
کر بھارت اور اس کی فوج کے ہاتھ شل دماغ ماؤف ہو چکے ۔بھارت کی فوج دنیا
میں خودکشیوں اور باہمی قتل کے میدانوں میں دوسرے نمبر پر آ چکی…… لیکن وہ
ایک بھی کشمیری کا سر جھکانے میں کامیاب نہیں۔ وہ وقت آ رہا ہے جب یہ جبر و
استبداد ڈھاتے بازو شل ہو کر ٹوٹیں گے تو بھارت کو ہی نہیں، اس کے حواریوں
کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ ان کا پالا کس قوم سے پڑا تھا اور پھر کتنے
مظلوموں کو آزادی بھی ملے گی۔ |