وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنے تجارتی
مقاصد قومی پالیسی کے آئینہ دار بنانا چاہتے ہیں۔سی پیک سمیت انھوں نے دیگر
میگا پراجیکٹس شروع کئے۔ ڈھانچے کی جانب توجہ دی۔ اس وجہ سے چین نے بھاری
سرمایہ کاری کی۔ تا ہم بھارت کو یہ سب راس نہیں آتا۔ وہ اس کی آڑ میں
الزمات لگا رہا ہے۔ اسے سفارتکاری سے کوئی رغبت نہیں۔ سفارتکاری اصل میں
مکاری کا ہی دوسرا نام ہے۔ یہ حیلے بہانوں ، وقت گزاری ، دھوکہ دہی،
چاپلوسی جیسے حربوں کے استعمال سے کامیاب رہتی ہے۔ لیکن اسلامی سفارتکاری
کے شایان شان ہر گز نہیں۔ان کی سیاست چانکیائی ہے۔ دہلی کے جس علاقے میں
دنیا کے سفارتخانے ہیں۔ اس کا نام چانکیاپوری رکھا گیا ہے۔ یہ نام سوچ سمجھ
کر رکھا گیا ہے کہ ہر وقت چانکیا اور اس کا مشن یاد رہے۔ خاص طور پر جب
سفارتخانوں یا دنیا سے تعلقات و معاملات کی ضرورت درپیش ہو تو چانکیا پوری
کا نام لینے سے حکام خبردار ہو جائیں۔ کہیں وہ چانکیا کے فلسفے کو فراموش
نہ کر دیں۔ چانکیاکا فلسفہ کیاہے۔چانکیا قدیم چندر گپت موریا کی سلطنت
کامشیر تھا۔ ہندو ازم میں اسے بڑا فلسفی اور استاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہی
ہندو سیاسی نظریہ’’ ارتھ شاستر ‘‘کا تخلیق کار ہے۔ اسے بھارت کا میکاولی
بھی کہا جاتا ہے۔ میکاولی اطالوی فلاسفر اور سفارتکار گزرا ہے۔ جس کا دوسرا
نام دھوکہ اور فریب تھا۔چانکیا نے دھوکہ دہی اور سانپ جیسی خصلت اپنانے کی
تلقین کی ہے۔
مولانا روم بیان کرتے ہیں کہ بغداد میں ایک سپیرا پہاڑ کی جانب گیا تا کہ
منتروں سے سانپ پکڑ لائے۔ تلاش کرنے والا خواہ چست ہو یا سست ہو، وہ پا
لیتا ہے۔ انسان کو ہر وقت جستجو میں ہی رہنا چاہیئے۔ بہر حال اس نے ایک
مردہ سانپ دیکھ لیا۔ حضرت موسیٰ ؑکی چھڑی بھی اﷲ کے حکم سے سانپ بن گئی تھی۔
یہ زمین اژدہا ہے جو انسانوں کو نگل رہی ہے۔وہ بڑے سانپ کو مردہ سمجھ کر
بغدادلے آیا۔تماشہ دکھانے دجلہ کنارے اس نے بڑامجمع لگایا۔ شہر میں شور مچ
گیا کہ ایک سپیرا اژدہا لایا ہے۔ اس اژدہا پر جب عراق کا سورج چمکا ۔تپش سے
اس کی سردی جاتی رہی۔ اس نے بل کھانے شروع کئے۔ اس کی رسیاں ٹوٹنے لگیں۔ اب
وہ شیر کی طرح لوگوں پر اچھلنے لگا۔ اس نے احمق سپیرے کو بھی لقمہ بنا لیا۔
ایک ستون کے گرد لپٹا ۔ انسانی ہڈیاں ریز ہ ریزہ ہو گئیں۔ پھر وہ بستی کو
خالی کر کے پہاڑ کی طرف نکل گیا۔چانکیا کی ہدایت پر اس کے پیروکاروں کی
سانپ جیسی خصلت ہے۔ دہلی میں پاکستان کا سفارتخانہ بھی چانکیا پوری میں ہے۔
مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں ایک کشمیر پالیسی دی ہے۔ یہ خارجہ پالیسی اور
قومی سلامتی کے زمرے میں لائی گئی ہے۔اس میں کئی اہم باتیں ہیں۔ ابتدا میں
اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اچھی خارجہ پالسیی اقتصادی امور کو بھی
فروغ دیتی ہے۔خارجی پالیسی ایک بڑا اور حساس توجہ طلب اور تحقیق طلب موضوع
ہے ۔ مسلم لیگ ن اب ’’ توانائی کی دولت سے مالا مال وسطی ایشیا اور ایران
اور کم توانائی رکھنے والے ممالک چین اور بھارت کے درمیان پل کا کردار ادا
کرنا چاہتی ہے۔ گوادر بندرگاہ کے زریعے مغربی چین کوبحیرہ عرب اور بھارت کو
افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان رابطہ مہیا کرانے کی خواہشمند
ہے۔ بھارت کو ایران تک رسائی کے لئے زمینی راستہ دینے اور وسط ایشیائی
ریاستوں سے بحیرہ عرب تک رسائی کے علاوہ بھارت کو تیل اور گیس کی پائپ لائن
تک رسائی دینے کی طلبگار ہے۔ اس لئے نئی ضارجہ پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔
‘‘ن لیگ اپنے منشور پر فوری عمل چاہتی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اس کے منشور
میں ایک جملہ درج ہے۔’’اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور 1999ء کے
معاہدہ لاہور کے مطابق کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسلہ کشمیر کے حل کے
لئے بھر پور کوششیں کی جائیں گی۔ ‘‘اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کیا ہے۔
اس کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ بھارت نے کشمیر میں رائے شماری کرانی ہے۔ جو
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہو۔بھارت کشمیر کو اقوام متحدہ کے کسی کردار سے
نکال کر دوطرفہ طور پر حل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مفاد میں جوں کی توں
صورتحال ہی ہے۔ دوطرفہ مذاکرات وہی چانکیائی پالیسی ہے۔ بھارت تیاری کر رہا
ہے۔ چین کے ایک تھینک ٹینک نے ایک بار کہا تھا کہ بھارت ایک ساتھ چین
اورپاکستان کے خلاف محدود جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ سرحدوں پر اس کی فوجوں
کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ تباہی پھیلانے والااسلحہ بھی نصب کر رہا
ہے۔برہان وانی کی شہادت کے بعد بی جے پی کی پالیسی میں جارحیت پائی جاتی ہے۔
ہاں اگر پاکستان کشمیر سے الگ ہو جائے۔ پانی پر اپنے مطالبے سے دستبرداری
کا اعلان کرے جبکہ مودی پاکستان آنے والا پانی بند کرنے کی دھمکیاں د رہے
ہیں۔ بھارت کورعائیت دینے کی یقین دہانی کرائے۔ تو شاید پاک بھارت نام نہاد
دوستی ہو جائے۔ جس سے بھارتی عوام کو کشمیر کی جدوجہد کو کچلنے اور پاکستان
کو بے وقوف بنانے کا کریڈٹ لیا جائے گا۔ کیا میاں نواز شریف ایسی کسی خفیہ
سفارتکاری کا ارادہ ظاہر کر سکتے ہیں۔کم از کشمیر کی قیمت پر ، قربانیوں
اور شہداء کے خون سے سودا بازی کوئی قبول نہیں کرے گا۔کشمیری بھی ایسی ہی
پایسی چاہتے ہیں۔ رائے شماری۔ ریفرنڈم۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں۔ اگر ن
لیگ کے منشور کے ہر لفط پر عمل ہو گا ۔ جیسا کہ وعدہ کیا جا رہا ہے تو مسلہ
کشمیر کواقوام متحدہ کی قرادادوں اور اعلان لاہور کے مطابق حل ہونے سے کوئی
نہیں روک سکے گا۔ میاں صاحب نے ملیحہ لودھی کے ساتھ اس آپشن کو بھی زیر بحث
لایا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے نئے سیکریٹری جنرل انتیونیو گتریز سے
ملاقات میں بھی بتائی۔گتریز بھی ثالثی کی پیشکش کرتے ہیں۔لیکن بھارتی ہٹ
دھرمی ختم نہیں ہو سکتی۔ بھارت کا پاکستان کو بھی یہی پیغام ہے۔ ’’لڑنے سے
کیا فائدہ۔آئیں کشمیر آپس میں بانٹ لیں۔ ‘‘ جو حکومت بھارتی موقف کو تسلیم
کرے گی۔ نئی دہلی کے لئے وہی اچھی ہے۔ جو حکومت کشمیریوں کو بھارت سے بات
کرنے کی صلاح دے ۔ جو کشمیر پر پانی کو ترجیح دے۔ سیاچن، سر کریک ، وولر
بیراج میں فیصلہ اپنے حق میں کرانے کے لئے کشمیر کو بھول جائے۔ میاں محمد
نواز شریف کوکشمیر کی قیمت پر،خون کے بدلے، جان و مال ،عزتوں ،قربانیوں کے
عوض کشمیر کا سودا قبول نہیں ہو گا۔ لوگوں کی ترجیحات بدلتی رہیں۔چند لوگ
اگرتھک کر یا مایوس ہو کر تحریک سے الگ ہو گئے یا ان پر مفادات غالب آ گئے
تو ان کی جگہ نئے پر عزم لوگوں کی ٹولی آ گئی۔ بعض نے اپنے بچوں کے روشن
مستقبل کے لئے شہداء کے بچوں کو بھولنا چاہا لیکن وہ جدوجہد آزادی کی
چنگاری کو شعلہ بننے سے نہ روک سکے۔ اس وقت بعض لوگ شہدا ء کے نام پر،
کشمیر کے نام پر دنیا کے مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زات،
اپنی جماعت، اپنی اولاد کو ہی ترجیح دی ہے۔ وہ اسی تنا ظر میں فیصلے کے
منتظر ہیں۔ ان کی پہنچ ایوانوں میں ہے۔ اس لئے وہ گمراہ کرنے کی بھی کوشش
کرتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ خلاء کو پر کر لیتے ہیں۔ جو مخلص اور سنجیدہ ہیں۔
ان کی تعداد ہمیشہ بڑھتی رہی ہے۔ الگ تھلگ ہونے والوں سے بھی کوئی شکوہ
نہیں۔ وہ کسی تربیت اور زہن سازی کے بغیر ہی جذبات میں آ کر مخلصانہ طور پر
کارواں میں شامل ہو ئے۔ جب حالات نے طول پکڑ لیا۔وہ مایوس ہوئے۔ رات لمبی
ہو گئی۔ تو وہ بھی بکھرنے لگے۔ کچھ ثابت قدم اورڈٹے رہے۔ تلاش معاش اور رزق
حلال بھی ضروری ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا اور پھر لغزش سے بچنا کمال ہے۔
تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کشمیر سرینڈر نہیں کرے گا۔ 5لاکھ
شہداء کی پکار ہے۔ کوئی کم ظرف، بے غیرت، ایمان فروش ہی ایسا سوچ سکتا
ہے۔بندوق منزل نہیں۔ ڈٹرنٹ ہے۔ آزادی بھیک میں نہیں ملے گی۔ مذاکرات کی میز
پر بھی طاقت کو اہمیت ملتی ہے۔ |