انسان کو آئی ۔ایم۔ایف کی پالیسی سے کیا لینا دینا اس کو
گورنر سندھ کے مرنے سے کیا فائدہ یا نقصان ہو گا اس کو ملک کی معیشت سے کیا
لینا دینا ۔کون آج کے دن پیدا ہوا۔ کون مرا۔ اس کو ان باتوں سے کوئی سروکار
نہیں ۔عام آدمی کو چاہئے کھانے کو دو وقت کی روٹی اور پینے کو پانی ۔روشنی
کے لیے بجلی اور پکانے کے لیے گیس جو آج کل ناپید ہو چکی ہے ۔
گرمیوں میں اگر بجلی جائے تو سمجھ میں آتا ہے لوگ اپنے آے ۔سی وغیرہ کی
ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور غریب اپنی پنکھی کو ہاتھوں سے ہلاتا
ہوا تھک جاتا ہے مگر سردی میں اتنی لوڈشیڈنگ بھی عذاب سے کم نہیں ہے۔اوپر
سے پکانے اور جلانے کے لیے اکلوتی گیس بھی پورا پورا دن بند رہتی ہے رات کو
تو وہ کسی امیر کی کوٹھی میں چلی جاتی ہے بلکل ایک طوائف کی طرح جس کو امیر
آدمی پیسہ دیکھا کر اور گیس کو کمپریسر لگا کر اپنی طرف راغب کر لیتے ہیں
عام آدمی کے پاس روٹی کے پیسے نہیں ہیں وہ کمپریسر کہاں سے لگاے نتیجہ وہی
لالٹین ۔۔۔وہی لکڑی جلا کر کھانا پکانا اپنا منہ ،در و دیوار اپنے ہاتھوں
سے کالے کرنا اور آخر میں اپنے ایک معصوم بچے پر غصہ نکال کر بھوکے سو جانا
۔سیاستدانوں کو موٹی موٹی گالیاں دینے سے بھی ان غریبوں کی نا گیس آتی ہے
نا پانی نا بجلی اور نا ہی ان کو چین آتا ہے ۔
ایک بزرگ جن کو آج وضو کرنے کے لیے گرم تو کیا ٹھنڈا پانی بھی میسر نہیں
تھا ان کی فجر کی نماز بھی اگر حکومت کی پالیسی کی وجہ سے قضاء ہو گی تو اس
کا حساب بھی سیاستدانوں کو دینا ہوگا ۔وہاں کی سپریم کورٹ میں کوئی وکیل
جھوٹ کا سہارا نہیں لے سکے گا وہاں آپ کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی وہاں
فیصلہ وہی ہو گا جو ٹھیک ہو گا وہاں ثبوتوں کی ضرورت نہیں ہو گی وہاں وکیل
بدلنے کا وقت نہیں دیا جائے گا ۔
سیاستدانوں کے بچے بیس سال کی عمر میں کروڑوں کے مالک ہیں اور غریب کے بچوں
کو وٹامن کی کمی ہی پوری نا ہو سکی ۔ہم کس طرف جا رہے ہیں کس معاشرے اور
قوم کی پیروی کر رہے ہیں ۔
پانی ،گیس، بجلی ،روٹی ،کپڑا، مکان کے دعوے دار اب خود کوئی نیا نعرہ ڈھونڈ
رہے ہیں تاکہ عام آدمی کو ایک بار پھر بیواقوف بنایا جا سکے ۔ ہم کب تک ان
سیاسی چال بازوں کی چالوں میں آتے رہیں گے اس کا فیصلہ عوام اور غریب آدمی
خود کرے گا ۔میں بولوں گا تو بولو گے کہ بولتا ہے -
|