پاناما لیکس کا ہنگامہ……اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

پاناما لیکس کا معاملہ ایک بار پھر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پانامہ لیکس کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پاناما لیکس پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی پارٹی شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کروٹ بدل رہی ہے۔ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ن لیگ یا تحریک انصاف میں سے کون سی سیاسی جماعت اس کا ثمر حاصل کر سکے گی۔ فریقین اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کر رہے ہیں۔حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف اب تک وزیراعظم نواز شریف پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ (ن) لیگ کے رہنما طلال چودھری کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنے کیس کا بڑا غرق خود کرلیا ہے۔ ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں، اس لیے ہمیں دفاع کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جبکہ رہنما پی ٹی آئی نعیم الحق کہتے ہیں کہ عدالت میں تمام ثبوت جمع کروادیے ہیں۔ سچ تک جانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی کارروائی سے ابھی تک یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ کس کا موقف مضبوط ہے۔ کئی ماہ سے جاری اس کیس میں تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے، آئندہ بھی معلوم نہیں کہ پاناما لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ معلوم نہیں پاناما لیکس کا معاملہ کب تک حل ہوگا، لیکن وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ پانامہ کیس آخری مراحل میں ہے۔آئندہ ایک دو ہفتوں میں کیس حل ہو جائے گا۔

پاناما لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، لیکن فریقن سپریم کورٹ سے باہر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر کے اس جنگ کو لڑ رہے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ صرف ایک قانونی جنگ نہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی جنگ بھی ہے۔ اس کیس سے عمران خان اور تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل اور میاں نواز شریف کی ساکھ وابستہ ہے۔ اس کیس کا فیصلہ پاکستان کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ اگر اس کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا تو یہ ملک میں کرپشن کے عنصر کو ختم کرنے میں بڑا معاون ثابت ہو گا، لیکن اگر تحریک انصاف شواہد پیش نہ کر سکی تو کرپشن کو آشکارہ کرنے کا عمل روایتی انداز میں پوشیدہ ہی رہے گا۔ اس کیس کو اگر صرف میرٹ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو نواز شریف کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے، لیکن اگر اسے محض شواہد تک ہی محدود کر دیا جائے اور تیکنیکی بنیاد پر فیصلہ ہو تو نواز شریف کے بچنے کے امکانات نمایاں ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر چودھری اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ پاناما کیس میں نوازشر یف کی نااہلی کے لیے ثبوت کافی ہیں۔ قطر ی شہزادہ سپر یم کورٹ میں آیا تو ن لیگ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے، مگر دیکھنا ہوگا کہ سپر یم کورٹ کا فیصلہ کیا آتا ہے۔ ذرایع کے مطابق حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے خلاف ممکنہ عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے پر ابتدائی مشاورت مکمل کرچکی ہے۔ اس مشاورت میں پاناما لیکس کیس کے تمام قانونی پہلوؤں اور وزیراعظم کے خلاف ممکنہ عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں حکومتی سطح پر پیدا ہونے والے بحران کا جائزہ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق لیگی قیادت وزیراعظم کے خلاف ممکنہ عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے ’’دو آپشنز‘‘ پر مشتمل حکمت عملی پر فوری عمل درآمدکرے گی۔ اس حکمت عملی کے پہلے آپشن کے تحت اگرسپریم کورٹ پاناما لیکس کیس میں ممکنہ طور پر وزیراعظم نوازشریف کو ان کے عہدے پر نااہل قرار دیتی ہے تو لیگی قیادت کی جانب سے فوری طور پر سینئر پارٹی رہنما اور رکن قومی اسمبلی کو وزیراعظم کے عہدے پر نامزد کردیا جائے گا اور قومی اسمبلی سے ان کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے اعتماد کا ووٹ دلانے پر اتحادیوں اور پارلیمانی جماعتوں سے بھی فوری مشاورت کی جائے گی۔ لیگی قیادت کی جانب سے حکومت سازی کا مرحلہ فوری مکمل کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے خلاف ممکنہ عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں اس عہدے کے لیے ممکنہ ناموں میں چودھری نثار علی خان، احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور رانا تنویر حسین شامل ہوسکتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے دوسرے آپشن کے تحت اگر وزیراعظم کو ممکنہ طور پر سپریم کو رٹ نااہل قرار دیتی ہے تو اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قریبی رفقا سے کی جانے والی مشاورت میں واضح کیا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گی، اس کو قبول کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی قیادت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر پاناما لیکس کا فیصلہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے حق میں آتا ہے تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر کے خلاف ہتک عزت یا دیگر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر وزیراعظم کی نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ نواز شریف کے حق میں آجاتا ہے تو پارٹی ان کو دوبارہ وزیراعظم کے منصب پر نامزد کرے گی اور وہ دوبارہ اپنے عہدے کا حلف آئینی تقاضوں کے مطابق اٹھائیں گے۔

پاناما لیکس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، جہاں تمام قانونی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے پر غور کیا جارہا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہمیں معاملے کی سنگینی کا بھرپور احساس ہے، اسی لیے قانون کی ایسی تشریح نہیں کریں گے کہ سارے عوامی نمائندے ہی اس کی زد میں آجائیں، اگر بیانات پر لوگوں کو عوامی عہدہ کے لیے نااہل قرار دیں گے تو سراج الحق کے علاوہ کوئی بھی نہیں بچے گا۔ پاناما پیپرز کا معاملہ محض فلیٹس تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایمانداری سے متعلق ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں سچ بولا تھا یا نہیں؟ سپریم کے سوالات کی وجہ سے فریقین بیک فٹ پر آگئے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف کے بچوں کے بیرون ملک کاروبار کی دستاویزی شواہد کہاں ہیں؟ مکمل جائزے کے بغیر قطری خط کو مسترد نہیں کرسکتے۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا اسمبلی میں بیان درست ہے تو 2005ء میں بچوں کے کاروبار شروع کرنے کی دستاویزات ہونی چاہئیں۔ مسئلہ فلیٹس کا نہیں ایمانداری کا ہے۔ دیکھنا ہوگا کیا پارلیمنٹ اور قوم کے ساتھ سچ بولا گیا۔ بینچ نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالت انٹرویو کی بنیاد پر ڈیکلریشن دے سکتی ہے؟ صادق اور امین پر عدالتی فیصلہ درخواست گزاروں پر بھی لاگو ہوگا۔ ججوں نے سوالات اٹھائے کہ کیا یہ لازمی تھا کہ وزیراعظم اپنے دفاع میں ہر بات پارلیمنٹ میں کرتے؟ تمام کاروبار میاں شریف کرتے تھے تو منی ٹریل دینا بچوں کی ذمہ داری کیسے ہوئی؟ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پیسہ نواز شریف نے باہر بھجوایا؟ کیا حسین نواز کے بینیفیشل مالک ہونے کا کوئی دستاویز موجود ہے؟ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ مریم بینی فیشل مالک ہے؟ پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں، اس لیے ان کے وکلا کو بہت سے معاملات کا جواب دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں سے متعلق قطر کے شہزادے کی طرف سے لکھا گیا خط کا ذکر بھی نمایاں ہے۔ مرکزی درخواست گزار جماعت تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں کہا کہ اس معاملے میں قطر کے شہزادے کا جو خط سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا وہ ’’فراڈ‘‘ ہے، لیکن عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اْنھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لندن کے فلیٹس کے حوالے سے اگر شریف خاندان کے موقف میں تبدیلی آئی تو اْنہیں بھی عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ لندن میں شریف خاندان کی زیر ملکیت چار فلیٹس کے لیے رقم پاکستان سے منتقل نہیں ہوئی اور اپنے اس موقف کی دلیل کے لیے انھوں نے قطر کے ایک شہزادے کا خط بطور دستاویزی ثبوت پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فلیٹس کی خریداری کے لیے قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ ہونے والی کاروباری شراکت سے حاصل کردہ رقم خرچ ہوئی۔ وکیل کی طرف سے قطر کے سابق وزیراعظم و وزیر خارجہ شہزادہ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کا ایک تحریری بیان عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تھا، جس میں قطری شہزادے کا کہنا تھا کہ 1980ء کی دہائی میں نواز شریف کے والد (میاں محمد شریف) نے الثانی خاندان کی جائیداد کی خریدو فروخت کے کاروبار میں ان کے خیال میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم سرمایہ کاری کی جو میاں شریف نے دبئی میں اپنا کاروبار فروخت کر کے حاصل کیے تھے۔ تاہم تحریک انصاف کی طرف سے اس خط پر تحفظ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی اور شریف خاندان دونوں بیانات بدل رہے ہیں۔ عدالتی سماعت کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کے دیگر کئی افرادِ خانہ نے بار بار اپنے بیانات بدلے۔ وزیراعظم کا پیش کردہ قطری شہزادے کا خط اور سرمائے کی آمد و رفت کے ریکارڈ کی غیر موجودگی اپنے اندر بہت بڑا قانونی سقم رکھتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ شریف خاندان نے فلیٹوں کی ملکیت تسلیم کر لی ہے، اس لیے اب انہیں ’مَنی ٹریل‘ کی تفصیلات بھی فراہم کرنا پڑیں گی۔ اب تک انہوں نے جو جوابات جمع کرائے ہیں، وہ متضاد ہیں۔ مریم نواز نے ایک بات کی ہے۔ حسین نواز نے دوسری اور حسن نواز نے تیسری جب کہ نواز شریف کا قوم سے خطاب اور پھر پارلیمنٹ میں تقریر بھی تضادات کے مجموعے تھے۔ وزیر اعظم کے وکلاء نے اسی لیے اس کیس سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا، کیونکہ نواز شریف کی قانونی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ سپریم کورٹ کی آف شورکمپنیوں سے متعلق عدالتی کارروائی کی اہمیت کو مدنظررکھتے ہوئے سماعت کے دوران بنیادی آئینی اور قانونی سوالات غیر متوقع طور پرجنم لے رہے ہیں۔ اب تک کی کارروائی سے نتیجے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ روز میں معلوم ہوجائے گا کہ پاناما لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
عابد محمو دعزام
About the Author: عابد محمو دعزام Read More Articles by عابد محمو دعزام: 869 Articles with 631058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.