بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر کراچی، پاکستان کا معاشی حب
ہونے کی وجہ سے مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے لیئے شروع سے ہی انتہائی
اہمیت کا حامل رہا ہے جبکہ یہ پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جسے قیام پاکستان
کے بعد نہ صرف ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں افراد نے اپنا مسکن
بنایاجبکہ قائداعظم محمدعلی جناح کی جانب سے کراچی کو پاکستان کا
دارالخلافہ بنائے جانے کے بعد پاکستان کے تمام صوبوں سے ہر قوم اور نسل کے
باشندوں نے تلاش معاش کے لیئے بڑی تعداد میں کراچی کا رخ کیااور ان میں سے
بیشتر نے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور یوں مقامی آبادی کے علاوہ
ہجرت کرکے آنے والوں کی آباد ی کی وجہ سے کراچی کو آبادی کے لحاظ سے سب سے
بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ،وقت گزرنے کے ساتھ کراچی کی آبادی میں
مسلسل اضافے کاسلسلہ بڑھتا چلا گیا جو کہ آج بھی جاری ہے لیکن چونکہ قیام
پاکستان کے وقت جن لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان سے ہجرت کر کے
کراچی کو اپنی رہائش کے لیئے منتخب کیاتھا ان کی اکثریت اردو زبان بولنے
والوں کی تھی اس لیئے مجموعی طور پر شہر کی اکثریتی آبادی اس وقت سے لے کر
آج تک اردو بولنے والوں کی ہی ہے۔
پاکستان کے صوبے سندھ کے سب سے اہم ساحلی شہر کراچی میں ہندوستان سے ہجرت
کرکے آباد ہونے والوں کو یہاں کی مقامی آبادی نے ’’مہاجر ‘‘ کہنا شروع کیا
تو اردوبولنے والوں نے بھی اپنی شناخت کے لیئے لفظ ’’مہاجر‘‘ کا استعمال
شروع کردیا ،مہاجر کے لفظی معنیٰ ہجرت کرنے والے کے ہی ہیں اس لحاظ سے قیام
پاکستان کے وقت ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہونے والے لوگ یقینا مہاجر ہی تھے
لیکن دنیا بھر میں یہ قانون رائج ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک سے ہجرت کرکے کسی
اور ملک میں آباد ہونے والے افرا دکوایک مخصوص عرصہ گزارنے کے بعد وہاں کی
شہریت دے دی جاتی ہے اور پھر وہ مہاجر نہیں اس ملک کے شہری بن جاتے ہیں
لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ جن لاکھوں لوگوں نے قیام پاکستان کے وقت
اپنی جان اور مال کی قربانیاں دے کر ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی میں رہائش
اختیار کی تھی ان کی کراچی میں پیدا ہونے والی اولادیں بھی آج تک اپنی
پہچان کے لیئے ’’ مہاجر ‘‘ کا لفظ استعمال کررہی ہے جبکہ کراچی میں بسنے
والی بعض قومیتوں کی جانب سے بھی ان کو مسلسل مہاجر قرار دینے کا سلسلہ
جاری و ساری ہے۔
1986 سے قبل کراچی میں مہاجر کہلائے جانی والی اردو بولنے والی کمیونٹی
سمیت تمام قومیتوں کے لوگ آپس میں شیر وشکر ہوکر رہا کرتے تھے اور کوئی بہت
بڑا اختلاف یا جھگڑا ان لوگوں کے درمیان نہیں ہوا تھا لیکن بد ترین فوجی
آمر جنرل ضیاالحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو رات کے
اندھیرے میں برطرف کرکے ملک کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تو اسے اس وقت
کے مقبول ترین عوامی سیاسی رہنما قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی
قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی زبردست عوامی مقبولیت سے خوف
لاحق ہوا کہ جنرل ضیاالحق کا ارادہ بھٹو صاحب کو ہمیشہ کے لیئے راستے سے
ہٹانے کا تھا اور اس مضموم مقصد کے حصول کے لیئے یہ بات ضروری تھی کہ کسی
طرح لوگوں کی توجہ پیپلز پارٹی اور ذوالفقارعلی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت سے
ہٹائی جائے اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے ضیاالحق نے کراچی میں
اردو بولنے والوں کے لسانی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے کراچی یونیورسٹی میں ’’
مہاجر اسٹوڈینٹ آرگنائزیشن ‘‘ کے نام سے قائم ایک چھوٹی سی طلبہ تنظیم کی
سرپرستی کرتے ہوئے مذکورہ تنظیم کے سربراہ الطاف حسین کو ہر طرح کی سپورٹ
مہیا کی تاکہ وہ اردو بولنے والوں کے لسانی جذبات کو بھڑ کا کران کے دلوں
میں سے پاکستانیت کا جذبہ ختم کرکے لسانی قومیت کا بیج بو سکے ۔
بدقسمتی سے جنرل ضیاالحق اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب رہا اور دیکھتے
ہی دیکھتے کراچی کی ایک چھوٹی سی طلبہ تنظیم ’’ مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن
‘‘ نے ’’ایم کیو ایم ‘‘ کے نام سے ایک بڑی سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرلی
جس کے جھنڈے پر پاکستان زندہ باد نہیں بلکہ جیئے مہاجر کا نعرہ درج کیا گیا
اور اس وقت سے لے کر آج تک ’’ جیئے مہاجر ‘‘ کا نعرہ لگا کر ایم کیوایم نے
اردو بولنے والی محب وطن عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ان کو ان کے حققوق دلوانے
،کوٹہ سسٹم ختم کروانے اور بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کو وطن واپس لانے
کے پرکشش نعرے لگا کر اردوبولنے والوں کے لاکھوں ووٹ حاصل کرکے ایوان
اقتدار میں بار بارقدم رکھالیکن افسوس جو دعوے اور وعدے ایم کیوایم(متحدہ
قومی موومنٹ) نے اپنے آغاز میں کیے تھے ، 30 سال تک برسراقتدار رہنے کے
باجودیہ ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کرسکی۔
ایم کیوایم کی تشکیل سے قبل کراچی میں جوجماعتیں سب سے زیادہ ووٹ لے کر
کامیاب ہوا کرتی تھیں ان میں سرفہرست جماعت اسلامی تھی جس کے بعد پیپلز
پارٹی کا نمبر آتا تھایوں کراچی میں رہنے والی اردوبولنے والوں کی اکثریت
ان ہی دونوں میں سے کسی ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجا
کرتی تھی لیکن جنرل ضیاالحق نے کراچی کی سیاست میں لسانی سیاست کا آغاز
کرتے ہوئے ایم کیوایم کی جس بھرپور انداز میں پرورش کی اس نے کراچی میں
بسنے والے مختلف قومیتوں کے درمیان جو نفرت کا بیج بویا تھا وہ وقت گزرنے
کے ساتھ ایک تناور درخت بنتا چلا گیا اور پاکستانیت کے جذبے کی طاقت کو
لسانیت کی نفرت کھا گئی جس کا سارا ’’گناہ جاریہ ‘‘ ا نشاء اﷲ قیامت تک
جنرل ضیاالحق کے اعمال نامے میں درج کیا جاتا رہے گا۔
ایم کیو ایم المعروف متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ 30 سالوں کے دوران جس قسم
کا طرز سیاست متعارف کروا کر جس مفاد پرستانہ اور مجرمانہ انداز میں حکومتی
عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دھونس دھمکی ،بدمعاشی ،بھتہ خوری،بوری
بند لاشوں ،مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے
اردو بولنے والی محب وطن کمیونٹی کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بدنام کیا
ہے یہ اس سیاسی جماعت کا وہ ناقابل تلافی جرم ہے جس کی سزا اسے دنیا اور
آخرت میں ضرور بھگتنی پڑے گی ۔ایم کیو ایم کے 30 سالہ دورسیاست میں اس کے
کریڈٹ پر 12 مئی کا بدترین قتل عام،سٹی کورٹ میں مخالفین کو زندہ جلانے کا
مضموم ترین عمل اور پھر بلدیہ فیکٹری میں 250 سے زائد انسانوں کو زندہ جلا
کر مار دینے جیسے بدنام زمانہ اور انسانیت کو شرما دینے والے واقعات شامل
ہیں جن میں ملوث ہونے کی وجہ سے آج ایم کیو ایم اپنی سیاست کے بد ترین
دورسے گزر رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس لسانی سیاسی پارٹی کے قائدین سدھرنے
کی بجائے مختلف انداز کے سیاسی ٹوپی ڈرامے کرکے اپنے سیاسی اور حکومتی
عہدوں اورمراعات کو برقرار رکھنے کے لیئے جس طرح کی بھونڈی سیاست کا مظاہرہ
کررہے ہیں اس نے ایم کیو ایم اور اس پارٹی کے قائدین کی ساکھ کو مٹی میں
ملا کر رکھ دیا ہے۔
اس وقت کراچی کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی شہ رگ سمجھے جانے والے
اس اہم ترین شہر پر سیاسی قبضے کے لیئے مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے
درمیان رسہ کشی اپنے عروج پر چل رہی ہے ۔ اردوبولنے والوں کی نمائندگی کرنے
کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کئی گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے
۔مہاجر کارڈ کھیل کر کراچی کے ووٹ حاصل کرنے والوں کی دوڑ میں الطاف حسین
کی ایم کیو ایم (لندن) ،فاروق ستار کی ایم کیو ایم پاکستان اورآفاق احمد کی
ایم کیو ایم حقیقی کے نام سرفہرست ہیں جبکہ بعض حلقوں اور ناقدین کی جانب
سے مصطفی کمال کی قائم کردہ وطن پرست سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو بھی
اردوبولنے والوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی ایک قوم پرست سیاسی پارٹی
کہتے ہوئے اسے بھی ایم کیو ایم کا ایک گروپ قراردیتے ہیں جو کراچی پر سیاسی
قبضے کی جنگ میں مذکورہ بالا تما م لسانی سیاسی جماعتوں کی طرح مصروف عمل
ہے یہ الگ بات ہے کے مصطفی کمال کا قول وفعل اور ان کی قائم کردہ سیاسی
جماعت پاک سرزمین پارٹی کے گزشتہ 9 ماہ کی سرگرمیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ
یہ لوگ روز اول سے ہی حب الوطنی پر مبنی سیاست کے فروغ میں مصروف عمل ہیں ۔مصطفی
کمال کے بیانات ،تقاریر ،پریس کانفرنسیں اوران کی جانب سے ہونے والے تمام
جلسہ عام اور پاور شو اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا ایم
کیوایم کی طرح لسانی سیاست سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی
انہوں نے مہاجر کارڈ کھیل کر کراچی پر قبضے کی جنگ میں حصہ لینے کے لیئے
میدان سیاست میں نئی پہچان اور نئے ارادوں کے ساتھ قدم رکھاہے۔ہاں البتہ
چونکہ مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ سیاسی جماعت کے بیشتر قائدین کا تعلق
اردوبولنے والی کمیونٹی سے ہے تو فطری طور پر کراچی اور حیدرآباد وہ بنیادی
شہر ہیں جنہیں ہم پاک سرزمین پارٹی کا بیس کیمپ قرار دے سکتے ہیں ۔ہر سیاسی
جماعت کا اپنا ایک مخصوص صوبہ ،شہر یا علاقہ ہوتا ہے جہاں اس کے چاہنے
والوں کی تعداد ملک کے دیگر حصوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے جہاں سے اسے سب
سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں،لہذا اگر اس مناسبت سے مصطفی کمال ،ان کے ساتھی اور
ان کی قائم کردہ پاک سرزمین پارٹی پورے پاکستان کے مقابلے میں کراچی اور
حیدرآباد میں زیادہ زور وشور سے سیاست کر رہے ہیں تو یہ کوئی قابل اعتراض
بات نہیں ہے ہر سیاسی جماعت اپنے حمایت یافتہ حلقوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے
لیئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور اگر مصطفی کمال ایسا کررہے ہیں تو انہیں اس
کا پورا حق حاصل ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ مصطفی کمال اور پاک سرزمین
پارٹی کو کراچی اور حیدرآباد سمیت پاکستان کے ہر صوبے میں پذیرائی حاصل
ہورہی ہے جو کہ ماضی میں اردو بولنے والے کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کو حاصل
نہیں ہوئی ۔
کراچی میں اردوبولنے والی آبادی سمیت دیگر قومیتوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے
کراچی پر سیاسی قبضے کی خواہش رکھنے والوں میں ،عمران خان کی پاکستان تحریک
انصاف اورجماعت اسلامی جیسی بڑی ،مقبول اور منظم سیاسی جماعتوں کے ساتھ چند
چھوٹے مذہبی اور لسانی سیاسی گروہ بھی مصروف عمل ہیں اور ان کی بھی یہ کوشش
ہے کہ وہ 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے ووٹ لے کر قومی اور صوبائی
اسمبلیوں کی چند سیٹیں حاصل کرلیں جبکہ گزشتہ الیکشن میں عمران خان کی پی
ٹی آئی کراچی سے 8 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کرچکی ہے جو کہ کراچی والوں کی
جانب سے لسانی سیاست سے بیزاری کا واضح اظہار ہے لیکن کراچی کی معاشی و
سیاسی حیثیت اور اس شہر کے باشندوں کی منفرد نفسیات کے پیش نظر اس شہر کے
ووٹرز کی سوچ اور موڈ کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا آسان کام نہیں کہ
پاکستان اور کراچی کی سیاست اس بات کی شاہد ہے کہ یہ شہر اور اس کے باشندے
چونکا دینے والی سیاسی سوچ کے ذریعے لمحوں میں اپنے فیصلے بدلنے کے حوالے
سے اپنی جو علیحدہ شناخت اور اہمیت رکھتے ہیں وہ کسی بھی وقت کراچی کی
سیاست کی کایا پلٹ سکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی پر سیاسی قبضے کی جنگ کون جیتے گا ؟ اور کراچی کا
نیا کنگ کون بنے گا ؟ کہ کراچی ہمیشہ سے حکومتیں لانے اور حکومتیں ہٹانے
میں مرکزی کردار ادا کرتا چلا آیا ہے ،کراچی میں گزشتہ 9 ماہ سے جو سیاسی
دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے اور جس تیزی کے ساتھ کراچی کی سیاسی صورتحال میں
اتار چڑھاؤ آرہے ہیں ان سے آنے والے وقت میں کراچی کے ووٹرز جو اہم ترین
کردار ادا کرنے والے ہیں اس کے پیش نظر یہ ہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کراچی کے ووٹر ز کو وہ عقل اور شعورعطا فرمائے جس کی روشنی میں وہ
ایسے لوگوں کو منتخب کرکے ایوان اقتدار میں بھیجیں جو صرف وعدوں اور دعووں
کی سیاست نہ کریں بلکہ عملی طور پر کراچی اور اس کے باسیوں کی خدمت کرکے ان
کے دیرینہ مسائل حل کرنا چاہتے ہوں۔جلسوں جلوسوں میں شریک ہونے کے حوالے سے
کراچی کے شہری بہت زندہ دل واقع ہوئے ہیں کسی بھی سیاسی لیڈر اور سیاسی
پارٹی کے جلسے میں پہنچ کر اس کی رونق بڑھا دیتے ہیں لیکن عملی سیاست کا
دارومدار جلسوں ،جلوسوں میں عوام کی تعداد کی شرکت نہیں بلکہ پولنگ بوتھ
میں جاکر ووٹ دینے والوں کی سوچ پر ہوتا ہے کہ وہ وہاں کیا فیصلہ کرتے
ہیں۔اﷲ مجھ سمیت ہر ووٹر کو صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) |