بس کر، چپ کر،بول نہ

آئے روز حکومتی ایوانوں سے ایک ہی صدا بلند ہوتی سنائی دیتی ہے کہ پاکستانی قوم ترقی کر رہی ہے اور اس ترقی کے لیے کوئی رکاوٹ قبول نہیں کی جائے گی۔بار بار یہ الفاظ سُن کر کان پک کر کالے ہونے تک نوبت آگئی تو سوچا کہ کہیں میں لا علمی کا شکار تو نہیں کہ پاکستانی قوم ترقی نہیں کر رہی بلکہ زوال کی طرف جا رہی ہے ۔اپنی اس لاعلمی کو دور کرنے کے لیے میں نے تنقید کو پس پشت ڈال کر اُس ترقی کی کھوج شروع کی جس کے بارے روز اعلانات کیے جا رہے ہیں ۔اسی مقصد کے پیش نظر ہر چھوٹے بڑے اخبار کو کُریدا ،ٹیلی وژن پر مختلف لوگوں کے بحث و مباحثے ملاحظہ کیے،ڈرامے اور اشتہارات دیکھے۔جب اُن سب سے بھی تسلی نہ ہوئی تو مختلف آبادیوں،قصبوں اور بڑے شہروں میں جا کر اُس ترقی کے آثار دیکھنے کی کوشش کی جو حکمرانوں کے مطابق پاکستانی قوم دن رات کر رہی ہے تو آخر کار اُس ترقی کی حقیقت مجھ پر آشکار ہو ہی گئی اور واقعی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ پاکستانی قوم تو دن دوگنی اور رات سو گنی کے حساب سے ترقی کر رہی ہے کہ رات کے اندھیرے میں کیے جانے والے کاموں میں انتہائی تیزی آگئی ہے ۔حالات و واقعات کو دیکھ کر مجھے اپنی سوچ پر شرمندگی ہونے لگی کہ آخر میں اتنی محنتی قوم کے بارے غلط اندازہ لگاتا رہا ۔قوم کی ترقی کے بارے سمجھ نہیں آ رہا کہ کس کام کی ترقی کی بات پہلے کروں۔چلو پہلے ہم ملاوٹ میں ترقی کی بات کر لیتے ہیں جس میں ہم درجہ کمال تک پہنچ گئے اور مزید ترقی کے لیے دن رات کوشش جاری ہے۔بازاروں میں فروخت ہونے والا کھوتے اور مردہ جانوروں کا گوشت ایک ترقی ہی تو ہے کہ ہم نے خوراک کی کمی پر قابو پانے کی بھر پور کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔چھوٹی چھوٹی دکانوں سے بڑی بڑی فیکٹریوں تک زہریلے اور گندے کیمکل ملا دودھ جو کم عمری میں ہی بچوں کی جان لے لیتا ہے ،بازار میں بکنے والا ملاوٹ شدہ مضر صحت سستابناسپتی و دیسی گھی ،تیل،مکھن، دودھ کی کریم،ناقص ملک پاؤڈر سے بنا کھویا ،ملاوٹی دالیں،زہریلے اور گندے پانی سے پکی سبزیاں،جعلی ادویات وغیرہ لوگوں کو نت نئی بیماریوں میں مبتلا کر کے ہلاک کر دیتی ہیں جس سے پاکستان کی آبادی کو قابو میں رکھنے کی ترقی جاری ہے۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ آج کل مٹھائی کی دکانوں پر بکنے والے فریش کریم کے کیک ایک ایسی کیمیکل سے بنی ڈبوں میں پیک کریم سے تیار کیے جا رہے ہیں جو فی لٹر 120روپے دوکاندار خریدتے ہیں جبکہ آج کل سو روپے میں خالص دودھ مل جانا غنیمت ہے تو اس قیمت پر کریم (خالص کریم ایک من دودھ سے صرف چار کلو حاصل ہوتی ہے) وہ کس میعار کی ہو گی اُس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے یہ شاید مہنگائی پر قابو پانے میں ترقی ہے۔اب مزید کاموں میں ترقی پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے پٹواری جو رشوت لیتا تھا وہ اب ترقی پا کر گیارہ سو گنا ہو گئی ہے،تھانوں میں نذرانوں کی قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں،ہر سرکاری محکمے کا حال یہ ہے کہ مجھے نوٹ دکھا،میرا موڈ بنے۔اور نوٹ بھی چھوٹا نہ ہو ورنہ موڈ بگڑتے بھی دیر نہیں لگتی آخر عوام کی خدمت کے لیے ہر جائز،ناجائز کام پل جھپکنے میں کرنے والوں کا عوام کی جیبوں پر حق تو بنتا ہی ہے یہ عوامی سہولیات میں ترقی نہیں تو اور کیا ہے۔۔؟انصاف فراہم کرنے میں بھی بے مثال ترقی ہوئی ہے جب تک کسی کیس کی پیشیاں پڑتی رہتی ہیں تو ہر پیشی پر ریڈر صاحبان کو بذریعہ نذرانہ خوش کرنا آپکو انصاف کے قریب تر لے جاتا ہے اور فیصلہ وکیل کو دیکھ کر کیا جاتا ہے اور فوجداری کیسز میں تو وکیل بھی ایسا ہونا چاہیئے جو پولیس والوں کی پھینٹی بھی کچہری میں لگا سکتا ہو۔انصاف کی طرح تعلیم کے شعبے میں ترقی بھی تو قابل تعریف ہے کہ امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ ۔صحت کے ضمن میں بھی تو ترقی دیکھی جا سکتی ہے کہ صحت مند لوگوں کو دل کے سٹنٹ ڈالے جا رہے ہیں یہ قبل از وقت دیکھ بھال نہیں تو اور کیا ہے۔۔؟بھلا دنیا کے کسی ملک میں صحت کے حوالے سے ترقی کی ایسی مثالیں ملتی ہیں؟ایک ہی سڑک یا گلی کی تعمیر لاکھوں ،کروڑوں کی لاگت سے صرف کاغذات میں کی جارہی ہے اس ترقی کو دیکھ کر سائنسدان بھی غش کھا کر گر پڑیں۔یہ ساری ترقی اپنی جگہ پر فحاشی کی ترقی کے تو کیا کہنے۔۔۔بغیر دوپٹے میک اپ سے لدی ہمارے معاشرے میں گھومتی خواتین ایسا چست لباس پہنے کہ جسم کے ایک ایک حصے کی تراش خراش واضح ہو اور یہ دلیل پیش کرتی کہ شرم و حیا تو آنکھوں میں ہونی چاہیے وہ شاید یہ نہیں جانتی کہ ساری رات ٹی وی پر فحش پروگرامز دیکھ کر سونے والے مردوں کی نظر کے سامنے ایسی حالت میں آنا جنگلی سانڈ کو سُرخ کپڑا دکھانے کے مترادف ہے۔اسی فحاشی میں ترقی کی وجہ سے خواتین،نوجوان لڑکیوں اور معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی شرح میں اضافہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔مذکورہ بالا ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بے ایمانی،رشوت خوری،فحاشی اور بد اخلاقی جیسی کئی برائیوں میں تو ہم نے واقعی بہت ترقی کی ہے اور بہت تیزی سے کی ہے اور کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ ترقی کی ہے تو ہر جائز و نا جائز طریقے سے دولت کمانے پراشرافیہ،بیوروکریٹس،جاگیرداروں اور سیاستدانوں نے کی ہے۔ مزدور آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے تنگ ہے۔تعلیم،صحت،انصاف اور بنیادی حقوق غریب کی پہنچ سے دور بلکہ بہت دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اخلاقیات ،مساوات اور اسلامی اقدار کی بات کرنے والوں کو ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے۔ـ"بس کر۔۔چُپ کر۔۔بول نہ۔۔یہ قوم ترقی پر جا رہی ہے۔ـ"۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.