عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق حکومت نے نااہلی کا ثبوت دیا

عافیہ صدیقی کی بہن اور عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی عابد محمود عزام سے خصوصی گفتگو
انٹرویو:عابد محمود عزام

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی 14 سال سے امریکا میں جرم بے گناہی کے سبب قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ہیں۔ جب 2003ء میں ان کی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے اغوا کر کے امریکا کے حوالے کردیا گیا، اس وقت سے یہ اپنی بہن کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہوں نے ’’عافیہ موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی، جو ملک اور دنیا بھر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی راہ میں بہت مشکلات آئیں، لیکن نہ تو وہ ڈریں اور نہ ہی تھکیں، بلکہ اس دوران ہر دور حکومت میں اپنی محب وطن بے گناہ اور تعلیم یافتہ بہن کی رہائی کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں اور موجودہ حکومت میں بھی اپنی آواز کو بلند کیے ہوئے ہیں۔ عابد محمود عزام نے ان سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق پاکستان حکومت کے سابق امریکی صدر باراک اوباما کو خط نہ لکھنے، شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ کی رہائی سے متعلق انصار عباسی کی رپورٹ، عافیہ کیس کی قانونی حیثیت، موجودہ اور سابقہ حکومتوں کا عافیہ کی رہائی کے لیے تعاون اور نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عافیہ کی رہائی کے امکانات سمیت کئی حوالوں سے عافیہ صدیقی کے معاملے پر گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے۔
……………………………………………………

عابد محمود عزام: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان کی جانب سے امریکی حکومت کو خط نہ لکھ کر ایک اور موقع ضایع کردیا گیا ہے۔ آپ اس حوالے سے کیا کہتی ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: حکومت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق امریکی حکومت کو خط نہ لکھ کر ایک اور موقع ضایع کردیا ہے، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروانا حکومت کا اولین فرض ہونا چاہیے۔ 2003ء میں عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنا ایک غیر آئینی اقدام تھا، عافیہ کو واپس ملک لاکر اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ پوری قوم کی غیرت اور عزت کا معاملہ ہے۔ عافیہ کی قید قومی اقدام پر ایک دھبہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا ایک ایک لمحہ جو امریکی قید میں گزر رہا ہے، اس سے قومی سالمیت مجروح اور پاکستان کے گرین پاسپورٹ کی تذلیل ہورہی ہے۔ انسانی اور آئینی طور پر عافیہ کی رہائی حکومت پر فرض اور پوری قوم کا قرض ہے، لیکن حکومت داخلہ و خارجہ سطح پر مکمل طور پر فیل ہوچکی ہے۔ حکومت خیانت اور جھوٹ بول کر کب تک قوم کو بے وقوف بنائے گی اور آئین کی خلاف ورزی کرتی رہے گی؟ حکومت کو قوم کے سامنے سچ بولنا ہوگا اور عافیہ کو رہا کروانا ہوگا۔

عابد محمود عزام: معروف صحافی انصار عباسی نے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کی، لیکن امریکی انتظامیہ نہیں مانی۔ اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: انصار عباسی صاحب ایک بڑے صحافی ہیں، لیکن انہوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی رپورٹ پڑھ کر بہت افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے یکطرفہ رپورٹ دی ہے، جس میں بالکل بھی صداقت نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ کس کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت عافیہ کے معاملے میں صرف سیاست چمکا رہی ہے۔ حکومت نے عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ امریکی ایمبیسڈر نے خود ہمارے وکیل سے کہا کہ صرف پاکستان کے وزیر اعظم یا صدر مملکت کا ایک خط درکار ہے۔ اگر وہ مل جائے تو عافیہ رہا ہوسکتی ہے، لیکن وزیر اعظم یا صدر مملکت نے صرف ایک خط تک نہیں لکھا۔ یہ بات کہنا بالکل فضول ہے کہ حکومت نے شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ کو رہا کروانے کی کوشش کی۔ جب امریکی انتظامیہ تمام قانونی پیچیدگیوں سے گزار کر خود ہی لیگل طریقے سے عافیہ کو رہا کرنا چاہتی ہے تو اس کے بدلے میں شکیل آفریدی کی رہائی کی بات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

عابد محمود عزام: امریکا کے سابق صدر اوباما کا دور صدارت ختم ہونے کے اگلے دن آپ نے اعلان کیا کہ ایک بار پھر ہم پرعزم ہیں۔ عافیہ کی رہائی سے متعلق آپ آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل رکھتی ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: ہم نے آئندہ کا لائحہ عمل اتوار کے روز پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے بتایا ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کو خط نہ لکھ کر نواز حکومت نے نااہلی کا ثبوت دیا ہے، جس کے بعد لوگ بہت جذباتی ہورہے تھے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاج کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے ضرورت محسوس کی کہ جذبات تحمل سے آگے نہ بڑھ جائیں۔ ان کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت نے انتہائی نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو یہ حکومت خود ہی شرمندگی سے استعفیٰ دے دیتی یا ان کو نااہل قرار دے دیا جاتا۔ عافیہ کی رہائی کا موقع حکومت نے ضایع کیا ہے، اب اس کی رہائی کے لیے مواقع پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عافیہ صدیقی پاکستان کی شہری ہے اور اپنے شہری کو رہا کروانا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ جب تک عافیہ رہا نہیں ہوجاتی، اس وقت تک ہمارا حکومت سے شکوہ اور مطالبہ رہے گا کہ عافیہ کو رہا کروایا جائے۔ جب تک عافیہ نہیں آجاتی، اس وقت تک قوم حکومت کو معاف نہیں کرے گی۔

امریکا کے سابق صدر اوباما نے اپنے دور صدارت کے آخری دن بہت سے لوگوں کو رہا کیا ہے، ان میں عافیہ کی رہائی بھی شامل تھی، لیکن عافیہ چونکہ امریکا کی شہری نہیں ہے، اس لیے امریکا کے قانون کے مطابق عافیہ کی رہائی کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم یا صدر مملکت کا ایک خط چاہیے تھا، جو انہوں نے نہیں لکھا۔ گویا امریکی حکومت عافیہ کو رہا کرچکی تھی، لیکن پاکستان حکومت نے عافیہ کو لیا ہی نہیں۔ حکومت نے خط نہ لکھ کر انتہائی زیادہ بے حسی اور نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔ ہمیں حکومت کے اس فعل پر بہت افسوس ہے، لیکن ہم مایوس نہیں ہیں۔ ہم سب اﷲ کے محتاج ہیں۔ اﷲ تعالیٰ مدد کرے گا۔ایک در بند ہوتا ہے تو اﷲ سو در کھول دیتا ہے۔ ہم حق پر ہیں، عافیہ بے گناہ اور بے قصور ہے۔ ہم آواز بلند کرتے رہیں گے۔ ہمارا عزم پہلے سے بھی زیادہ بلند ہے۔ ہمارا ایمان ہے :’’نصر من اﷲ و فتح قریب‘‘ ہے۔

عافیہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو پرکھنے کی کسوٹی بن چکی ہے۔ عافیہ اگرچہ اسلام دشمنوں کی قید میں ہے، لیکن اﷲ ہر حال میں ہماری مدد کرے گا۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عافیہ کو واپس پاکستان لائے۔ حکومت نے عافیہ کی رہائی کے لیے خط نہ لکھ کر عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ طلبہ اور نواجوانوں کو مشتعل کیا ہے، جو آئندہ الیکشن میں نواز لیگ کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور نواز لیگ کو شکست سے دوچار کرسکتے ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ حکمرانوں کا کڑا احتساب کریں۔ عافیہ کی رہائی کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔ حکومت کو بتادیں کہ ہم اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی چاہتے ہیں۔ ہماری آواز میں آواز ملائیں۔ سوشل میڈیا پر عافیہ کی رہائی کی مہم چلائیں۔ دعاؤں میں تو عافیہ کو یاد رکھتے ہی ہیں، اس کے ساتھ غیور قوم حکومت کو بتلا دے کہ اگر وہ عافیہ کو نہیں لاتی تو اس کا بدلہ آئندہ الیکشن میں لیں گے۔ کے پی کے کے مخلص لوگوں نے عافیہ کی رہائی سے متعلق آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کردیا ہے، جو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی صورت میں ہوگا۔ ٹرینوں کے ذریعے لوگ کراچی سے پشاور، لکی مروت سے ہوتے ہوئے اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گے۔

عابد محمود عزام: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں موجودہ حکومت آپ کے ساتھ کتنا تعاون کر رہی ہے اور سابقہ حکومتوں نے کتنا تعاون کیا؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: موجودہ حکومت نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔ صرف زبانی کلامی باتیں کی جارہی ہیں۔ حکومت اپنی سیاست چمکا رہی ہے۔ پچھلی حکومت کا تو یہ دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں عافیہ صدیقی کے بچوں کو واپس لایا گیا تھا، لیکن موجودہ حکومت تو مکمل طور پر فیل ہوچکی ہے۔ موجودہ حکومت نے تو انتہائی نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے، حالانکہ سابقہ حکومت سے اتنی توقع نہیں تھی، لیکن انہوں نے پھر بھی کچھ تعاون کیا اور موجودہ حکومت سے تعاون کی امید تھی اور میاں نواز شریف نے 100 دن میں عافیہ کو واپس لانے کا وعدہ بھی کیا تھا، لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں کیا۔

عابد محمود عزام: ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب کن حالات سے گزر رہی ہے ، اس بارے میں آپ کے پاس کچھ معلومات ہوں گی؟ عافیہ صدیقی سے آپ کی آخری بار کب اور کیا بات ہوئی تھی؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: عافیہ صدیقی الحمدﷲ زندہ ہے اور اس سے بات ہوئی کو ایک سال ہوگیا ہے، جو ایک سال کے بعد ہوئی تھی۔ بس اﷲ ہی جانتا ہے کہ کیسی کیفیت تھی۔ بہت ایموشنل حالت تھی۔ جذبات قابو سے باہر ہورہے تھے۔ اس وقت عافیہ نے والدہ کو اپنا ایک خواب بھی سنایا تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم میری وجہ سے افسردہ ہیں۔ عافیہ نے بتایا کہ ’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرا امتحان کب ختم ہوگا؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیرا امتحان نہیں، بلکہ میری امت کا امتحان ہے کہ کب تجھے چھڑاتے ہیں اور کہا کہ میری امت اﷲ اور رسول سے جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔‘‘ عافیہ صدیقی کے خواب میں قوم کے نام بہت بڑا پیغام ہے۔ عافیہ کی قید اب پوری امت کا امتحان ہے۔

عابد محمود عزام: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کی قانونی حیثیت کتنی مضبوط ہے؟ کیا امریکی عدالت سے آپ کو انصاف کی توقع ہے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: ہماری قانونی حیثیت بہت مضبوط ہے، اسی وجہ سے امریکا کی جانب سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا پروانہ مل چکا تھا۔ قانونی لحاظ سے عافیہ کا معاملہ مکمل طور پر کلیئر ہوچکا ہے اور تمام قانونی پیچیدگیوں سے گزار کر ہی امریکی انتظامیہ نے عافیہ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عافیہ چونکہ امریکی شہری نہیں ہے اور امریکی قانون کے مطابق اس کی رہائی کے لیے پاکستان حکومت کا خط چاہیے تھا، اگر عافیہ امریکی شہری ہوتی تو خط کی ضرورت بھی نہ ہوتی اور عافیہ اوباما کے دور صدارت کے آخری دن رہا ہوجاتی۔ ہمارے وکیل آخری وقت تک یہ کہتے رہے کہ ابھی بھی خط مل جائے تو ہم آگے پہنچا دیں گے، جس کے بعد عافیہ رہا ہوجائے گی، لیکن ہماری حکومت نے نااہلی کی تمام حدود پار کردیں اور ایک خط تک نہیں لکھا۔ حکومت کو یہ خوف تھا کہ خط لکھنے سے کہیں امریکا کا نیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ناراض نہ ہوجائے اور اگر وہ ناراض ہوجاتا ہے تو نواز حکومت کو آئندہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں مشکلات نہ پیش آئیں۔ اب عافیہ کا معاملہ قانونی حیثیت سے تو مکمل طور پر کلیئر ہوچکا ہے، اب صرف سیاسی معاملہ رہ گیا ہے۔ حکومت تھوڑے سے ضمیر کا ثبوت دے اور تھوڑی سی محنت کرے تو عافیہ جلد رہا ہوسکتی ہے۔

عابد محمود عزام: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پاکستان میں یکساں تعلیمی انقلاب لانا چاہتی تھی، آپ اس حوالے سے کچھ بتا سکتی ہیں کہ وہ پاکستان میں کیسا تعلیمی انقلاب لانا چاہتی تھیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: عافیہ صدیقی پاکستان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ پاکستان میں ایک یکساں تعلیمی انقلاب لانا چاہتی تھیں۔ نصاب تو صرف کتابیں پڑھنے پر موقوف ہے، جبکہ نصاب کے ساتھ تربیت، حکمت، بلند سوچ اور روشن دماغ بھی ضروری ہے۔ عافیہ چاہتی تھی کہ پاکستان کا ہر بچہ پاکستان سے محبت کرنے والا اور روشن ذہن ہو، جو نئی راہیں تلاش کرے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ عافیہ ان مقاصد کے لیے نئے نئے سائنٹفک طریقے تلاش کرتی رہتی تھی۔ مختلف طریقوں سے بچوں کے ذہن تیز کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ 2003ء میں عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا گیا، اگر عافیہ کو امریکا کے حوالے نہ کیا جاتا تو 2013ء میں عافیہ کے نظام تعلیم کو دس سال مکمل ہوچکے ہوتے اور اس نظام تعلیم سے گزر کر ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہوتی جو ملک و قوم سے محبت کرنے والی اور اس کی ترقی کے لیے اپنا کرداد ادا کر رہی ہوتی۔

عابد محمود عزام: ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے بچے ان دنوں کیا کر رہے ہیں؟ اپنی والدہ کی رہائی کے حوالے سے پاکستانی قوم سے کیا توقع رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: عافیہ کے بچے اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور معصوم بچے اداس ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ اب امی کس طرح واپس آئیں گی؟ امی کی رہائی کا یہ موقع ملا تھا، لیکن حکومت نے یہ موقع بھی گنوا دیا ہے۔ میں نے ان کو سمجھایا ہے کہ جب اﷲ ’’کن‘‘ کہیں گے تو انشاء اﷲ آپ کی امی رہا ہوجائے گی۔ ہمارا کام جدوجہد کرنا ہے۔ نتیجہ دینا اﷲ کا کام ہے۔ اﷲ ضرور مدد کرے گا۔یہ بچے یہی چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم ان کی امی اور پاکستان کی بیٹی کی رہائی میں ہمارا ساتھ دے۔

عابد محمود عزام: آپ کی سرپرستی میں عافیہ موومنٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھرپور آواز اٹھا رہی ہے۔ عافیہ کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے میں کن کن لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا؟ کیا انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور این جی اوز نے بھی آپ کا ساتھ دیا؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: ہم پر مشکل حالات آتے رہتے ہیں۔ ہمیں مختلف اوقات میں دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں اور جب بھی عافیہ کی رہائی کے امکانات روشن ہونے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی میڈیا گروپ عافیہ سے متعلق جھوٹ اور جہالت پر مبنی کوئی رپورٹ یا اسٹوری شایع کردیتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے میں مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے ہمارے ساتھ تعان کیا ہے، لیکن اس وقت درس قرآن ڈاٹ کام، پاسبان اور جماعت اسلامی ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے ہماری آواز کو پوری دنیا تک پہنچایا ہے۔

عابد محمود عزام: اب جبکہ سابق امریکی صدر باراک اوباما سے سخت اور بظاہر مسلم دشمن ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بن چکے ہیں، تو کیا اب عافیہ کی رہائی میں بظاہر مشکلات مزید نہیں بڑھ جائیں گی؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی: انصاف کی کرن تو ہمیشہ رہتی ہے۔ معاملہ چونکہ کسی فرد کا نہیں، بلکہ انصاف اور انسانیت کا ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں امریکا کو عظیم ملک بنانے کا اعلان کیا ہے، جو اسی صورت ممکن ہے، اگر وہ انصاف قائم کرے۔ اﷲ کا فیصلہ ہے ناانصافی پر قائم حکومت نہیں چل سکتی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.