پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعرات 26 جنوری2017 کو جو
منظر دیکھنے میں آیا وہ مُہَذَب، شائستہ، تہذیب یافتہ ، اسلامی شِعار سے
مُزَیَن معاشرے سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتا۔ ذہن اس بات کو قبول کرنے
کو تیار نہ تھا کہ یہ پاکستان کے منتخب اراکین ہیں جو ایک دوسرے پر حملہ
آور اور باہم گُتھَم گُتھا ہیں ۔ یہ ہمارے منتخب نمائندے ہی تھے جو ایک
دوسرے کے ساتھ کھلے عام دست وگریبان تھے، ایک دوسرے کے خلاف نعرے ، گالیاں
، نازیبا اشارے، تھپڑ گھونسے ، دھکے ، کیا کچھ نہیں کیا ان منتخب اراکین نے
ایک دوسرے کے خلاف، ایوان مچھلی بازار بنا دکھا ئی دے رہا تھا، بیچ بچاؤکی
تمام کوششیں ناکام رئیں۔ بات اُس وقت خراب ہوئی جب اپوزیشن اور پی ٹی آئی
کے شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بارے میں فرمایا کہ
نواز شریف بادشاہی نظام کے تحت ملک چلارہے ہیں ، جو دستاویزات پاناما سے
متعلق پارلیمنٹ میں پیش کی گئیں وہ جھوٹ پر مبنی تھیں، وزیر اعظم نا اہل
ہوچکے ، وزیر اعظم ایوان میں وضاحت دیں کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں چھوٹ کیوں
بولا ، یہی نہیں بلکہ شاہ صاحب قبلہ نے میاں صاحب کے خلاف نعرے بھی لگوائے
، یہ نعرے نون لیگ کے حامیوں اور سرکاری بنچوں پر بیٹھے نوازیوں کی طبع پر
گراں گزرے، گزرنا بھی چاہیے تھا آخر کو میاں صاحب ان کے محبوب رہنما
ہیں۔جواب میں نون لیگیوں نے عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی یہ بھی ہونا ہی
تھی ۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے جلتی پر تیل کا کام کرتے
ہوئے فرمایا کہ میاں صاحب نے قوم کو گمراہ ‘ ایوان کا استحقاق مجروح کیا،
پارلیمنٹ کو متنازع بنایا ہے ان کے خلاف قرار داد منظور کی جائے۔ کون صحیح
ہے کون غلط اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ خواجہ آصف جو پرانے نون لیگی اور
پارلیمنٹیرین ہیں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میاں صاحب کو تو 20کروڑ عوام
کا استحقاق حاصل ہے ، ان کے خلاف شاہ محمود قریشی ہی نہیں بلکہ کسی کو بھی
خلاف بولنے کا حق حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ منی ٹریل مانگنے والے شاہ
محمود قریشی اپنا سیاسی منی ٹریل بتائیں، میاں صاحب نے اپنی تین نسلوں کو
احتساب کے لیے پیش کردیا، شاہ محمود قریشی قبروں کی کمائی کھارہے ہیں، ان
کی دستار بندی ایک گورے نے کی تھی، ہم سے منی ٹریل پوچھنے والوں کے پرکھو
نے جنگ آزادی میں انگریزوں سے زمینیں حاصل کیں، جس طرح نواز شریف نے منی
ٹریل دیا ہے یہ اپنی جائیدادوں کے حرام اور حلال کا منی ٹریل کا حساب دیں،
شاہ محمود قریشی میرے لیڈر کے خلاف نعرے لگواتے ہیں (ان کی یہ جُرأت)، اُن
کا لیڈر (عمران خان) یہاں آئے وہ ایک لفظ بھی بول گیا تو میرا نام نہیں ہے۔
اس دنگل کا اصل سبب وہ نعرے تھے جو شاہ محمود قریشی صاحب نے لگوائے اس کے
جواب میں نون لیگی اراکین بپھر گئے اور چڑھ دوڑے عمران خان کے ا نصافیوں پر
پھر جو کچھ ہوا ہر ٹی وی اسکرین نے دکھا یا، بھارتی میڈیا نے تو اسے خوب
خوب نمک مرچ کے ساتھ پیش کیا۔ دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی ، بد نامی ،
افسوس ، تاسف ، شرمندگی الگ اٹھانا پڑی۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی شہر یار
آفریدی ، مراد سعید اور وفاقی وزیر پیٹرلیم شاہد خاقان عباسی باہم دست و
گریباں ہوگئے۔ان کے ساتھ دونوں جانب کے دیگر اراکین بھی ایک دوسرے پر چڑھ
دوڑے۔ پھر جو کچھ ہواہمارے آپ کے سامنے ہے۔ نون لیگ کے رکن اسمبلی خاقان
عباسی اعلیٰ تعلیم یافتہ کیلی فورنیہ یونیورسٹی اور جارج واشنگٹن
یونیورسٹی،لاس اینجلز سے پڑھے ہوئے ہیں ،سمجھ بوجھ والے انسان ہیں، ان کے
برعکس مراد سعید کا تعلق سوات سے ہے ایف ایس سی ہیں، ان کی ڈگری کا بھی
مسئلہ ہوچکا ہے، اسی طرح شہر یار آفریدی کی تعلیم کا کسی جگہ زکر ہی نہیں
ملتا۔ کس طرح بات گریبانوں تک پہنچ گئی۔
کچھ دن قبل سندھ اسمبلی میں رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی اور پیپلز پارٹی کے
رکن اسمبلی کے درمیان بھی اِسی طرح کی بیہودہ گفتگو ہوچکی ہے،بعد میں معافی
تلافی ہوئی۔ اسمبلی میں اراکین اسمبلی تقریر کرتے ہوئے تقریر کی صلاحیتوں ،
مخالفین پر اپنا روب ، اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لیے اس قسم کے حربے
استعمال کرتے ہیں ۔ کل ہی سندھ اسمبلی کے اجلاس میں رکن صوبائی اسمبلی نصرت
سحر عباسی نے جوش خطابت میں آرڈر آف دی ڈے کی کاپی پھاڑدی ، تقریر کے دوران
اپنے سینے کو ٹھوک ٹھوک مخالفین کو مرعوب کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ لیکن جب
انہیں یہ احساس ہوا کہ کاپی پہاڑ کر انہوں نے غلطی کی تو فوراً معذرت بھی
کر لی۔کاپی کس وجہ سے پہاڑی وہ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دے رہی تھیں کہ
بھٹو نے قرار داد کی کاپی پھاڑ دی تھی۔ اب بات کہنا کافی نہیں تھا اس کا
عملی مظاہرہ انہوں نے اس کاغذ کے ٹکڑے کو اسی انداز سے پھاڑ کر کیا۔ اس قسم
کے واقعات ایوانوں کا حصہ ہوتے ہیں لیکن اراکین کو الفاظ اور جملے سوچ سمجھ
کر استعمال کرنے چاہیے۔
اب تک تو ٹی وی ٹاک شوز اور جلسے، جلوسوں ، ریلیوں اور پریس کانفرنسیز میں
عوامی نمائندے ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگانے میں دیر نہیں لگا
رہے تھے اب بات ایوانوں میں بھی پہنچ چکی ہے، ایوان میں یہی منتخب نمائندے
ایک دوسرے کو غلط، چھوٹا ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے اوچھے ہتھ کنڈوں کا
سہارا لیتے ہیں، الزام تراشی، فحش گفتگو، اس بات کا بھی خیال نہ کرنا کہ
اینکر کوئی خاتون ہے یا شریک گفتگو کوئی خاتون ہے ایسے ایسے جملوں کا
استعمال کرنا کے گھر میں بیٹھے لوگ اپنی نظروں کو اپنے بیوی بچوں کے سامنے
جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اب یہی کچھ ایوان میں ہورہا ہے ذاتیات پر حملے
، مسائل اور اصل موضوع کو چھوڑ کر ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کو سامنے لے آنا
کسی بھی طور مناسب نہیں۔ خواجہ آصف جیسے خاندانی ، طویل سیاست کا تجربہ
رکھنے والے، پڑھے لکھے شخص نے اپنی گفتگو میں شاہ محمود قریشی کی ذات کو
نشانہ بنا یا، شاہ صاحب اگر کسی سلسلہ کے جانشین ہیں تو اس کا مطلب کہ وہ
اس سے مالی منفعت حاصل کر رہے ہیں، عمران خان نے اسپتال بنایا گویا وہ اپنے
ماں کے نام پر بنائے جانے والے اسپتال سے مالی فائدہ اٹھا رہا ہے اور نہ
جانے کیا کیا باتیں جو ذاتی قسم کی تھیں خواجہ صاحب نے گنوادیں، سینئر اور
سنجیدہ رکن اسمبلی کا فرض تھا کہ اپنے ان اراکین کو جنہوں نے ماحول کو خراب
کرنے میں کوئی کردار ادا کیا تھا انہیں سمجھاتے، ان کی طرف سے ماحول کو
نارمل کرنے کی کوشش کرتے وہ تقریر کے فن کا مظاہرہ کررہے تھے۔ سرکاری یا
حکومت وقت کی حیثیت گویا گھر کے سربراہ ، بزرگ کی ہوتی ہے، اسے بڑے پن کا
مظاہرہ کرنا چاہیے، تحمل اور برداشت کا ثبوت دینا چاہیے ۔ اپوزیشن کا مطلب
ہی تنقید کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں طاقت ور اپوزیشن اس ملک اور
عوام کے مفاد میں ہوتی ہے۔ لیکن اپوزیشن کو بھی ایک حد تک ، لمٹ میں رہتے
ہوئے حکومت پر تنقید کرنا چاہیے۔ کولیشن گورنمنٹ کو کمزور حکومت کیوں سمجھا
جاتا ہے اس لیے کہ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو خوش رکھنے کے لیے حکومت
کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتی جو اتحادیوں کے مفاد میں نہ ہو۔ فضل
الرحمٰن کی پارٹی یا اسفند یار کی پارٹی حکومت کے ساتھ بھی ہیں اور جس
معاملے پر ان کے مفاد کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے فوری طور پر پریس
کانفرنس کر کے حکومت کو تڑی لگا دیتے ہیں۔ صوبہ سرحد میں جماعت اسلامی
حکومت کا حصہ ہے ، مرکز میں خلاف کھڑی ہے۔ بات کہیں اور چلی گئی لیکن جو
بات میں نے شروع کی تھی ہے اسی سے متعلق۔ ایوان میں جو کچھ ہوا وہ کسی بھی
طور حکومت کے لیے اور اپوزیشن کے لیے اچھا نہیں ہوا۔ بلکہ اس سے ایوان ہی
کا نہیں بلکہ پوری قوم کا وقار مجروح ہوا۔
دنیا کے مختلف ممالک کے منتخب ایوانوں میں اس قسم کے شو ہوتے رہے ہیں ، شکر
ہے نوبت گھٹیا جملوں، اشاروں ، لاتوں اور گھو نسوں تک آئی ہے ، خون نہیں
بہا، کرسیاں نہیں چلیں، ڈنڈے نہیں چلے، منتخب نمائندوں کو تو یہ بھی
استحقاق حاصل ہوتا ہے کہ انہیں اپنی حفاظت کے لیے لائسنز والا ہتھیار بھی
رکھنے کی اجاذت ہوتی ہے، گارڈ بھی ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، سرکاری
بھی غیر سرکاری بھی۔ تو جناب خدا کا شکر ہے کہ کسی رکن اسمبلی نے کارتوس
نہیں نکالا، باہر موجود اپنے مصلح گارڈوں کو مدد کے لیے طلب نہیں کیا ورنہ
تو یہاں کیا ہوتا اللہ کی پناہ۔ برطانیہ جیسے ملک کے ایوان نمائندگان میں
اس قسم کا شو دیکھا جا چکا ہے، جاپان میں بھی ایسا شوہوا، یہاں تک کہ منتخب
نمائندے خونم خون ہوگئے۔دیگر ممالک کے منتخب ایوانوں میں اس قسم کے واقعات
رونما ہوچکے ہیں۔ آخر اس کا حل کیا ہے، ایسا کیوں ہو رہاہے ٹی وی ٹاک شو
میں اور اب قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیوں میں اس قسم کے واقعات عام
ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے کہ ہماری قوم کے ہر
طبقہ فکر میں ، بلا تفریق قوت برداشت ختم ہوگئی ہے، ہم صر ف اور صرف اپنے
تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ یعنی میں اور میرا کوئی بھی کام۔ عام زندگی میں
سڑک پر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے یہ نہیں ہوتا کہ سنگنل ریڈ ہے پھر بھی اس بات
کی کوشش ہی نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ بس ہم نکل جائیں۔
رانگ سائیڈ سے آرہے ہیں پھر بھی ہی کہ پہلے ہم چلے جائیں، سیدھے چلے آرہے
ہیں کسی گاڑی کو سڑک کنارے دیکھ لیا تو اسپیڈ کم کرنے کے بجائے اسپیڈ تیز
کردی تاکہ ہم نکل جائیں ، لائن میں لگے ہیں تو کوشش یہ کہ پہلے ہمارا کام
ہوجائے الغرض پہلے میں ، پہلے ہم والی دوڑ نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔
اگر اختیار حاصل ہوگیا تو ہمارے کام کیسے نکلیں گے، اس کے لیے ہر جگہ اپنا
بندہ لگادیا جائے ۔ٹرمپ نے صدارت سنبھالی تو سارے اہم عہدوں پر اپنے آدمی
لے آیا، ایسا ہوتا ہی ہے۔ وزیراعلیٰ تبدیل تو سارے افسر تبدیل، یہاں تک کہ
تھانے کا ایس ایچ او تبدیل ہوا تو اس کے ماتحت افسران تبدیل۔ اس اپنا اپنا
اور میرا میرا نے ہمیں تنزلی کی دَل دَل میں لا کھڑا کیا ہے۔ضرورت اس امر
کی ہے ملک کے اچھے اور برے کے مالک حکمراں اور مستقبل کے حکمراں یعنی
اپوزیشن اس قسم کے غیر اخلاقی،افسوس ناک اور دلگداز واقعات کا مستقل سدباب
کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرے۔ انتخابات سے قبل جن لوگوں کو
پارٹی ٹکٹ دیا جائے ان کے بارے میں اچھی طرح تحقیق، چھان بین ، کدو کاش کر
لی جائے تاکہ ایوان میں پہنچ کر وہ اس قسم کے واقعات کا حصہ بن کر ملک و
قوم کو شرمندہ کرنے کا باعث نہ بنے۔(29جنوری(2017 |