شاہ ولی اﷲ کی عمرانی خدمات ایک جائزہ

 حضرت شاہ ولی اﷲ نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ بڑا پر آشوب دور تھا ۔آپکی پیدائش اورنگ زیب عالمگیر کی وفات سے چار سال قبل 1703 میں دہلی میں ہوئی۔آپ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے شاہ صاحب کے والد شیخ عبدالرحیم ایک بہت نامور عا لم دین تھے۔جنہوں نے دہلی میں مدرسہِ رحیمیہ کی بنیاد رکھی جس سے برصغیر پاک و ہند میں علم و دانش کے سوتے پھوٹے۔ جس کی چند ہی سالوں میں پورے برصغیر میں دینی شہرت ہوگئی۔

یہ دور مسلمانون کے محض سیاسی زوال کا ہی نہ تھا بلکہ اس زمانے میں مسلمان ذہنی، علمی، اخلاقی ،روحانی،سماجی اور فوجی غرض یہ کہ ہر لحاظ سے یہ تیزی کے ساتھ پستی کی جانب بڑھ رہے تھے۔شاہ صاحب نے شعور کی آنکھ کھولتے ہی مسلمانان ِہند کو جن حالات میں پایا وہ انتہائی مایوس کن تھے۔مشرق کی جانب سے سفید آندھی ہندوستان پر چھا جانے کے لئے پر تول رہی تھی۔جنوبیہندوستان میں مرہٹہ، پنجاب میں سکھوں کی بڑھتی ہوئی طاقت مسلمانوں کو خطرے کا سگنل دے رہی تھی۔لیکن بر صغیر کے مسلمانوں کی بد نصیبی کا یہ عالم تھا کہ اپنے قومی وجود کے تحفظ سے انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔اُمراء عیش و نشاطمیں بد مست تھے،تو علماء مذہبی منافرتوں و فرقہ بندیون کا شکار تھے۔ہندوانہ رسم و رواج مسلمانوں میں عام ہوچکے تھے۔ اس کیفیت میں ان کی طاقت اپنوں ہی کے خلاف استعمال ہو رہی تھی۔اس دوران انہیں اپنے اصل دشمنوں سے بچنے تک کا بھی خیال نہ آیا ۔ان کی بے خبریوں اور حماقتوں کا یہ عالم تھا کہ،سکھ مر ہٹوں اور انگریز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت کے خطرات کا ان کو ذرہ بھر بھی احساس نہ تھا۔قریب تھا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے۔

حضرت شاہ ولی اﷲ ان حالات سے بے حد پریشان تھے ۔ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، مذہبی ومعاشی مستقبل سے جب مایوسی کی جھلک نظر آئی، توآپ نے ارادہ کر لیا کہ باقی ماندہ زندگی حرمین شریفین میں گذار دیں۔ مگر جب اﷲ تعالیٰ کسی سے بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے ذرائع بھی پیدا فرما دیتا ہے۔ قیام حجاز مقدس کے دوران آپ کو رسولِ پاکﷺکی زیارت ہوئی جس میں نبیِ محترمﷺنے فرمایا ’’تمہارے لئے اﷲ کا ارادہ ہوچکا ہے کہ امتِ مسلمہ کے جتھوں میں سے کسی جھتے کی تنظیم تمہارے ذریعے کی جائے گی‘‘ لہٰذا لوگوں کی رہنمائی کے لئے ہنداستان واپس چلے جاؤ۔

رسول اﷲ ﷺ سے بشارت حاصل کرنے کے بعد آپ نے فوراََہندوستان کیلئے رختِ سفر باندھ لیا۔دہلی واپس آتے ہی آپ نے مذہبی فرائض کی انجام دہی شروع کر دی۔آپ کا ہندوستان کے عوام کیلئے سب اہم کام قرآنِ پاک کا سلیس فارسی زبان میں ترجمہ تھا۔جس پر کئی مفاد پرست نام نہاد عالموں نے آپ کی شدت کے ساتھ مخالفت شروع کر دی۔اس زمانے میں مسلمانانِ ہند کی زبان فارسی تھی۔اسوقت اردو اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی۔شاہ صاحب کا فارسی ترجمہ بڑی حد تک مروجہ اردو سے مماثلت رکھتا تھا۔اس طرح عوام کے لئے قرآن فہمی بہت آسان ہوگئی۔تاکہ کسیکو بھی قرآن پاک کو اپنی زبان میں سمجھنے میں کوئی دشواری نہ رہے اور اپنی سماجی برائیوں کا آسانی کے ساتھ خاتمہ کر سکیں۔شاہ صاحب اس بات سے بہت فکر مند تھے کہ مسلمانوں میں معمولی اختلافات کو صحیح تناسب میں دیکھا جائے۔یہ ہی وجہ تھی کہ آپ نے ہر اختلافی بات پر بھر پور بحث کی اور مختلف نقطہ ہائے نظر میں مفاہمت کرانے کی کوشش جاری رکھی۔ آپ نے صوفیا کے درمیان پیدا شدہ آویزش کودور کرنے میں اہم کردار ادا فرمایا۔جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے تنازعے نے ان کے درمیان پیدا کر دی تھی۔

اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ شاہ صاحب نے بر عظیم کے مختلف اسلامی فرقوں میں مفاہمت اور روا داری کی ایسی بنیاد رکھدی تھی کہ جس نے کبھی کبھی کی رکاوٹوں کو ختم کر کے فرقہ وارنہ روایات کو بر قرار رکھا۔شاہ صاحب نے ہر اُس شخص کی سر زنش کی جو خوامخوہ کی اختلافی روایات کو سامنے لاتا۔آپ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ لوگ اخلاقی اصولوں سے بے پراہ ہوجائیں۔ آپکاکہنا یہ تھا کہ معاشرے کا اچھا رکن بننے کے لئے ہر فرد کو محنت و جانفشانی، ایمانداری اور اہلیتِ کار کی بھی عادتیں مستحکم کرنی چاہئیں۔آپ اس امر کو سب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے کہ ہر فرد کو اپنی روزی کمانے کے لئے بار آور امور انجام دینا چاہئیں۔حضرت شاہ ولی اﷲ نے ہر قسم کی معاشی نا انصافی اور ظلم کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔ کیونکہ جب ایک گروہ اس قدر پستی میں ڈالدیا جائے کہ وہ اپنی روزی کمانے کے لئے جانوروں کی طرح کام میں جتا رہے اور اس کو اس کا م کی اجرت بھی پوری نہ ملے تو اس کے اندر سے سماجی خوبیاں خود بخود م تو جاتی ہیں۔ آپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب لوگ عیش و عشرت میں پڑ کر اصرافِ بے جا کی عادت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تووہ معاشرتی فلاح کو نقصان پہچانے کا موجب بنتے ہیں۔

دیگر مفکرین کی طرح حضرت شاہ ولی اﷲ کا عقیدہ بھی اسلام کی ہمہ گیریت پر ہی تھا۔وہ ایک جانب عمرانیات، سیاست اور معاشیات کے اصولوں، تو دوسری جانب اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے درمیان حدِ فاصل نہیں کھینچتے وہ سمجھتے تھے کہ ایک قوم کی صحت کے لئے سیاسی اقدار ناگذیر ہیں۔قوم کو سیاسی قوت کے زوال سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے آنکھیں بند کرلینا مناسب نہیں ہے۔

اکبر کی تحریکِ دینِ الٰہی نے ہندوستان کے مسلمانوں پر پہلے ہی بے پناہ برے اثرات مرتب کر دیئے تھے۔ جن کے خاتمے کے لئے شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی سامنے آئے جس کے نتیجے میں نور الدین محمد جہانگیر نے بہتر راستہ اپنا لیا تھا۔ورنہ اس کے دربار میں بھی سجدہِ تعظیمیکا رواج تو عام تھا۔
اورنگزیب تعمیری اور فلاحی تحریک کے لئے عالیٰ کردار کے وہ لوگ میسر نہ آسکے ۔جن کی اس کو کثیر تعداد میں ضرورت تھی اور جن کی مدد سے وہ لوگوں کے دلوں کی سیاہی دھونے کا اہتمام کر سکتا تھا۔وہ ایسے لوگوں کی معاونت سے بھی محروم رہا جو اپنے عمل، فعل اور کردار سے نیک اور سچائی کا نمونہ پیش کر سکتے ۔نتیجتاََ اسلام کے تقدس کے لئے کٹ مرنے والوں کی کمی کا شدت کے ساتھ احساس کیا گیا۔اسلام پر کٹ مرنا تو دور کی بات تھی وہ ایسے غیرت مند افراد کی ایک کھیپ بھی تیار نہ کر سکا جو اپنے ذاتی تحفظ ہی کے خیال سے غیر اسلامی قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے والے ہوتے۔

یہ اورنگ زیب کی اس ناکامی کا ہی اثر تھا کہ وہ ہندوستان کے فوجی اور سیاسی محاذپر مسلمانوں کے وجود کے لئے لٹکتی ہوئی تلوار یعنی مرہٹوں کو منتشر کر دینے کے باوجود مسلمانوں کی سلامتی کے محاذ پر اطمنان پیدا نہ کر سکا تھا۔اس ضمن میں ڈاکٹر ایس ایم اکرام لکھتے ہیں کہ’’ مرہٹوں کے خلاف اورنگ زیب کو اس کی ذاتی خوبیوں کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہوئی اس کی کئی وجہیں تھیں ،لیکن سب سے اہم وجہ (جس میں مسلم حکومت کے زوال کاراز چھپا تھا) مغل اُمراء اور مغل لشکروں کی عسکری کمزری تھی۔باد شاہ کی بیدار مغزی ،ہمت اور محنت میں کلام نہیں‘‘

حضرت شاہ ولی اﷲ پہلے سیاسی و مذہبی مفکر تھے جنہوں نے برِصغیر کے مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنے اور ان میں نئی روح پھوکنے کے لئے بھر پورکردار اد کیاتھا۔آپ کا دور 1703 ؁ء سے 1763 ؁ء تک کا ہے۔یہ زمانہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے سخت مصائب اور آزمائشوں کا تھا۔ایک جانب ان کی آپس کی نا اتفاقیاں ،دوسری جانب مذہبی منافرت اور تیسرے مرہٹوں کی سخت مخالفت ، یہ تمام عناصر مل کر مسلمانوں کو تباہی کے گہرے گڑھے کی طرف لیجا رہے تھے۔ہندوستان کے مسلمانوں کی افرافتری کا ایک عجیب عالم تھا۔مغلیہ سلطنت بھی اس وقت رو بہ زوال تھی۔ہندو مرہٹے اور سکھ مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر آگے بڑھ رہے تھے۔مرہٹونے تو مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک بڑی شدو مد سے چلائی ہوئی تھی تاکہ ہندوستان میں ہندو راج قائم کیا جائے۔جس کو بعض ہندو اور ہندو نواز مورخین نے ہندووں کی قومی تحریک کا نام دیا ہوا تھا۔اس کا مقصد ہندوستان سے مسلماقدار کا خاتمہ کر کے ر ام راج کا قیام کرنا تھا۔
ایسے حالات کی وجہ سے حضرت شاہ ولی اﷲ نے مجاہد صفت اور پاکیزہ خیال و کردار کے مسلمانوں کی ایک جماعت تیار کی تاکہ وہ آپ کے نیک مقاصد کے لئے جدوجہد کر سکیں اور مسلمانان ِہند کو زوال کی آندھی آنے سے پہلے بچا سکیں۔شاہ صاخب برِصغیر کے علماء و صوفیا میں وہ ممتاز اہلِ بصیرت بزرگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اسلام کے سماجی و اقتصادی نظام کی جانب بھی متوجہ کرنے کی بھر پور کوشش فرمائی۔

شاہ ولی اﷲ کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے حکمرانِ وقت کو خوابِ غفلت سے جگانے کی زبر دست کوشش کی مگر وہ اپنی اس جدوجہد میں ناکام رہے۔ انہوں نے اُمراء کو مخاطب کر کے اس جانب توجہ دلائی کہ عمل کا یہ ہی وقت ہے۔اپنے ہم مذہبوں کے لئے جو کچھ کر سکتے ہو کر گذروورنہ تاریخ کا دھارا سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔مگر اس دور کے امرء بھی کسی سنجیدہ مشورے کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو چکے تھے۔جس کے بعد شاہ صاحب مایوسی کے عالم میں نظام الملک نواب آصف جاہ کی طرف متوجہ ہوئے مگر شاہ صاحب کی استدعا اس پر بھی بے اثر رہی۔

1857 ؁ ء ملہر راؤ ہولکر شمالی ہندوستان میں مرہٹہ ہندو باد شاہت قائم کرنے کی غرض سے بڑھا جس کے لئے اس نے جاٹوں سے بھی اتحاد کر لیا۔دربارِ دہلی کے بعض اُمرء بھی اس سازش کا حصہ بن چکے تھے ۔ اس صورتِحال نے نجیب الدولہ کو بھی ناکامی کی وجہ سے مرہٹوں سے صلح کرنے پر مجبور کر دیا۔اس کے بعد مرہٹے پنجاب کی طرف بڑھے اور اٹک تک کے علاقوں پر ہندو مرٹہ راج قائم ہو گیا۔ایسے حالات سے مجبور ہو کر شاہ ولی اﷲ نے افغان حکمران احمد شاہ ابدالی سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے مصائب بیان کئے اور اور مرہٹوں کے چنگل سے ہندوستان کے مسلمانوں کو نکالنے کے لئے ، بحیثیت مسلمان جو فرائض ایک مسلمان فرمانروا پر عائد ہوتے ہیں ،اُن کی جانب احمد شاہابدالی کی توجہ مبذول کرائی۔

چونکہ یہ بات واضح تھی کہ سلطنتِ مغلیہ کو تقویت پہنچانے کا خیال کسی بیرونی امداد کے بغیر بے معنی تھا۔شاہ صاحب غیر مسلموں سے امداد طلب کر نے کے نتائج سے بھی بخوبی واقف تھے۔ایسے نازک وقت میں واحد مسلمان قوت جو کسی بھی قسم کی مدد کر سکتی تھی وہ افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کی حکومت اور طاقت تھی۔اس صورتِ حال کے پیشِ نظر شاہ صاحب نے بر جستہ الفاظ میں مسلمانوں کی امداد کے لئے احمد شاہ ابدالی کی خدمت میں پیغام بھیجا۔دوسری جانب آپنے نظام المک ، نجیب الدولہ، حافظ رحمت خان،اور تاج محمد بلوچ جیسے مدبر اور صاحبِ قوت مسلمان حکمرانوں کو ایک مرکز پر جمع کر کے بڑ صغیر سے غیر مسلم قوتوں کے خاتمے کا ایک جامع پروگرام بناکر آپ نے افغانستان کے بہادر اور صاحبِ فہم حکمران سے تو پہلے ہی رابطے ہموار کئے ہوئے تھے۔درج ذیل الفاظ میں احمد شاہ ابدالی کو شاہ صاحب نے مدعو کیا تھا۔’’ اس زمانے میں ایسا بادشاہ جو صاحبِ اقتدارو شوکت ہو،اور لشکرِ مخالفین کو شکست دے سکتا ہو،دور اندیش و جنگ آزما ہو،آپ کے سوا کوئی موجود نہیں۔یقینی طور پر جنابِ عالی کا فرض ہے ہندوستان کا قصد کرنا اور مرہٹوں کا تسلط توڑنااور ضعفائے امت کو غیرمسلموں کے چنگل سے آزاد کرانا۔اگر معاذ اﷲ غلبہ کفر اس انداز میں رہا تو مسلمان اسلام کو فراموش کر دیں گے۔اور تھوڑا سا زمانہ گذرے گا یہ قوم ایسی قوم بن جائے گی کہ اسلام اور غیر اسلام میں تمیز نہ ہو سکے گی۔یہ بھی ایک بلائےِ عظیم ہے۔اس بلائے عظیم کو دور کرنے کی قدرت بفضلِ خدا وندی جناب کے علاوہ کسی اور کو میسر نہیں ہے۔ہم بندگان ِخداحضرت رسول ِکریم ﷺ کو اپنا رہنما کہتے ہیں۔ خدائے عز وجل کے نام پر التماس کرتے ہیں کہ ہمتِ مبارک کو اس جانب متوجہ فرماکر مخالفین سے مقابلہ کریں۔ تاکہ خدا وند تعالیٰ کی جانب سے بہت بڑا ثواب آپ کے نامہِ اعمال میں لکھا جائے۔ ‘‘

چونکہ اس عہد میں سب سے زیادہ منظم اور طاقتور مرہٹے ہی غیر مسلموں میں تھے۔جنہوں نے دکن کے علاوہ پنجاب کے بھی تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور سکھوں کو بھی یہ مغلوب کر چکے تھے۔جس کی وجہ سے شاہ صاحب نے سب سے زیادہ توجہ مرہٹہ قوت کے خاتمے کے لئے ہی صرف کی۔انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو ذاتی طور پر دعوت دینے کے ساتھ ہی نواب نجیب الدولہ والیِ روہیل کھنڈ کے ذریعے بھی اسے بر صغیر آنے اور مرہٹوں پر کاری ضرب لگا کر انہیں نیست و نابود کرنے کی تحریک کو آگے بڑھایا۔

شاہ صاحب نے نجیب الدولہ کو جو خط تحریر کیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔’’خدائے تعالیٰ منبع ِ الحسنات،امیر المجاہد، رئیس العزت،کو فتوحات ِتازہ اور بر کاتِ بے اندازہ سے مشرف و ممتاز کرے ۔فقیر ولی اﷲ کی طرف سے التماس ہے کہ اکثر اوقات محبوب الدعوات کی بار گامیں دعا کی جاتی ہے کہ وہ مخالفینِ اسلام کے فرقوں کو شکست خوردہ کر دے اورفضلِ باری تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ بات عنقریب وقوع پذیر ہوگی۔ ہندوستان میں تین فرقے شدت و صلاحیت کی صفت سے متصف ہیں۔ جب تک ان تینوں کا استحصال نہ ہوگا نہ کوئی باد شاہ چین سے بیٹھے گانہ اُُمراء چین سے بیٹھیں گے۔اور نہ ہی امراء سکون سے زندگی بسر کر سکیں گے۔دینی و دنیاوی مصلحت میں ہے کہ مرہٹوں سے جنگ جیتنے کے فوراََ بعد قلعہ جات جاٹ کی طرف متوجہ ہو جائیں اور اس مہم کو بھی برکاتِ غیب کی مدد سے آسانی سے سر کر لیں۔اسکے بعد سکھوں کی نوبت آئے گی۔اس جماعت کو بھی شکست دینی چاہئے۔اور رحمتِ الٰہی کا منتظر رہنا چاہئے۔(پرفیسر خلیق نظامی، شاہ ولی اﷲ دہلوی کے مکتوبات)

نجیب ادولہ پرشاہ صاحب کا اثر پڑ چکا تھا۔وہ ان کا بہت احترام کرتا تھا۔یہ ہی وجہ ہے کہ شاہ صاحب سے مخلصانہ خط و کتابت جاری تھی۔شاہ صاحب کے مشوروں کو وہ تہہ دل سے مانتا تھا۔شاہ ولی اﷲ کی تووقعات تھیں کہ نجیب الدولہ ان کی تمام توقعات پر پورا اترے گا۔ مسلمانوں کو مر ہٹو ں جاٹوں اور سکھوں نے جس ذلت وخواری میں مبتلا کر دیاتھا۔جس سے مسلمانوں کو نکالنے کی کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کرے گا۔نیز احمد شاہ ابدالی کے ساتھ بھی اس کا تعاون رہے گا ۔

احمد شاہ ابدالی حضرت شاہ صاحب کی دعوت پر اپنے تیس ہزار افغان سپاہیوں کو بھی ساتھ لایا ۔آخرِ کار نجیب الدولہ اس بہادر اور قابل افغان فرمانروا کی قیادت میں شمالی ہندوستان کی مسلمان ریاستوں کا اتحاد مرہٹوں کے خلاف قائم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا۔جس کے نتیجے میں1761 ء ؁ میں پانی پت کے میدان میں مسلمان فوجوں کو ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف اتحادی قوتوں کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست نے مرہٹوں کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھادی۔پانی پت میں شکست کھانے کے بعد ہندو مرہٹے کبھی منظم نہ ہو سکے۔ جس کے نتیجے میں مرہٹوں کی ہمیشہ کے لئے کمر ٹوٹ گئی۔

احمد شاہ ابدالی کا مقصد ہندوستان پر قبضہ کرنا نہ تھا۔بلکہ مسلمانوں کو مرہٹوں ظلم و تشدد سے نجات دلانا تھا۔جس کی تحریک شاہ ولی اﷲ نے پیدا کی تھی۔احمد شاہ ابدالی مرہٹوں کا ؑعرصہِ حیات تنگ کر کے واپس اپنے وطن افغانستان لوٹ گیا اور جاتے ہوئے اُس نے تختِ دہلی شاہ عالم کے لئے چھوڑ دیا۔کیونکہ شاہ عالم اس وقت بہار کے دوردراز علاقوں میں تھا ۔لہٰذا عارضی انتظام کی غرض سے شاہ عالم کے بیٹے کو ولی عہد مقرر کر کے نجیب الدوہ کو اس نگراں ٹہرا دیا کر واپس چلا گیا۔

اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے دانشمندی اور ہوشمندی سے کام لیا ہوتا ت اور عاقبت ندیشی کو اپناشعار بنایا ہوتا تو مرہٹوں اور دیگرغیر مسلم قوتوں کی جارحیت کے مسئلے سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا جاتے۔پانی پت میں مسلم افواج کی فتح حضرت شاہ ولی اﷲ کی سیاسی جدوجہد کی معرا ج تھی۔آپ کی عظمت اس بناء پر بھی ہے کہ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے انحطاط کے بنیادی اسباب پر غور فرمایااور ان خرابیوں کا علان دریافت کرنے کی کوشش کی،جن کی وجہ سے ہندوستان کی مسلمان قوم زوال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ شاہ صاحب کا خیال تھا کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کی اخلاقی پستی کا بنیادی سبب خود اسلام سے ان کی دوری ہے۔آپ نے نے مسلمانوں کو علمِ قرآن کیجانب توجہدلائی کیونکہ صرف قرآن کے ذریعے ہی ان کے آپس کے فرقہ وارانہ اختلافاتکا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ حضرت شاہ صاحب نے مسلمانوں کو زوال پذیر ہونے سے ہر ممکن طریقے سے روکا۔اس کوشش میں وہ وقتی طور پر کامیاب بھی رہے۔مگر آپ کے بعد حالات مسلمانوں کے قابو سے باہر ہوگئے۔دوسری جانب مسلمان اپنا آپس کا اتحاد برقرار نہ رکھ سکے ۔ان کے درمیان نفاق کی خیج میں اضافہہی ہوتا چلا گیا۔یوں ہندوستان میں رہی سہی اسلامی اقدار کا بھی آہستہ آہستہ خاتمہ ہونے لگا۔اب ہنداستان بیرونی قوتوں کی آماجگاہ بننے لگا ہر جانب کی سازشوں کی وجہ سے باہر کی قوتوں نے ہندوستان پر مستقل ڈیرے ڈالنے کے کوششوں کا آغاز کرنا شروع کر دیا تھا۔

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.