۴بیویاں۴۰ بچے: آر ایس ایس زنحوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں؟
(Syed Farooq Ahmed Syed, India)
بسم تعالیٰ
ہر چیز کا ایک ماہر اور خاص ہوا کرتا ہے جیسے کرکٹ سبھی کھیلتے ہیں مگر کچھ
کرکٹ ماہر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جیسے شاٹ لگانے والا کوئی اور نہیں ہوتا
ایسے ہی آپ کسی بھی شعبہ میں ایک خاص اور ہرفن مولا شخص کو پائینگے جو اپنے
فیلڈ کا ماہر ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح مکاری کرنے ،زہر اگلنے ،انتشار پیدا
کرنے والوں میں بھی ایک ماہر ہوتا ہے او ریہ زہرفشانی والی ماہرین کی ٹیم
موقع بہ موقع اپنا زہر پھیلاتے رہتی ہے کبھی رام مندر کے نام پر تو،کبھی
داڑھی رکھنے اور نکالنے کے نام پر،یا پھر بچے پیدا کرنے اورنہ کرنے کے نام
پر اپنی زہریلی زبان کھولتے رہتے ہیں۔اور خاص بات یہ ہے کہ ان ماہرین کو
کسی بھی قسم کی ٹریننگ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ایسے ہی ماہرین میں سے ایک
ساکشی مہارج ہیں۔عدالت عظمیٰ نے انتخابات کے دوران مذہب کے استعمال پر
پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ الیکشن ایک سیکولر عمل ہے
اور منتخب عوامی نمائندوں کو بھی سیکولر خطوط پر ہی کام کرنا ہو گا۔ ابھی
اس عدالتی حکم کی ستائش کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وہی ہو گیا جس کا اندیشہ
ظاہر کیا جا رہا تھا۔ بی جے پی کے ضعیف العمر ممبر پارلیمنٹ ‘ساکشی مہاراج‘
جنہوں نے اب تک غیرشادی شدہ زندگی گزاری ہے اور خود کو ہندو دھرم کی تبلیغ
و اشاعت کے لئے وقف کر رکھا ہے، سپریم کورٹ کے حکم کی دھجیاں اڑاتے ہوئے‘
اپنا پرانا مسلم دشمنی کا راگ الاپنے لگے۔ ان کی نظروں میں مسلمانوں کی
آبادی بری طرح کھٹکتی رہتی ہے۔ جنھوں نے یوپی الیکشن سے قبل اپنی زہریلی
زبان کھولی اورکہا کہ آبادی میں اضافہ کیلئے مسلمان ہی ذمہ دار ہیں۔4
بیویاں ، 40 بچے اور 3 طلاق ناقابل برداشت ہیں۔ملک کی آبادی کیلئے ہندو ذمہ
دار نہیں ہیں۔ ملک کی آبادی میں اضافہ کیلئے وہی ذمہ دار ہیں جن کی چار
بیویاں اور 40 بچے ہیں۔ یو پی کے حلقہ لوک سبھا اناو کی نمائندگی کرنے والے
بی جے پی رکن نے مزید کہا : ہم آبادی پر اگر فی الواقعی کنٹرول چاہتے ہیں
تو ملک میں سخت قوانین کی ضرورت ہوگی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ
سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کیلئے فیصلہ کریں۔ ساکشی مہاراج کے ان ریمارکس کی
اپوزیشن جماعتوں نے سخت مذمت کی ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی میرٹھ کے ضلع
انتظامیہ سے اس بیان کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ یہ متنازعہ ریمارکس ایسے
وقت منظر عام پر آئے ہیں کہ چنددن قبل ہی سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا تھا
کہ کوئی بھی شخص مذہب یا ذات پات کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتا۔ساکشی
مہاراج نے اپنے اس بیان کی وضاحت کی او رکہا کہ میں نے کہا تھا کہ ہندوستان
کی آبادی تقریباً 132 کروڑ ہوگئی ہے۔ ہندوستانی زمین کا رقبہ نہیں بڑھ رہا
ہے۔ لیکن ہماری آبادی بڑھتی جارہی ہے ہمیں اس لعنت پر قابو پانے کی ضرورت
ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین کا احترام کرنا چاہئے اور میں نے کہا تھا
کہ وہ (عورت) کوئی مشین نہیں ہے۔ چنانچہ چار بیویاں ، 40 بچے اور تین طلاق
قابل برداشت نہیں ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہمیں ایک ،
دو ، تین یا چار بچے ہونا چاہئے اور ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے '۔ اس
کے علاوہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ وہ ایک سنیاسی ہیں چنانچہ انہیں
بچے ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ساکشی نے کہا کہ جہاں تک میرا
تعلق ہے۔ہم چار بھائی ہیں۔ اور عمر تمام سنیاسی ہیں۔ چنانچہ ہمیں بچے پیدا
ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں انعام دیا جانا چاہئے لیکن ہم پر
تنقید کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا :میں نے جس تقریب میں یہ سب کچھ کہا تھا
وہ سنت سمیلن تھا جہاں بی جے پی یا کسی دوسری پارٹی کا کوئی ورکر نہیں تھا۔
ہم آپس میں صرف بات چیت کررہے تھے۔ کیا میں اپنے خاندان میں بھی کوئی بات
نہیں کرسکتا۔ رام مندر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ رام مندر بی جے پی کا
مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ موضوع سادھوو?ں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ کبھی بھی بی جے
پی کا موضوع نہیں رہا اور رام مندر کے نام پر بی جے پی کبھی بھی ووٹ نہیں
مانگے گی۔ بی جے پی کے اس رکن پارلیمنٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ گائے کی
درآمدات سے ہونے والی آمدنی دہشت گردی کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ ایسے
میں منافق کا کردار اداکرنے والے مختار عباس نقوی نے اپنے ساتھی ساکشی
مہاراج کی حمایت کرتے ہوئے دبے الفاظوں میں کہا کہ ایک طبقہ کے خلاف دوسرے
طبقہ کو اکسانا انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیاور بچاؤ کرتے ہوئے کہا
کہ میں نے ان کا بیان نہیں دیکھا لیکن ہم سب کو ساتھ لیکر چلنے پر یقین
رکھتے ہیں۔ ملک قانون اور دستور کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے۔ یہ کسی لاٹھی
سے نہیں چل سکتا۔ نقوی نے مزید کہا :اس قسم کے نظریات بی جے پی یا حکومت کے
نہیں ہیں اور ایسے بیانات سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے۔اس سے پہلیبھیآر
ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوؤں کی آبادی کا معاملہ چھیڑتے ہوئے
ہندؤوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی بات کہی تھی۔ بھاگوت نے کہا کہ کوئی
قانون ہندوؤں کو بچہ پیدا کرنے پر پابندی نہیں لگاتا۔ انہوں نے کہا کہ اس
طرح کے فیصلے خاندانی حالات اور ملک کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے لینا
چاہئے۔اوراس طرح کے بیان بازی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ایک بات میری یہ
سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ان ماہرین زنحوں کو کیا اسی لئے بی جے پی پارٹی
نے سنبھالے ہوا ہے کہ وہ وقت بے وقت اپنی زبان کھولیں اور ملک میں افراتفری
کا ماحول پیدا کریں۔بس بچے پیدا کرنے اور روکنے پر ہی اپنی بیان بازی کرتے
رہیں۔آپ غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ اس طرح کے بیان بازی کرنے والے ان
زنخی ماہرین میں اوما بھارتی،یوگی ادتیہ ناتھ،سادھوی نرنجن شاہ ہی ہے جن سے
خود ایک اولاد پیدا نہ ہوسکی وہ دوسروں کو اس طرح کے صلاح ومشورہ دیتے رہتے
ہیں۔دراصل بی جے پی کی مرکز میں آئے بر سر اقتدار رہنما پھولے نہیں سما رہے
ہیں کہ اب انہیں 800سال کے بعد غلامی سے نجات ملی ہے۔ اس لئے اپنے ہندو
کارڈ کو جتنا جلد ہو سکے کھیل کر اپنے خفیہ پلان پر عمل در آمد کیا جا
سکے۔اسلئے اقتدار کی طاقت کے نشے میں اول فول بکنے لگے ہیں اور یہ انکی
بہکی ہوئی باتیں خود انکی جڑیں کھوکھلا کر رہی ہیں بلکہ نشے میں انکی بدھی
بھرشٹ ہو گئی ہے یعنی عقل ماری جا رہی ہے جو کہ انکی تباہی و بربادی کی
پہچان ہے کیونکہ بپردھ بدھی بیناش کال یعنی جب تباہی آنے والی ہوتی ہے تو
عقل ماری جاتی ہے۔ آئے دن مودی کے یہ بھکت کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو
نشانہ بناتے رہتے ہیں۔دراصل ہندو قوم اپنے ہی بنائے اصول ہم دو ہمارے دو کے
چکر میں گھر گئی ہیں ہوا یوں کہ جب سے یہ قانون بنا تھا اس پر عمل آوری بھی
ان برادران وطن نے ہی کی جس کا خمیازہ اب انہیں بھگتنا پڑرہا ہے ہندو
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے ۰۲ سالوں میں ہندوؤں کی تعدادگھٹ کر
مسلمانوں سے بہت کم ہوجائے گی اور اگر یہی حال رہا تو مسلمان اس ملک پر
قبضہ کرلیں گے۔ یہ درست ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ایسا ہو رہا ہے؟ کیا ہندوستانی مسلمانوں
میں چار شادیاں کرنے کا چلن عام ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہے۔ ہندو مذہب
ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ اس کے باوجود ہندو ایک سے زائد
شادیاں کیوں کرتے ہیں؟ ساکشی مہاراج کے لئے فکر کا اصل سبب‘ ہندوؤں میں
دھرم کی اجازت کے بغیر ایک سے زائد شادی کرنے کا چلن ہونا چاہیے نہ کہ
دوسروں کے دامن میں جھانکنے کی کوشش۔اعداد و شمار کی روشنی میں بات کریں تو
پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ایک سے زائد بیویاں رکھنے والے مسلمان کم اور
ہندو زیادہ ہیں۔ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوؤں میں ایک سے زائد
شادیاں کرنے والوں کا فیصد 5.8 تھا جبکہ مسلمانوں میں اس کا فیصد 5.7 تھا۔
0.1 فیصد کا یہ فرق معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ فرق بہت زیادہ
ہے کیونکہ اس وقت ہندوؤں کی 366 ملین آبادی کے مقابلے میں‘ مسلمانوں کی
آبادی محض 47 ملین تھی۔ اس کے بعد 1974ء کے سروے سے بھی یہ حقیقت ایک بار
پھر عیاں ہوئی کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے یہاں ایک
سے زائد بیویاں رکھنے کا چلن زیادہ تھا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ساکشی
مہاراج کو مسلمانوں کا رونا رونے کی بجائے ہندوؤں کو تلقین کرنی چاہیے کہ
وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں اور ایک سے زائد بیویاں نہ رکھیں۔ یہی معاملہ
طلاق کا بھی ہے۔ مسلمانوں میں مشروع طلاق کو موقع بموقع اعتراض و اشکال کا
نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام نے طلاق کو انتہائی مجبوری کی حالت
میں جائز قرار دیا ہے اور اسے حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ کہا گیا ہے۔
ہندوستان کے پس منظر میں ‘دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں‘ سیپریشن یا
علیحدگی کا معاملہ اس سے کئی گنا زیادہ اور سنگین ہے جتنا کہ طلاق کے
معاملہ کا مسلمانوں کے تعلق سے۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کی جانب کسی کی نگاہ
نہیں جاتی۔ ساکشی مہاراج نے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو
خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں کرتے ہیں اور عورت کو محض بچہ پیدا کرنے
کی مشین نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ مسلمان زیادہ
بچے پیدا کرتے ہیں‘ اس لئے انہیں مسلمان عورتوں سے ہمدردی ہے کہ ان کا اس
طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔ لیکن ساکشی مہاراج بھول گئے کہ دو سال قبل
انہوں نے خود ہندو عورتوں کو کم از کم چار بچے پیدا کرنے کی نصیحت کی تھی۔
اگر مسلمان عورت چار بچے پیدا کرے تو مشین اور ہندو عورت کو چار بچے پیدا
کرنے کی تلقین۔آخر کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ساکشی مہاراج اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں کا اصل مسئلہ مسلمانوں کا وجود
ہے ‘جو ہر وقت ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ دراصل اس ملک کے
آئین‘ یکجہتی اور سماجی و تہذیبی تنوع کے دشمن ہیں۔ساکشی مہاراج کے مسلم
مخالف بیان کا الیکشن کمیشن نے سخت نوٹس لیا ہے۔ ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی
درج کر لیا گیا ہے۔ لیکن صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ بی جے پی نے سردست حالات
کی نزاکت کے مدنظر ‘ساکشی مہاراج کے فرقہ واریت پر مبنی بیان سے پلہ جھاڑ
لیا ہے۔ لیکن اس طرح عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن اور
مقامی انتظامیہ قانونی کارروائی کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کو
بھی چاہیے کہ وہ ساکشی مہاراج کے خلاف سخت کارروائی کرے اور انہیں اس جرم
کی مناسب سزا دے۔ لیکن اس کا امکان معدوم ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بی جے پی
جس کے لئے یو پی کا الیکشن جیتنا موت و زیست کا سوال بنا ہوا ہے‘ جیت حاصل
کرنے کے لئے فرقہ ورانہ اور مسلم دشمنی کا ا?زمودہ ہتھیار ایک بار پھر
استعمال کر سکتی ہے اور ساکشی مہاراج جیسے لوگ اس موقع پر پارٹی کے لئے
کافی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔آخر میں میں ساکشی مہاراج کو مشورہ دوں گا کہ
بچے پیدا کرنیاور روکنے کیمتعلق بیان کرنے سے پہلے خود ایک بچہ پیدا کرنے
کی طاقت پیدا کریں اور جب طاقت پیدا ہوجائے تب شادی کرنے کا سوچیں اورشادی
ہونے کے بعد اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کیا واقعی وہ بچہ پیدا کرنے کے
قابل بھی ہیں یا نہیں۔ |
|