بڑی سچی بات ہے ، مقدمات کی پیروی کرتے
کرتے واقعی لوگ تنگ آجاتے ہیں۔ رل جاتے ہیں۔ لوگ برباد ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے
ہو جاتے ہیں۔ ان کی اولادیں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس
جناب منصور علی شاہ یقیناً درد دل رکھنے والے شخص ہیں اسی لئے انہوں نے اس
افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکم امتناعی کے کلچر کو ختم
کرنے کے لئے مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا۔ کوشش ہے کہ جن مقدمات میں حکم
امتناعی ہے ان کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ پنجاب کی عدلیہ میں اس وقت
لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں جنہیں روایتی انداز میں نمٹانا ممکن نہیں۔ اس
لئے ہمیں دنیا میں رائج جدید طریقے اپنانا ہوں گے۔ دنیا میں تیس سے چالیس
فیصد مقدمات مصالحتی عدالتوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ عدلیہ کا کردار اختلاف اور
تنازعات کو حل کرنا ہے لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی عدالتوں سے رجوع
کرنے سے عدالتوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ لوگ مقدمات کی پیروی کرتے کرتے تنگ
آچکے ہیں۔ لیکن لاکھوں مقدمات کی موجودگی میں عدالتیں بے بس ہیں۔ لیکن وہ
وقت دور نہیں جب ہم پچاس فیصد معاملات مصالحتی مراکز میں حل کر لیا کریں
گے۔
جناب چیف جسٹس آپ کافرمانا بالکل ٹھیک، لیکن بہت سے معاملات میں حکم
امتناعی ضروری ہوتا ہے۔ اس وقت تمام جج حکم امتناعی کے سلسلے میں بڑے محتاط
ہیں اور حکم امتناعی صرف اسی صورت میں جاری ہوتا ہے کہ اس کے بغیر کوئی
چارہ نہ ہو۔ ماتحت عدالتوں میں شاید کہیں کہیں با اثر لوگوں کادباؤ کام
آجاتا ہو اسلئے وہاں کے بارے میں ضرور سوچیں، مگر ہائی کورٹ جہاں جج با اثر
لوگوں اور وکلاء کا پریشر قبول نہیں کرتے وہاں حکم امتناعی کی گنجائش رکھنی
بہت ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مقدمات کی تعداد بڑھنے کی جہاں بہت سی
وجوہات ہیں وہاں ایک وجہ ججوں کے فیصلے بھی ہیں، خصوصاً سرکاری محکمے کے
بارے میں کئے گئے فیصلے۔ سرکاری محکموں کے بارے جج فیصلہ کرتے ہوئے زبان جو
کہتے ہیں وہ فیصلے میں نہیں لکھتے بلکہ سرکاری افسروں کو دوبارہ صحیح فیصلہ
دینے کا حکم دے دیتے ہیں۔ سرکاری افسر دوبارہ اپنے پرانے فیصلے کو صحیح
قرار دے دیتے ہیں۔ سائل دوبارہ بلکہ سہ بارہ ہائی کورٹ آتا ہے، یوں سائل کا
وقت اور کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ ججوں کو اگر پابند کیا جائے کہ فیصلے کو
لکھتے وقت تفصیل سے لکھیں اور مسائل کو سرکاری افسروں کے رحم و کرم پر نہ
چھوڑیں تو بہت سارے کیس دوبارہ ہائی کورٹ نہیں آئیں گے۔ دوسرا ہائی کورٹ کے
حکم کو سرکاری افسر ٹرخانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ہائی کورٹ
میں توہین عدالت کے جرم میں ان کی غیر مشروط معافی فوراً قبول کر لی جائے
گی۔ اس لئے انہیں کسی چیز کا ڈر نہیں رہتا۔ ضروری ہے کہ توہین عدالت کے
قانون پر مؤثر عمل درآمد کیا جائے۔ ان دوباتوں پر عمل کے بعد سرکاری محکموں
کے حوالے سے بہت سے مقدمات کا بوجھ ہائی کورٹ پر کم ہو جائے گا۔ دو پارٹیوں
کے جھگڑے میں اگر کسی فریق کی زیادتی صاف نظر آرہی ہو تو اسے ساتھ ہی سزا
دینے کا کام بھی عدالتیں فوراً کر دیں تو لوگ جھوٹے مقدمات دائر کرنا چھوڑ
جائیں گے۔ مقدمات کی تعداد کس طرح کم ہو اس پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔
ججوں، وکیلوں اور عام سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا
کر اسے ایک محدود مدت میں اپنی تجاویز دینے کا کہا جائے اور ان کی جائز
تجاویز پر عمل کر کے مقدمات کی تعداد کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مصالحتی
عدالتیں کسی حد تک کام کریں گی، مگر اُن کے بھی زیادہ تر کیسز واپس ہائی
کورٹ آئیں گے۔ کیونکہ ملک میں لوگوں کا مائنڈ سیٹ ابھی مصالحتی عدالتوں کو
قبول کرنے والا نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے کراچی میں سارک ممالک کی کانفرنس کی
پچیسویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو خوبصورت باتیں کیں وہ حقیقی
معنوں میں عوام کے دل کی آواز ہیں۔ عوام عدلیہ سے ایسی ہی امید کرتے اور ان
باتوں پر پوری طرح عمل درآمد کے خواہش مند ہیں۔ جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ
میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ کسی دباؤ کے بغیر فیصلہ کرنے کی پابند ہے
اور اس کی بنیادی ذمہ داری جلد اور فوری انصاف فراہم کرنا ہے۔ ہر سائل کا
حق ہے کہ اسے انصاف ملے۔ انہوں نے کہا کہ میرا سب سے زیادہ جس پر ایمان ہے
وہ لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں اور بنیادی حقوق پر عمل کرانا عدلیہ کا فرض
ہے۔ آئین نے عدلیہ کو اختیار دیا ہے کہ انتظامیہ کو اختیارات کے تجاوز سے
روکے۔ سارک ممالک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو
ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے اور ان کا مستقبل انصاف کی فراہمی ہی سے ممکن
ہے۔ سارک ممالک کی تاریخ ہزاروں سال پرانی اور شاندار ہے مگر اب خطے کو
غربت سے جنم لینے والے مسائل نے بری طرح جکڑ لیا ہے جس کا حل انصاف ہے اور
ہمیں انصاف کی فراہمی کے لئے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ
عدلیہ کو بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کرنے چاہئیں اور فیصلہ ایسا ہونا چاہئے کہ
کسی بھی فریق کی جانب جھکاؤ نظر نہ آئے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ انصاف کی
فراہمی کے لئے عدلیہ ٹیکنالوجی کا سہارا لے اور انصاف کا ہونا نظر بھی آئے۔
جناب چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ کہنا کہ عدلیہ کسی دباؤ کو قبول نہیں کرے
گی، کسی کی طرف جھکاؤ نہیں دکھائے گی اور انصاف ایسا کرے گی کہ جو ہوتا نظر
آئے۔ یہ سب کچھ ان کے اپنے مزاج کا حصہ ہے۔ میں نے پہلے بھی اس بارے میں
لکھا تھا کہ جسٹس صاحب کے بارے غلط سوچنے والوں کو جلد احساس ہوگا کہ انہیں
’انصاف اور صرف انصاف‘ سے پیار ہے اور اس پر عملدرآمد ان کی زندگی کا مشن۔
ان کا ماضی اسی بات کا آئینہ دار ہے اورمجھے یقین ہے کہ مستقبل میں وہ خواص
کی بجائے عوام کی اُمنگوں پر پورے اُتریں گے۔ |