اقوام متحدہ نے پاکستان میں مقیم قریب1.3
ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین کیلئے25جنور ہدایات نامہ جاری کیا ہے کہ افغان
مہاجرین پاکستانی سیکورٹی حکام کی بد سلوکی کی رپورٹ درج کریں۔ اقوام متحدہ
کے افغان مہاجرین کو یہ ہدایات بھی دیں ہیں کہ وہ اپنے خلاف مبینہ زیادتیوں
کی رپورٹ اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی اداری یونسیف UNICEFاور عالمی
ادارہ برائے مہاجرین UNHCR کے ایک پروگرام "یو رپورٹ پاک آواز"کے تحت دیں ۔
افغانستان سے آنے والے ان تارکین وطن کو جبراََ واپس اپنے ملک جانے پر
مجبور کرنے والوں کے خلاف یکطرفہ رپورٹوں کو یکجا کرنا ہے۔ یو نیسف سوشل
مانیٹرنگ و بروئے کار لائے گا ۔ اقوام متحدہ کا دعوی ہے کہ افغان مہاجرین
کیخلاف سیکورٹی اہلکاروں کیجانب سے کیا زیادتیاں ہو رہی ہیں ؟۔ یونسیف کے
مطابق اس طرح کی رپورٹس و شکایات ادارے کو ٹویٹر ، فیس بک یا موبائل فون سے
بھیجے گئے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے سے بھی بھیج سکتے ہیں۔ یونسیف اس عمل کو
نوجوانوں کی جانب سے مسائل سے متعلق بہتر ابلاغ کا موقع بھی فراہم کرنے کا
عزم رکھتا ہے۔انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے دعوی کیا جارہا ہے کہ
پاکستان میں رجسٹرڈ 1.3ملین افغان مہاجرین کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا
جارہا اور پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کا رویہ ان کے ساتھ درست نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اس قسم کی تجزئیے حاصل کرنا ، پاکستان کی مہمان
نوازی اور قربانیوں کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے
کہ جس نے تارکین وطن افغان شہریوں کو پاکستانی شہریو ں سے زیادہ ہر طرح وہر
قسم کی آزادی دے رکھی ہے ۔1979سے لیکر2017تک معیاد ختم ہونے کے دوران، کئی
مرتبہ افغان مہاجرین کیلئے تاریخ میں توسیع کی گئی۔ پاکستان نے دیگر ممالک
کی طرح افغان شہریوں کو کیمپوں تک محدود نہیں رکھا ، اس کی مثال پڑوسی ملک
ایران سے لی جاسکتی ہے کہ انھوں نے افغانستان کے مہاجرین کو اپنے شہروں سے
دور کیمپوں میں کسمپریسی کی حالت میں رکھ اہوا ہے ، کاروبار تو بہت دور کی
بات ہے انھیں وہاں کام کرنے کی بھی آزادی نہیں ہے،2014میں سانحہ اے پی ایس
کے بعد افغان مہاجرین کو وطن واپسی کے مطالبے میں ملک کے طول و عرض میں شدت
پیدا ہوگئی تھی ، خاص طور پر پشاور کے مضافاتی علاقوں میں آئے روز افغان
مہاجرین کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ ایسا ہو چکا تھا کہ جیسے افغانستان سے
نہیں بلکہ پاکستان سے مہاجرین آئے ہیں ، کراچی میں ایک بہت بڑی تعداد افغان
مہاجرین کی کراچی کے مستقل آباد شہریوں سے اچھی حالت میں اور کاروباری طور
پر مضبوط معاشی طور پر مستحکم ہوچکے ہیں ، بلوچستان میں افغان مہاجرین کی
وجہ سے قوم پرستوں میں شدید تحفظات پائے جا رہے ہیں کہ اگر افغان مہاجرین
کی واپسی کے بغیر مردم شماری کی جاتی ہے تو اس طرح ، بلوچستان کی عوام
اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے ۔ بادی النظر اگر ہم غیر جانبدارنہ رائے قائم
کرنا چاہیں تو افغان مہاجرین ، ہمارے اسلامی بھائی ہیں ، ہمارے پڑوسی ہیں ،
ہمارے ملک میں ، ہمارے علاقوں میں رہ رہے ہیں لیکن ان کی وجہ سے افغان
مہاجرین کو تو اتنی پریشانیوں کا سامنا نہیں ہے جتنا پاکستانی پختونوں کو
ہے ، افغان مہاجرین کے غیر قانونی اقدامات و جعلی دستاویزات کے حصول کے سبب
پاکستان کے محب الوطن پختونوں کو اپنی شناختی علامت ، نادرا سے حاصل کرنے
کیلئے پورا شجرہ نسب لا کر دینا پڑتا ہے ، اپنے ہی ملک میں کسی بھی جگہ
جانے پر سب سے مشکوک شہری سمجھے جاتے ہیں ،۔ ملازمتوں میں پاکستانی پختونوں
کو افغانستان میں جاری مزاحمت کاروں کا سہولت کار سمجھ کر ملازمت نہیں دی
جاتی ، سرکاری اداروں میں تو ملازمت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ،
اپنے ہی ملک میں ایک شہر سے دوسرےء شہر جانے اور رہنے کی صورت میں صوبائیت
و نسل پرستی کے ساتھ لسانیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، پاکستانیوں شہریوں کو
افغان مہاجرین کی وجہ سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا سامنا ہوا ۔
افغانستان میں ان کی آزادانہ ریل پیل کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی
کاروائیوں میں اضافہ ہوا ۔ افغان مہاجرین ایک غول کی صورت میں رہتے ہیں ،
پشاورتا کراچی ، کراچی تا کوئٹہ جہاں بھی افغان شہری آباد ہیں ، وہاں دوسری
قومیت کا فرد آزاد نہیں رہ سکتا ۔ آئے روز مخبر سمجھ کر انتہا پسند وں کی
جانب سے پاکستانیوں کی ٹارگٹ کلنگ ایک معمول بن چکی ہے۔ پاکستان کے علاقوں
میں ہی افغان مہاجرین نے نو گو ایریا بنا لئے ہیں ، مختلف سیاسی جماعتوں
میں پاکستان کی جعلی شہریت حاصل کرکے مفادات حاصل کئے، پاکستانی پختونوں کو
ان افغان مہاجرین کی وجہ سے جعلی دستاویزات کی بنا پر جتنی دشواریوں کا
سامنا اپنے ہی ملک کے سیکورٹی اہلکاروں سے پڑتا ہے ، اس کا اندازہ لگانے
کیلئے اقوام متحدہ کو صرف افغان مہاجرین کیلئے خصوصی پروگرام مرتب کے بجائے
، پاکستانی پختونوں و عوام کو جتنی تکالیف کا سامنا ہے ، اس پر بھی یونسیف
کو ایک پروگرام سوشل مانیٹرنگ کیلئے متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔دنیا بھر میں
افغان مہاجرین کے گروپوں کو ملک بدر کیا جارہا ہے ، انھیں رہائشی توسیع
نہیں دی جا رہی ، اس پر اقوام متحدہ کی جانب سے کسی قسم کا تحفظات کا اظہار
سامنے نہیں آیا ہے ، حال ہی میں جرمنی سے افغان مہاجرین کے دوسرے گروپ کو
ملک بدر کیا گیا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب تک افغانستان میں امن
قائم نہیں ہوجاتا ، پاکستان میں پیدا نئی نسل کو مشکلات کا سامنا ہوگا ،
لیکن عملی طور پر ضرورت اس بات کی ہے اقوام متحدہ افغانستان میں مستقل امن
کے قیام کیلئے اپنا کردار درست ادا نہیں کررہی ۔ امریکہ افواج اور نیٹو
اتحاد کی واپسی کے اعلان کے باوجود امریکہ کی وہاں موجودگی معاہدے کی خلاف
ورزی ہے ، کیونکہ جب تک امریکہ اور ان کے اتحادی افغانستان سے نہیں جائیں
گے ، اس وقت تک امن کے قیام میں رکاؤٹ پیدا ہوتی رہے گی۔ امریکہ کی موجودگی
کی وجہ سے امارات اسلامیہ اور کابل حکومت جو کہ امریکہ کی ہدایات پر عمل
پیرا ہے ، ان کی وجہ سے مسلسل مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ،
افغانستان میں امن کے فارمولے میں بنیادی رکاؤٹ ، امریکہ اور ان کی
اتحادیوں کی متواتر مداخلت ہے ، جیسے خود کٹھ پتلی کابل حکومت کے وزرا ء
بھی نا پسند کرنے لگے ہیں۔ دوسری جانب افغانستان کا پاکستان کیساتھ رویہ
انتہائی نامناسب ہو گیا ہے ، بھارت کی شہ پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے
واقعات میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے پاکستانی عوام براہ
راست پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو اس کا ذمے دار سمجھتی ہیں ۔ چار
عشروں سے پاکستان میزبانی کررہا ہے ، مزید کچھ اور سال بھی کرلے ، لیکن اس
سے حالات بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے جا رہے ہیں ، اہم ایسے رہنما جو
افغانستان سے فرار ہوکر افغان مہاجرین کے علاقوں سے گرفتار کئے گئے ، جس کے
سبب پاکستانی پختون آبادیوں کو مزید تکالیف و شکوک کی نظر دیکھے جانے
لگا۔بلا شبہ پاکستان کے پختون افغانستان کہلائے جانے ملک کے شجرے سے تعلق
رکھتے ہیں ، لیکن بد قسمتی سے افغانی صدور بیرونی ایجنڈے کے تحت پاکستانی
کی جڑوں کو کاٹنے کیلئے افغان مہاجرین کا استعمال کررہے ہیں ، جعلی
دستاویزات ، جعلی شناختی اسناد رشوت کے عوض حاصل کرکے جہاں نا عاقبت
اندیشوں نے افغان مہاجرین کیلئے مشکلات پیدا کیں تو دوسری جانب اپنی قوم
پختونوں کیلئے بھی تکالیف کا سبب بنے ۔
پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں نے افغان مہاجرین سے شناختی اسناد کے حوالے سے
یقینی طور پر اپنی تشفی کیلئے پوچھ گچھ کی ہوگی ، لیکن پاکستانی پختون
کیساتھ بھی ان کا رویہ ایسا کیوں ہوا ، کیا اقوام متحدہ کو اس بات کا
اندازہ ہے کہ پاکستانی اپنے ہی ملک میں افغانی شہریوں کی وجہ سے سیکورٹی
اہلکاروں کی تفتیش کے سخت اذیت ناک عمل سے گذرتے ہیں ، افغانی شہری تو رشوت
کے سبب تمام سہولیات گھر بیٹھے حاصل کرلیتے ہیں ، دو لباس جوڑوں میں آنے
والے افغانی شہری ، کھربوں روپوں کے مالک بن گئے ہیں ، پاکستان کے بڑے
شہروں میں انھیں کچرا چنتے دیکھ کر ان کے غیور پن پر فخر محسوس ہوتا تھا کہ
ملازمت جیسی غلامی کے بجائے اپنا رزق کچروں سے حاصل کرکے اپنی غیرت کو مقدم
سمجھتے ہیں ، لیکن کچرا چنتے چنتے ، نالیاں ، نالے صاف کرنے والوں کے برعکس
محنت کش پاکستانی پختون آج تک عزت کی دو روٹی سے زیادہ نہیں کما سکے اور
ہمارے سامنے آنے والے افغان مہاجرین اربوں ، کھربوں کے مالک بن گئے ، بھتوں
میں ملوث ہوگئے ، ہائی ڈرینٹ اور منشیات ، اسلحہ اسمگلنگ کیساتھ ساتھ نیٹو
افغان ٹرانزٹ اسکیم کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ٹیکس کی مد میں بھی کھربوں
کا نقصان دے رہے ہیں ، اربوں روپوں کے مالک ، پاکستانی حکومت کو کوئی انکم
ٹیکس نہیں دیتے ۔ اقوام متحدہ افغانی شہریوں کو افغانستان کے پر امن علاقوں
میں بسانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ پاکستانی پختون شہری بھی سکون کا
سانس لے سکیں ۔ |