ڈونلڈ ٹرمپ، مودی کے نقش قدم پر……انتہا پسندانہ پالیسیوں پر دنیا بھر میں تنقید
(عابد محمود عزام, Lahore)
امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں
مسلم دشمنی اور بھارت نوازی سے متعلق خدشات ایک ایک کر کے پورے ہوتے جارہے
ہیں اور انتخابات میں لگائے گئے ان کے نعرے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کا بادشاہ بننے کی دوڑ میں اترنے کے
لیے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ’’دشمن‘‘ کے خلاف ’’جنگ‘‘ کے عنوان سے کرتے
ہی اسلام و مسلمانوں پر تابڑ توڑ ’’حملے‘‘ کردیے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے
انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ
کیا۔ صدر بننے کے بعد امریکا میں موجود تمام مساجد کو بند کرنے کے احکامات
جاری کرنے کا عندیہ دیا تھا اور مساجد اور مسلمانوں کی نگرانی اور مسلمانوں
کے رجسٹریشن ڈیٹابیس کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ ان کے بیانات کی وجہ سے امریکا
سمیت دنیا بھر میں ان کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور ان کے خلاف بڑے بڑے
مظاہرے ہوئے۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال تھا کہ ڈونلڈ
ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران مسلمان دشمنی پر مبنی بیانات صرف انتخاب جیتنے
کے لیے دے رہے ہیں، عہدہ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد خود ہی مسلم کش پالیسی
کو ترک کردیں گے، لیکن ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے
کے بعد بھی اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں لائے اور بھارت میں مسلم دشمنی
کی بنیاد پر الیکشن جیت کر مسلمانوں کے خلاف انتہاپسندی کو فروغ دینے والے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ
ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکا میں اسی طرح مذہبی
انتہا پسندی میں اضافہ ہوا جیسے بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے
کے بعد مسلمانوں کے خلاف انتہاپسندانہ واقعات میں اضافہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی
انتخابی مہم سے امریکا میں مساجد کو آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب
تک کئی مساجد کو آگ لگائی جاچکی ہے۔ گزشتہ روز بھی امریکی شہر ہوسٹن میں
نامعلوم افراد نے مسجد کو آگ لگادی۔ اس کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے
عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد انتخابات میں کیے گئے اپنے بیانات کو
عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت کو
سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد 27 جنوری کو نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے
امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کرتے ہوئے 7 مسلمان
ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کے
امریکا میں داخلے پر بھی پابندی عاید کردی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی
امیگریشن پابندیوں کے بعد اس پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کرتے ہوئے، ویزا،
گرین کارڈ رکھنے والے پناہ گزینوں کو امریکا داخلے سے روک دیا اور سیکڑوں
افراد کو حراست میں بھی لیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ایگزیکٹو آرڈر کے بعد عالمی رہنماؤں سمیت مختلف نامور
شخصیات کی جانب سے فیصلے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ خود ٹرمپ کے حلیفوں نے
بھی ان پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ چار وفاقی ججوں نے مہاجرین
کی جبری واپسی روکنے کے اقدامات کیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سات مسلمان
ملکوں کے شہریوں کے امریکا کے سفر پر پابندی کے فیصلے کو دو مقامی عدالتوں
نے روک دیا۔ صدارتی فیصلے کے خلاف نیویارک، کیلیفورنیا، ورجینیا، واشنگٹن
اور میسا چیوسیٹس پانچ ریاستی عدالتوں نے مخالفت کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ
کیلیفورنیا، پنسلوانیا، الی نوائے، نیو میکسکیو، میساچیوسس اور ہوائی سمیت
16 ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے مشترکہ بیان میں ٹرمپ کے حکم نامے کو غیر
آئینی، غیر قانونی اور امریکی اقدار کے منافی قراردیتے ہوئے ٹرمپ کے
ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمے میں معاونت فراہم کرنے کا
بھی اعلان کردیا۔ عالمی رہنماؤں اور خود امریکی انسانی حقوق کی تنظیموں کی
جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا میں آنے والے تمام مہاجرین کو خوش
آمدید کہا ہے۔ فرانس کے صدر فرانسووا اولاند کہتے ہیں کہ یورپ کو ٹرمپ کو
سخت جواب دینا چاہیے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے 7 مسلم ممالک کے پناہ
گزینوں کے امریکا داخلے کے فیصلے کو انسانیت کے خلاف قرار دیتے ہوئے
برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن کو حکم دیا کہ وہ فوری طورپر اس معاملے کو
امریکی ہم منصب کے سامنے اٹھائیں اور اپنے تحفظات کا اظہار کریں۔ برطانوی
لیبر رہنما جریمی کوربین اور برطانوی شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈونلڈ
ٹرمپ کے متنازع آرڈر کے جواب میں رواں سال کے آخر میں امریکی صدر کے دورہ
برطانیہ کو منسوخ کردیا جائے، اس مقصد کے لیے شہری آن لائن پٹیشن پر دستخط
بھی کر رہے ہیں، جس پر اب تک 10 لاکھ سے زاید لوگ دستخط کرچکے ہیں اور اس
میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے عاید کردہ انہیں
پابندیوں کے حوالے سے یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کی طرف سے کئی مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر
عاید پابندی کا جائزہ لے رہی ہے، تاہم یونین اپنے رکن ملکوں کے شہریوں سے
کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک برداشت نہیں کرے گی۔ دنیا بھر کے مسلم ممالک
کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے امریکی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات مسلم اکثریتی ملکوں کے
شہریوں کے امریکا جانے پر عاید کردہ عارضی پابندی سے شدت پسندوں کو مزید شہ
ملے گی اور ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اقدام دنیا بھر میں انتہا پسندوں اور بنیاد
پرستوں کے موقف کو مضبوط بنانے کا باعث بنے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری
نثار علی خان نے امریکی صدر کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی
اقدام سے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اتفاق و اتحاد کو نقصان پہنچے گا
اور اسلام و مسلمانوں کی جانب انگلی اٹھے گی اور اس کا فائدہ دہشت گردوں کو
ہوگا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے لیکن دنیا
کی ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی مسلمان ہے اور اگر ان میں سے چند سو مسلمان
بھٹکے ہوئے ہیں اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں تو اس کا الزام ڈیڑھ ارب
مسلمانوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں دہشت گردی کا سب سے
زیادہ نشانہ مسلمان بنے ہیں اور دہشت گرد ہونے کا الزام بھی مسلمانوں پر
لگا ہے۔ ایران نے بھی امریکا میں اپنے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر
پابندی کے جواب میں امریکیوں کے ایران میں داخلے پر پابندی کا اعلان کردیا
ہے، جبکہ عراقی پارلیمنٹ میں بھی امریکیوں کے عراق میں داخلے پر پابندی کا
مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلم تارکین وطن کے ملک میں
داخلے پر پابندی کے بعد واشنگٹن نے پاکستانیوں کے لیے بھی ویزے بند کرنے کا
اشارہ دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف رائنس پریبس کا کہنا تھا کہ صدر
ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم اکثریت والے 7 ممالک پر امیگریشن پابندی عائد کرنے کے
لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس میں دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جا
سکتا ہے، جہاں اسی طرح کے مسائل ہیں، جیسا کہ پاکستان اور دیگر ممالک تاہم
فوری طور پر ہم پاکستان جیسے ممالک کے شہریوں کو ویزے دیتے ہوئے کڑی جانچ
پڑتال سے گزاریں گے۔ پاکستانی شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی کے
خدشے کے بعد امریکا میں مقیم پاکستانی شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے
ہیں۔ اگر امریکا ایسی پالیسی اپناتا ہے تو اس سے مستقبل میں پاکستان کی
مشکلات میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے امکان کے علاوہ پاک امریکا تعلقات ایک
بار پھر سرد مہری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا میں مقیم
پاکستانی شہریوں کے مسائل بھی شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ امریکا جنوبی ایشیا
میں پاکستان کے بجائے بھارت کو اپنا مستقبل کا پارٹنر بنانے کے لیے کوشاں
ہے۔ تجزیہ کار ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکاؤ شروع سے بھارت کی جانب محسوس کر رہے تھے۔
بعض مبصرین نے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا نریندر مودی بھی قرار دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو اپنا سچا دوست قرار دے چکے اور نریندر مودی اور ڈونلڈ
ٹرمپ ایک دوسرے کو اپنے اپنے ملکوں کا دورہ کرنے کی دعوت دے چکے ہیں۔ گزشتہ
برس نومبر میں مودی نے امریکا کا صدر منتخب ہونے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد
دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ ان کی دوستی کی قدر کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دیوالی کے موقع پر ہندی میں ایک
اشتہار بھی جاری کیا تھا، جس میں ٹرمپ نے وہی جملہ استعمال کیا تھا، جو
نریندر مودی نے 2014 کی انتخابی مہم میں استعمال کیا تھا۔ ’’اب کی بار ٹرمپ
سرکار‘‘ کے نعرے کے ساتھ مذکورہ اشتہار میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ
ہندوستانی رہنماؤں کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں۔ گزشتہ برس
نومبر میں صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور ریپبلکن ہندو
کولیشن کے صدر شَلبھ کمار کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی
وزیراعظم نریندر مودی ناصرف دونوں ممالک گہرے دوست ہوں گے، بلکہ دونوں
حضرات بھی پکے دوست ہوں گے۔ مبصرین گزشتہ روز امریکا کی جانب سے جماعۃ
الدعوۃ پر پابندی کے مطالبے کو بھی امریکا بھارت تعلقات کے تناظر میں دیکھ
رہے ہیں۔ امریکا نے جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے، بصورت دیگر
پاکستان پر کئی قسم کی پابندیاں لگ سکتی ہیں، جس کے بعد جماعت الدعوۃ کے
امیر حافظ سعید سمیت 5 افراد کو 6 ماہ کے لیے نظر بند کردیا گیا ہے، جب کہ
جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو 6 ماہ تک زیرمشاہدہ بھی رکھا
جائے گا۔ اس حوالے سے حافظ سعید کا کہنا ہے کہ میری نظری بندی کے احکامات
اسلام آباد سے نہیں، نئے دہلی اور واشنگٹن سے آئے ہیں۔ باخبر ذرائع کے
مطابق وفاقی حکومت جماعت الدعوۃ کے خلاف ’’کارروائی‘‘ کرنے کا فیصلہ کرنے
میں کئی روز تک تذبذب کا شکار رہی۔ واشنگٹن اور بیجنگ کی طرف سے بار بار
حکومت پاکستان پر جماعت الدعوۃ پر پابندی عاید کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا
رہا ہے۔ امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ سعید کی گھر پر نظربندی کو امریکا اور
بھارت کی کامیابی اور پاکستان کی سفارتی ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے پاکستان سے جماعۃ الدعوۃ کے خلاف کارروائی
کا مطالبہ مودی سرکار کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے، جس پر پاکستان عمل درآمد
کر رہا ہے۔ پاکستان کے متعدد سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے جماعۃ الدعوۃ سے
متعلق حکومت پاکستان کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان بھارتی اشاروں پر امریکی حکومت کی ہر ٹھیک غلط بات مان رہے جو
بحیثیت قوم پاکستانیوں کے لیے نیک شگون نہیں۔ |
|