بدترین کال

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آسٹریلیاکے وزیراعظم سے فون پر ہونے والی بات چیت کو ’’بدترین کال‘‘ قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد دوسرے ممالک کے سربراہان سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ کسی کو وہ خود کال کرتے ہوں گے اور کئی ان سے کال ملاتے ہونگے، یہی دنیا داری ہے۔ جن سربراہانِ مملکت سے ٹرمپ کی بات چیت ہوئی ہے، ان میں ماحول کیسا رہا؟ اس بات کا اندازہ ’بدترین کال‘ کے الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے ممالک کے سربراہوں سے بات چیت ہوئی، کسی سے بات ’بد‘ ہوئی، کسی سے ’بد تر‘ ۔ممکن ہے اس ضمن میں کسی سے اچھی بات چیت بھی ہوئی ہو، تاہم آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرن بال سے بات چیت سب سے نمبر لے گئی، الگ خبر کا موضوع بن گئی،’ بدترین‘ قرار پا گئی۔ ٹرمپ چونکہ امریکی ’’مولا جٹ‘‘ کے طور پر سامنے آئے ہیں، ان کی یہ صفت الیکشن سے قبل ہی سامنے آگئی تھی، اس کے باوجود بھی امریکی ووٹرز نے انہیں منتخب کرکے اپنی سیاست میں تبدیلی کا اشارہ دے دیا ، وہاں کے عوام نے یہ ثابت کردیا کہ وہ دنیا کے لئے مزید جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہ دنیا کو اپنا مکمل غلام بنا کر رکھنے کے خواہشمند ہیں، وہ مسلمانوں پر امریکہ کے دروازے بند کرنے کے خواہاں تھے۔ ٹرمپ اپنے ووٹرز کی توقعات پر پورا اتر رہے ہیں، وہ مسلمانوں کو اپنے ووٹرز کے اندازوں سے بڑھ کر خراب اور پریشان کرنے کے موڈ میں ہیں۔

ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد خبر آئی تھی کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی بھی اُن سے بات چیت ہوئی ہے، جسے نہایت مثبت اور خوشگوار قرار دیا گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس گفتگو کو متنازع بھی کہا گیا، حتیٰ کہ بعض حاسدین نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ ایسی کوئی بات چیت سرے سے ہوئی نہیں، ہم حاسدین اور مخالفین کے نظریات اور بیانات کی تردید کرتے ہیں، پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے، یقینا ایک اتحادی دوسرے کی کامیابی پر مبارکباد پیش کر سکتا ہے، اور گپ شپ بھی کر سکتا ہے۔ سابق امریکی صدور میں سے بعض کے ساتھ میاں نواز شریف کے دوستانہ تعلقات رہ چکے ہیں، کیونکہ اِنہوں نے اپنی وزاتِ عظمیٰ کے دور میں کم وبیش چار امریکی صدور کے ادوار تو ضرور دیکھے ہیں۔ اگر سابقہ ادوار میں ایک ایک امریکی صدر کو بھگتایا ہو تو اس مرتبہ اوباما کا دور بھی دیکھا اور ٹرمپ سے بھی واسطہ رہے گا۔ میاں صاحب دہائیوں سے سیاست کے خار زار میں مصروف عمل ہیں، جہاندیدہ ہیں، مزاج شناس بھی ہو گئے ہوں گے، امریکیوں کے موڈ اور مزاج کا اندازہ لگانا اُن کے لئے تو مشکل نہیں ہوگا۔

ٹرمپ اور آسٹریلوی وزیراعظم کی مذکورہ کال ایک گھنٹہ تک طے تھی، مگر پچیس منٹ پر ہی اعصاب جواب دے گئے، آسٹریلیا کے ساتھ پناہ گزینوں کے بارے میں اوباما دور میں ہونے والے معاہدے کو بھی موصوف نے ’احمقانہ‘ قرار دے دیا، اور یہ بتاتے ہوئے فون بند کردیا کہ اس معاہدہ پر نظر ثانی کی جائے گی۔(آسٹریلوی وزیراعظم کی نگاہ میں بھی یہ ’’بدترین کال‘‘ ہی قرار پائے گی) اس قسم کے اندازِ گفتگو کے بعد دیگر ممالک کے حکمران بھی اب ٹرمپ سے بات چیت کرتے وقت محتاط رہیں گے، نہ جانے کس وقت کونسا معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ فون بند کر دیا جائے۔ اس قسم کے وی وی وی آئی پی فون کے بارے میں میڈیا کو مرضی کی اطلاع بھی دی جاسکتی ہے، کتنی دیر بات ہوئی، موڈ کیسا تھا، رویہ کیسا تھا، کیا کچھ معاملات طے پائے؟ جو بتایا جائے گا وہی سچ مانا جائے گا، مگر ’سرکاری سچ‘ کے لئے بھی کچھ محتاط ہونا پڑے گا، کیونکہ آئی ٹی کا زمانہ ہے اور میڈیا بہت تیز ہے۔ ایک طرف ٹرمپ کا یہ رویہ ہے، دوسری طرف روس جیسے ملک پر ٹرمپ کی حمایت میں دھاندلی کا الزام بھی لگایا جارہا ہے، اور پیوٹن سے دور رہنے کا مشورہ دیا جارہا ہے، اور پاکستان کے لئے پریشانی کی خبر یہ ہے کہ تند و تیز ماحول میں بھی ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم مودی کو دورہ امریکہ کی دعوت دی ہے۔ اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں، سابق امریکی صدر بش نے بھارت میں تین روز گزارے تھے اور پاکستان ایک رات ، وہ بھی امریکی سفارتخانے میں۔ اگر کوئی امریکی صدر بھارت سے واپس جاتے ہوئے کچھ دیر اپنے ہاں قیام کر لے تو کافی سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم سے ٹرمپ کب اور کیا بات کرتے ہیں، اور اس کال کو کس درجے میں شامل کرتے ہیں؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.