امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم ممالک کی
شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی کے بعد یورپی ممالک میں سخت احتجاج دیکھنے
میں آیا ۔ لیکن حیران کن طور پر سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے ٹرمپ
پالیسیوں پر اپنے اطمینان کا اظہار کرکے پوری مسلم امہ کو حیران کرڈالا ۔مسئلہ
یہ نہیں کہ ہے امریکہ اپنی لینڈ سیکورٹی کیلئے کس حد تک جا سکتا ہے ، لیکن
حیران کن بات یہ ہے کہ آل سعود نے امریکہ کی مسلم دشمنی پالیسیوں کو اگر
ایران کی وجہ سے خوش آمدید کہا ہے تو ایسے یقیناََ اچھا تاثر قائم نہیں ہوا
ہے۔ مسلم امہ کو شام ، عراق ، افغانستان، صومالیہ ، یمن ، سوڈان اورایران
پر امریکی سفری پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ ایران کے علاوہ ان
مہاجرین نے مسلم ممالک کہلانے والے حکمرانوں سے اپنی امیدیں ختم کردیں ہیں
، کروڑوں کی تعداد میں بے گھر ہونے والے مسلمان یورپی اور امریکہ کے دروازے
پر اپنی زندگی بچانے کیلئے کھڑے ہیں اور ہمارے مسلم ممالک ان کی زبوں حالی
کا تماشہ اُس گدھ کی طرح دیکھ رہے ہیں ، جیسے کوئی ادھ مرے کی موت کا
انتظار کرتا ہے۔
آل سعود مجھے اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کیونکہ سعودی عرب ، سر زمین حجاز سے
مسلم امہ کاانتہائی تقدس کا رشتہ ہے ، سر زمین حجاز کے تحفظ کیلئے کوئی بھی
عام مسلمان بھی اپنی جان نچھاور کرسکتا ہے ۔ سر زمین حجاز کے خلاف سازشوں
کرنے والوں کے خلاف کوئی مسلمان عدم برداشت سے کام نہیں لے سکتا ۔ لیکن آل
سعود اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ٹرمپ پالیسیوں کی حمایت کا اعلان
مایوس کن ہے، جس سے مسلم امہ کو دلی تکلیف پہنچی ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ
عراق پر امریکہ نے حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ ایک جھوٹی رپورٹ کی
بنیاد پر بجا دی ، بر طانیہ نے تو معافی بھی مانگ لی لیکن عراق ابھی تک
امریکہ کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے ۔ شام ، عراق ، یمن، صومالیہ ،
افغانستان میں خانہ جنگیاں امریکی پالیسیاں بنیں ۔ افغانستان کیلیے امداد
کے نگران امریکی ادارے سیگار (اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن)
نے کہا ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود وہاں تعمیر نو کا عمل کمزور
اور نامکمل ہے۔امریکی ادارے سیگار کے مطابق افغان طالبان اور دیگر باغی
گروپ ملک میں پہلے سے کہیں زیادہ علاقوں کو کنٹرول کرتے جا رہے ہیں اور
اپنا دائرہ اثر بڑھا رہے ہیں۔ ادارے نے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو
دی جانے والی اپنی پہلی رپورٹ میں افغانستان میں تعمیر نو کے حوالے سے ہونے
والی پیش رفت کی ایک تاریک تصویر پیش کی ہے۔دوسری جانب اس رپورٹ میں اس امر
کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ افغان حکومت کو مشکل سے آدھے ملک پر کنٹرول
حاصل ہے، اس کی سیکیورٹی فورسز کی نفری کم ہوتی جا رہی ہے اور منشیات کی
پیداوار بڑھ رہی ہے، مزید یہ کہ منشیات کے خاتمے کی کوششیں کمزور پڑتی جا
رہی ہیں، افغانستان میں ساز و سامان اور خدمات کی خریداری میں کی جانے والی
بدعنوانی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔امریکی ادارے کی رپورٹ بڑی اہمیت کی
حامل ہے کہ 16سال افغانستان میں نیٹو افواج کے ساتھ ملکر افغانستان کو فتح
نہیں کرسکا اور اپنی پسند کی حکومت نہیں بنا سکا ۔ کابل انتظامیہ کرپشن اور
صرف پاکستان مخالف الزامات کی بل بوتے پر امریکی امداد حاصل کرنے میں لگی
ہوئی ہے ۔ اس صورتحال میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ افغانستان تو امریکہ کے
خلاف ، جنگ خود اپنے ملک افغانستان میں لڑ رہا ہے ۔ وہ سات سمندر دور جاکر
امریکا کیلئے کیا پریشانی کا سبب بن سکتا ہے ، افغانستان سمیت باقی تمام
ممالک بین الابحری بلاسٹک میزائیل بھی نہیں ہیں اور نہ ہی روس کی طرح کوئی
ایسا ہیبت ناک میزائیل ہے (جیسے شیطان دوئم کے نام دیا گیاہے) تو پھر
امریکی سر زمین کو ان مسلم ممالک کے شہریوں سے کیا تکلیف ہوسکتی ہے۔جب کہ
امریکہ کی جانب سے جب چاہے ڈرون حملے کرکے صرف نقصان ہی پہنچایا جاتا رہا
ہے۔ یہ ممالک آپس کی خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے ہیں تو فرقہ واریت کا بیج
بھی امریکی شہ میں بویا گیا ہے ، باقی جو کچھ بچا وہ داعش کی سر پرستی کرکے
مسلم امہ پر مسلط کردیا گیا ۔
یہ صرف امریکا کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ممالک کا پہلا اور بنیادی حق
ہے کہ وہ اپنی سر زمین کی حفاظت کرے اور اس کے لئے جس قدر تسلی بخش اور سخت
اقدامات کئے جا سکتے ہیں ، کئے جائیں ۔ لیکن اقوام متحدہ جو کہ ایک مکمل
غیر فعال ادارہ ہے ،اس کا اپنا منشور ہے کہ جنگ زدہ علاقوں سے آنے والوں کو
واپس جنگ زدہ ممالک میں مرنے کیلئے نہیں بھیجا جا سکتا ۔ آل سعود نے ایران
کی دشمنی میں امریکا پالیسی کی حمایت کی ہے ، حالانکہ یہ وہی امریکا ہے جس
نے نائن الیون کے حوالے سے امریکیوں کو یہ حق دیا تھا کہ وہ کسی بھی ملک کے
خلاف مقدمہ درج کرکے اپنے نقصان کو حاصل کرسکتے ہیں ، جس پر سعودی عرب کے
حکمران چراغ پا ہوگئے تھے ، کیونکہ نائن الیون کے واقعے میں ملوث افراد کی
زیادہ تعداد سعودی شہریوں کی تھی ، جس سے سعودی حکومت کو خطرہ محسوس ہوا کہ
جا سٹا کی قانون کے تحت ان کے اثاثے ضبط کئے جاسکتے ہیں ، اس لئے آل سعود
نے کھلی دہمکی دی تھی کہ اگر ایسا ہوا تو سعودی اثاثے فروخت کردیئے جائیں
گے ۔جس پر امریکی سابق صدر اوبامہ دوڑتے ہوئے سعودی حکمرانوں کے پاس پہنچ
گئے ۔ لیکن اس کے باوجود امریکی صدر کے ویٹو پاور کو امریکی ایوان نے مسترد
کرکے کالا قانون پاس کردیا ۔
عالمی اسلامی جانتی ہے کہ آل سعود اور متحدہ عرب امارات کی امریکا کے ساتھ
اچھے تعلقات ہیں اور ان کے مشترکہ کاروباروں کی وجہ سے ان کے خزانوں میں
اضافہ ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کے خلاف امریکا نے" میٹھے میٹھے" میں وہ حال
کردیا ہے کہ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے نہ جانے کب تک ان
ممالک کا دست نگر رہنا ہوگا ۔آل سعود اور متحدہ عرب امارات کو ٹرمپ
پالیسیوں کی حمایت سے قبل یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ مسلم امہ امریکا جاکر
، وہاں اعلی تعلیم حاصل کرکے واپس ان کے ملک میں نہیں آتے ، بلکہ امریکا ان
جیئنیس افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاکر اپنے ملکی مفاد کو کامیاب کرتا
ہے ، امریکی نظام معاشرت ایسی ہے کہ وہاں جانے والا ، وہیں کا ہو جاتا ہے ،
کسی عام غریب ملک کے شہری کے لئے امریکا گرین کارڈ ، ایسا ہی جیسا کسی جنت
کے محل کا پروانہ ، لیکن صاحب ثروت افراد کیلئے امریکا کی پابندیاں کوئی
معنی نہیں رکھتی ، وہ اپنے دولت کے بل پر پوری دنیا میں کہیں بھی جا سکتا
ہے اور رہ سکتا ہے۔ غریب عوام کو امریکا کی پابندیوں کا کوئی نقصان نہیں ہے
، امریکا ذہین دماغوں کو مراعات کے بل پر اغوا کرلیتا ہے اور اپنے ملک کا
شہری بنا لیتا ہے۔برطانیہ کی جانب سے سب سے سخت ردعمل حیران کن اس لئے نہیں
ہے کہ مسلم ممالک پر پابندی لگ رہی ہے ، بلکہ برطانیہ کے شہری مسلمانوں کا
نقصان ان کے مد نظر ہے ۔امریکا سے سخت امیگریشن کے قوانین بر طانیہ کے ہیں
۔لیکن برطانیہ اپنے شہریوں کے تحفظ کا ذمے دار ہے اس لئے وہ اپنے ملک میں
نسل پرستی کی ہوا کو روکنے کیلئے امریکا کی پالیسیوں کی حمایت کررہا ہے ۔
جرمنی نے شامی پناہ گزینوں کے لئے بڑا اقدام تمام تر مخالفت کے بجائے
اٹھایا اور مہاجرین کو پناہ دی۔جرمنی کے چانسلر کو سخت ردعمل کا سامنا بھی
کرنا پڑا ، لیکن جرمنی جیسے ملک نے مسلمانوں کے لئے اپنے ملک کے دروازے
کھول دیئے۔لیکن کیا آل سعود نے یا متحدہ عرب امارات نے اُن مہاجرین کیلئے
اپنے ریگستانوں میں آباد کرنے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھایا تو اس کا جواب
نفی میں ملے گا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ورک پرمٹ دیکر انھیں اپنے
ممالک میں آباد کرسکتے تھے ، ان پر بوجھ بھی نہیں ہوتا اور دوسری اہم بات
یہ ہے کہ مہاجرین خود کفیل ہوکر اقوام متحدہ کی بھیک کے محتاج بھی نہیں
ہوتے۔سر زمین حجاز ہمارے لئے مقدس ہے ، مکہ مدینہ کا احترام و اس کی حفاظت
ہم پر فرض ہے ۔سر زمین حجاز کی جانب میلی آنکھوں سے دیکھنے والوں کو جواب
دینا فرض اولین ہے ، لیکن تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ہمارے جذبات
اپنے شامی ، عراقی ، فلسطینی، یمنی، افغانی، صومالیہ، مسلمان بھائیوں کے
ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جارحیت کیا ہوتی ہے ، وہ ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا ،
مسلسل 70 برسوں سے کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے ، ہزاروں کشمیری
مسلمان ، بھارتی جارحیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، اب اگر ہم یہ کہیں کہ ہم ان
کے ساتھ نہیں دیں گے کیونکہ بھارت کی پالیسی درست ہے تو یہ کہاں کا انصاف
ہوگا ۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان مسلسل پاکستان کیلئے اپنی خود مختاری کیلئے
اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ۔ ہماری شہہ رگ کوکاٹ کر کہا جائے کہ
مردہ جسم کو زندہ کردو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ کوئی بھی مسلمان سعودی عرب سے
بغض معاویہ میں عناد نہیں رکھ سکتا ، لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسیوں نے
جہاں متحدہ عرب امارات کو بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرکے پاکستان سے ،
افغانستان کی طرح دور کردیا ، اب سعودی عرب پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کو
کسی خاطر میں لائے بغیر امریکا کی جانب مسلسل جھکاؤ ، صرف اس لئے کررہا ہے
کہ اس نے ایران پر پابندی لگائی ہے تو یاد رکھنا چاہیے کی ٹرمپ گھاٹے کا
سودا کبھی نہیں کرتا ، ٹرمپ پکا ساہوکار ہے ، چمڑی و دمڑی کا فرق کو اس سے
بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ |